بھارت کا دستور بمقابلہ منو سمرتی

منو کا قانون جدید طریقے سے سماج پر لاگوکیا جارہا ہے

سید مقصود،ظہیر آباد۔ تلنگانہ

پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لیے آئینی حقوق کا حصول، یوم جمہوریہ کا پیغام
’’26 جنوری 1950 کو ہم دور تضادات میں قدم رکھنے جارہے ہیں۔ سیاست میں مساوات ہے۔ مگر معاشی اور سماجی زندگی میں عدم مساوات، سیاست میں ہم نے ایک شخص، ایک ووٹ ایک قدر کے اصول کو اپنایا ہے۔ معاشی اور سماجی زندگی میں ہمارے سماجی ڈھانچے کی وجہ سے ایک شخص ایک قدر کو انکار کیا ہے۔ کتنے دن اس عدم مساوات کو ہم جاری رکھیں گے۔‘‘ یہ الفاظ تھے بابا صاحب امبیڈ کر کے۔ انہوں نے 26 نومبر 1949 کو دستور کو اسمبلی کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا۔ آج بھی اس کی معنویت باقی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو 26 جنوری 1950 منو سمرتی کے خاتمہ کا دن تھا۔ مگر آج بھی منو کا قانون مذہب کے روپ میں، کلچر کے روپ میں اور روایات کی شکل میں زندہ ہے۔ کیونکہ ’’ہندو فلسفہ کے نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا ہندو ازم مساوات کا دشمن، آزادی سے نفرت کرنے والا اور بھائی چارگی کا مخالف ہے۔ ہندو ازم کا فلسفہ نہ تو سماجی افادیت کے معیار پر پورا اترتا ہے نہ انفرادی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے‘‘ 72 سال بعد بھی دستور پر مکمل عمل نہیں ہوسکا (بابا صاحب امبیڈکر کی تقریریں و تحریریں۔ جلد تین، صفحہ نمبر 66 شائع کردہ حکومت مہاراشٹرا)
بھارت کے دستور کے مقابلے میں منو کا قانون دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی سماج ہزاروں سالوں سے بھی غلامی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوسکا۔ قوموں کی تاریخ میں غلامی پائیدار ہے نہ آزادی دائمی۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں تین ہزار سالوں سے آبادی کا کثیر طبقہ اقلیت کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ غلامی، غلاموں کی کوششوں سے کمزور تو ہوئی ہے مگر ختم نہ ہو سکی۔ آج کے دور جدید میں بھی قائم ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا، اس کے پیچھے کون ہیں؟ یہ اب تک کیوں زندہ ہے، اس کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے بہت سارے سوالات جن کا حل نکالنا ضروری ہے۔ اس پر ہم غور کریں گے۔
بھارت میں جب آریہ برہمن داخل ہوئے ان کے داخلے کے ساتھ ہی یہاں کے مول نواسی (بھارت کے قدیم باشندے) غلام بنائے گئے۔ ان کے آباد شہر تباہ کردیے گئے۔ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کو غلام بنایا گیا اور اس غلامی کو دوام بخشنے کے لیے ایسا انتظام کیا گیا کہ وہ کبھی آزاد نہ ہو سکیں۔ کسی بھی قوم کی آزادی کے لیے احساس غلامی اور احساس غلامی کے لیے علم و جانکاری ضروری ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہتھیار اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے دولت ور وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی سے لڑائی لڑی جاتی ہے۔ برہمنوں نے ان وسائل سے ان کو دور رکھنے کے لیے مذہب، مذہبی شخصیتوں، مذہبی فلسفوں، مذہبی کتابوں اور قانون کا سہارا لے کر ان کو کبھی غلامی کا احساس ہی ہونے نہیں دیا۔ بلکہ ان کی ایسی ذہن سازی کی کہ وہ غلامی کے لیے پیدا کیے گئے۔ ان مول نواسیوں کو شودر کہہ کر ہتھیار کو چھیننے، تجارت کرنے پر قانونی پابندی لگا دی اور ان کے ساتھ ایسے کمتر پیشے مخصوص کردیے گئے تاکہ وہ خدمت ہی کرسکیں اور اس سے آگے کچھ سوچ نہ سکیں۔ اسی لیے یہاں کے مول نواسیوں نے اپنی آزادی کی تحریک کبھی چلائی ہی نہیں۔ کوششیں تو بہت ہوئیں مگر ان کی غلامی کبھی ختم ہی نہ ہو سکی البتہ کمزور ہوئی ہے۔ اس کے لیے غیر ملکی آریہ برہمنوں نے سماج کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور ہر حصے کے لیے الگ الگ کام طے کیے۔ برہمن، چھتری، ویش اور شودر۔ اس تقسیم کو قانونی حیثیت دینے کے لیے جو کتاب لکھی گئی اس کا نام منو سمرتی ہے۔ منو سمرتی کہتی ہے:
’’وید پڑھنا، وید پڑھانا، یگنیہ کرنا، یگنیہ کرانا، دان دینا، دان لینا، یہ کام برہمنوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں‘‘ (اشلوک:88)
چھتریوں کے کام: پڑھنا، یگیہ کرنا، دان دینا، عوام کی حفاظت کرنا، حرص نہ کرنا، نشہ سے پرہیز کرنا وغیرہ‘‘(اشلوک :89)
ویشو کے کام: گائے وغیرہ جانوروں کی پرورش کرنا، دولت کما کر مذہب کے لیے دینا، ہر طرح کی تجارت کرنا‘‘(اشلوک 90)
شودروں کے ذمہ محض ایک کام ہے۔ پروردگار نے شودروں کو بلا تنقید و نکتہ چینی کے برہمن، چھتریہ اور ویش تینوں کی خدمت کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔(اشلوک 91)
(باب 1صفحہ نمبر 16,17منو سمرتی اشلوک 88تا91)
یہ تھا وہ ظالمانہ قانون جو 26 جنوری 1950 کو قانوناً ختم کردیا گیا۔ مگر وہ آج بھی زندہ ہے۔ کیونکہ دستور نافذ کرنے والوں کی نیت کی خرابی کا اس میں بڑا دخل ہے۔ اس بات کا اندیشہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو تھا۔ اس لیے انہوں نے آئین ساز اسمبلی میں کہا تھا۔ ’’میں محسوس کرتا ہوں کہ آئین چاہے کتنا ہی اچھا ہو وہ برا بھی ہوسکتا ہے اگر آئین کے تحت کام کرنے والے خود اچھے نہ ہوں۔ برخلاف اس کے کسی خراب آئین سے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں اگر لوگ اچھے ہوں‘‘۔
آئین کو نافذ ہوئے 70برس گزرنے کے بعد بھی آئین کی روح کو ہم نہیں پہنچ سکے اور نہ اس کو نافذ کرسکے۔ دستور کہتا ہے۔ یہ مساوات، بھائی چارہ اور انصاف کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ساری چیزیں ہم بھارتیوں کو مل رہی ہیں کیا ابھی منو کا ہی قانون چل رہا ہے۔ جس طرح منو نے کہا برہمنوں کے ذمہ جو کام متعین لیے تھے وہی کام وہ کررہے ہیں۔ اس کی مثال وزیراعظم کی سکریٹریٹ میں موجود اڈمنسٹریشن کو ذات کی بنیاد پر دیکھا جائے تو وہ یوں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منو نے جوکام برہمنوں کے مختص کیاتھا وہی کام چلا رہا ہے
تجارت: تجارت ویشوں کے لیے مخصوص کی گئی۔ پروفیسر کانچا ایلیا کے سروے کے مطابق انہوں نے 100 بھارت کی ٹاپ کمپنیوں کا ڈاٹا جمع کیا CEO اور بورڈ آف ڈائرکٹرس اس طرح ہیں۔
