باپ کے ساتھ ہل چلانے پر مجبور دیس کی بیٹیاں!

لاک ڈاؤن کی مار، روزگار سے محروم آندھرا کاخاندان

 

ساتھ ضعیف باپ کے لگ گئیں کام کاج پر گہنے چھپا کے لڑکیاں دادی کے پان دان میں
یوں تو یہ ایک شعر ہے لیکن زمانہ گواہ ہے کہ ہر سختی کے ہر دور میں بیٹیوں نے بھی اپنے باپ کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا ہے۔ چنانچہ وننیلا اور چندنا نام کی دو لڑکیوں کو اپنے باپ کے ساتھ کھیت میں ہل جوتنے کے لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ ان کے پاس ٹریکٹر کرائے پر لینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ضلع چتور کے مدنا پلی سے تعلق رکھنے والے کسان ناگیشور راؤ کا سارا کاروبار لاک ڈاؤن کے دوران برباد ہوگیا جس کا مدنا پلی میں ایک چھوٹا سا ٹی اسٹال تھا۔ کرائے کے گھر میں رہنے والے ناگیشور راؤ کو مجبوراً اپنے آبائی گاؤں کو واپس لوٹنا پڑا۔ ناگیشور راؤ کی بیوی اپنی بپتا سناتے ہوئے کہتی ہے "آمدنی کے ذرائع بند ہوجانے کے بعد ہم نے زرعی کاموں کا آغاز کیا۔” لیکن پیسے نہیں ہونے کی وجہ سے اپنے کھیت میں ہل جوتنے کے لیے وہ بیل یا ٹریکٹر کا انتظام نہیں کرپائے۔ کیونکہ ٹریکٹر کے ایک گھنٹے کا کرایہ 1500 سو روپے تھا جس کو یہ ادا کرنے سے قاصر تھے۔اسی لیے ان کی بیٹیاں اپنے والدین کے ساتھ ملکر ہل جوتنے کے کام پر لگ گئیں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں یہ لڑکیاں ہل جوتنے کے لیے مجبور ہوگئیں۔
جب کبھی ایسی تصویریں نیشنل میڈیا میں آتی ہیں تو بڑے بڑے دعوے کرنے والی حکومت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بجٹ میں”پردھان منتری کسان سمان ندھی ” کے تحت پچھتر ہزار کروڑ روپیوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ہر کسان کے اکاؤنٹ میں چھ ہزار روپے کی ابتدائی امداد پہنچانے کے وعدے کیے گئے۔ پھر اس کے بعد لاک ڈاؤن راحت کاری کے لیے بیس لاکھ ہزار کروڑ کا اعلان ہوا۔ شاید لوگوں کو ابھی یاد بھی ہوگا کہ کچھ ہی ہفتوں پہلے فینانس منسٹر نرملا سیتارامن نے بڑے طمطراق سے مہاتما گاندھی نیشنل رورل امپلائمنٹ منریگا کے تحت تارکین وطن مزدوروں کی بازآبادکاری کے لیے بڑے بڑے اعلانات کیے تھے۔ نیشنل بجٹ کے اکسٹھ ہزار کروڑ میں مزید چالیس ہزار کا اضافہ کرتے ہوئے ہر مزدور کو یومیہ 300 روپے اجرت ملنے کا بھروسہ دلایا تھا۔ ان تمام اعلانات کا عام آدمی کو تک کتنا فائدہ ہوا؟ کیا حکومت نے ان اسکیمات پر عمل درآمد کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں یا یہ تمام باتیں صرف اعلانات تک ہی محدود تھیں؟ اگر ان اعلانات سے فائدہ ہوا تو پھر ملک میں ایسی تصویریں کیوں میڈیا کا حصہ بن رہی ہیں۔ جب حکومتی اقدامات، اعلانات سے عوام راست مستفید ہونے لگ جائیں تو کیوں سونو سود جیسے لوگوں کو آگے آکر اس پریشان حال اور مفلوک الحال کسان مزدور اور اس کی بیٹیوں کی مدد کرنی پڑی؟ "بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” صرف نعروں کی حد تک کیوں محدود ہوکر رہ گیا ہے؟

جب کبھی ایسی تصویریں نیشنل میڈیا میں آتی ہیں تو بڑے بڑے دعوے کرنے والی حکومت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بجٹ میں”پردھان منتری کسان سمان ندھی ” کے تحت پچھتر ہزار کروڑ روپیوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ہر کسان کے اکاؤنٹ میں چھ ہزار روپے کی ابتدائی امداد پہنچانے کے وعدے کیے گئے۔ پھر اس کے بعد لاک ڈاؤن راحت کاری کے لیے بیس لاکھ ہزار کروڑ کا اعلان ہوا