دیش کی مکمل تجارت ویشوں کے کنٹرول ہی میں ہے۔ عدالتی نظام میں برہمن کو انصاف کرنے کا منو نے حق دیا ہے۔ 2018میں شرد یادو (MP) نے RTA کے تحت عدالتوں میں ذات کی بنیاد پر ججوں کے بارے میں سوال کیا۔ جملہ 610جج ہیں۔ جن کے فیصلوں کی نظیر زیریں عدالتیں لیتی ہیں۔ ان 18 چھوٹی اور مابقی سب اونچی ذات کے ہیں۔
چھتریوں کو ملک کی حفاظت کرنے اور حکومت کرنے کا حق منو نے دیا ہے۔ ملک کی 75فیصد ریاستوں کے چیف منسٹر چھتری ہی ہیں۔ شودروں کا کام سیوا کرنا ہے وہ بھی سروس میں شودر ہی نظر آتے ہیں۔ منو سمرتی کے باب 10 کے اشلوک نمبر 29 میں کہا گیا کہ شودر دولت حاصل کرکے برہمن کو ستاتا ہے۔ حکومت چاہے کانگریس کی ہو یا بی جےپی کی۔ انہوں نے ایسی معاشی پالیسی بنائی کہ شودر کبھی دولت مند نہ بن سکے۔ مزدوروں کے لیے جو قانون تھے ان سب کو رد کرکے شودروں کی غلامی پختہ کردی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ 1991میں
کے ذریعہ ان کی دولت چھیننے کا قانون بنا کر انتظام کیاگیا ہے۔ ایسے بہت سارے شعبہ جات ہیں جن سے منو کا قانون جدید طریقے استعمال کرکے سماج پر لاگو کررہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے 25دسمبر 1927کو بابا صاحب امبیڈکر نے منوسمرتی کو سر عام جلایا تھا۔ آج بھی ہر سال اسی روایت کے تحت منو سمرتی جلائی جاتی ہے مگر دستور کے مقابلے میں آج بھی وہ سماج کے چلن میں ہے۔ NPR, CAA, NRC یہ سب منو سمرتی کو حکومت کے ذریعہ نافذ کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہاں کی عوام OBC,SC,ST مذہبی اقلیتوں کے زمرے میں تقسیم کرکے ان کو کچھ حقوق دیے گئے تھے جو منو دھرم کے خلاف قانون تھے۔ ان کو پھر سے ہندو بناکر ان کی سابقہ پہچانOBC,SC,ST ختم کرکے ان کو ہندو بنایا جائے اور ان پر غلامی لاد دی جائے۔ برہمن دھرم کی ایک کمزوری ہے اس میں داخلے کاراستہ بند ہے۔ نکلنے کے راستے کھلے ہیں۔ NPR, CAA, NRC یہ سب راستے بند کرنے کی سازش ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ ہمارے سدھائے ہوئے غلام آزاد نہ ہوجائیں۔ آج کے اس ماحول میں اس سازش کو جہاں مسلمانوں کو سمجھنا ہے وہیں شودروں اوراتی شودروں کو بھی سمجھانا ہے تاکہ مسلمان بھی بچے رہیں اور وہ شودر بھی سلامت رہیں۔ 26جنوری کے اس موقع پر ہمیں غور کرنے، دوست و دشمن ظالم اور مظلوم کی پہچان کرکے اپنے اجتماعی رویے میں تبدیلی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے میں ہی یوم جمہوریہ کا پیغام چھپا ہے۔
***

 

***

 برہمن دھرم کی ایک کمزوری ہے اس میں داخلے کاراستہ بند ہے۔ نکلنے کے راستے کھلے ہیں۔ NPR, CAA, NRC یہ سب راستے بند کرنے کی سازش ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ ہمارے سدھائے ہوئے غلام آزاد نہ ہوجائیں۔ آج کے اس ماحول میں اس سازش کو جہاں مسلمانوں کو سمجھنا ہے وہیں شودروں اوراتی شودروں کو بھی سمجھانا ہے تاکہ مسلمان بھی بچے رہیں اور وہ شودر بھی سلامت رہیں۔ 26جنوری کے اس موقع پر ہمیں غور کرنے، دوست و دشمن ظالم اور مظلوم کی پہچان کرکے اپنے اجتماعی رویے میں تبدیلی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے میں ہی یوم جمہوریہ کا پیغام چھپا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022