بارگاہِ الٰہی میں ’قرآن کی فریاد‘

انسانوں نے عملاً قرآن کو اپنی زندگی سے بے دخل کر دیا ہے

ش م احمد، کشمیر

 

بارِ اِلہٰا! میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید آپ کا نازل کردہ کلامِ مقدس ہوں۔۔۔ عالمِ انسانیت کے لیے حق و باطل کا آئینہ، صحیفہ ہدایت، دستورِ حیات، ظلمات سے رہائی پانے کا پروانہ، آزادی کا مژدۂ جان فزا، نور کی سواری، کامیابی کا سامان، انسانیت کا پاسبان، نقصان وخسارے سے بچاؤ، منفعت کا سجھاؤ، ہمہ وقت مخلص مشیر، نجات کا نقش راہ، لاینحل مسائل کا حل، مفاہمت کا راستہ، امن کی منزل، محبت کا گلدستہ، اُخوت کی خوشبو ، فسادات کا خاتمہ، تضادات سے خلاصی، نیکی کا غیر مختتم خزانہ، بدی کے لیے موت، خوش حالی کی ضمانت، طمانیت کا خزینہ، عقل کا پیامی، فہم کا داعی، انصاف کا ترازو، قانون کی سند، جنت کی شاہراہ، دوزخ سے چھٹکارا، ایمان کا مربی، ایقان کی کسوٹی، علم وفن کا دلداہ، عبادات کی بہار، آئین ِامامت، انوارِ خلافت، کمالات کی ترغیب، جمالِ کردار، حُسنِ فطرت، رہنمائے حکمت، اَن گنت نعمتوں کا گلشنِ پُر بہار۔
خدائے ذوالجلال! مگر اُف! اس بھری دنیا میں کوئی نہیں جو بصدق دل تسلیم کرے۔ قرآن اس کے لیے کتاب ہدایت ہے، نصاب حیات ہے، صلائے ایمان ہے، ندائے رُوح ہے، عقل وشعور کو پرواز دینے والا شہپر ہے۔ مجھ زیادہ سے زیادہ معدودے مذہبی رسومات تک محدود کیا گیا ہے۔ میری یاد ضرور آتی ہے جب کسی دُلہن کی رُخصتی ہو رہی ہوتی ہے اور باجے کی دُھن میں اس کے سر پر دو پانچ منٹ مجھے رکھ کر میری نمائش کی جاتی ہے، پھر عمر بھر میرا پاک سایہ اُس کے سر اور دل سے جدا رہتا ہے۔ میری تھوڑی بہت ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کسی جان بلب انسان کا دم نکل رہا ہو تاکہ اس کی رُوح جلد از جلد پرواز کر سکے۔ حالانکہ میری تمام آیات کاملاً زندگی سے عبارت ہیں۔ مُردوں کے ایصال ثواب کے وقت بھی میری ورق گردانی کی جاتی ہے۔
تو کیا ابن آدم نے عملاً مجھے اپنی عملی زندگی سے کھرچ کھرچ کر بے دخل نہیں کیا ہے؟
میں ابدی سچائیوں کا گواہ ہوں مگر لوگ میری جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں آپس میں دھوکہ دہی کرنے کے لیے، ایک دوسرے کا حق مارنے کے لیے، عارضی فوائد سمیٹنے کے لیے۔ میں ہی ڈھال کے طور پر ان سارے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہوں۔ اور ہاں! میرا تماشا جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈے، مذہبی استحصال، جعلی درویشی، مسلکی تقسیم، طبقاتی کشاکش، خشک اور لایعنی بحث ومباحثے، تقریری مقابلوں، تحریری پہلوانی، نذرونیاز کی کمائی، مناظرہ بازی جیسی دوکانیں چمکانے کے لیے بھی ہو رہا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
رب کریم ! موجودہ دُنیا میں مَیں کسی کا چہیتا نہیں، کوئی میری ہدایت کا طالب نہیں، کسی کو میری مشاورت درکار نہیں، کسی کو میری سرزنش پر اعتبار نہیں، میری دھمکی کے باوجود کسی کو گناہ کے دلدل میں پھنسنے سے اجتناب نہیں، میرے انذار سے ہر اعلیٰ وادنیٰ غافل ہے۔ حال یہ ہے؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
اے خدائے ذوالجلال! میں تمام انسانوں سے بلا تفریق مہر وماہ کا لاثانی رشتہ رکھتا ہوں، لوگوں کی تکالیف پر میر ادل کڑھتا ہے، اُن کے کڑوے مسئلوں کا ازالہ کرنے کے لیے بے قرار ہوں مگر افسوس! دنیائے انسانیت مجھ سے لا تعلق ومہجور ہے۔ اسے میرے ساتھ اپنی نافرمانیوں پر کوئی شرم ساری نہیں، اس کی رُو گردانیاں ناقابلِ بیان ہیں، حلال کیا ہے حرام کیا ہے یہ مجھ سے کون پوچھے؟ سب شیطانی دجل وفریب یا نفس امارہ کی من مانی سے حلت وحرمت کے اصول بنالیتے ہیں۔
یاحی وقیوم! میں انسان کی عمومی گمراہی وضلالت، بدامنی، بے چینی سے دل برداشتہ ہوں، اُس کی بغاوت کا شاکی ہوں، اسی لیے آپ کے حضور دُہائی دینے اپنی فریاد و فغان لیے بار گاہِ عدل میں حاضر ہوں۔ آپ نے قرآن کو متروک العمل بنانے کی پہلے ہی تصویر کشی کی ہے:
’’اور رسول کہیں گے: اے میرے رب !میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا‘‘ (فرقان:۳۰)
شکوہ زن ہوں کہ مجھے انسان نے عملاً ترک کیا ہوا ہے۔ آج سب سے زیادہ مظلومیت کا استعارہ، محکومیت کا حوالہ، عدم توجہی کی مثال، سرد مہری کا اشتہار، احسان فراموشی کا نمونہ، غیریت کی شکار کتاب اللہ ہے۔ کس کس کا گلہ کروں؟ کن کن کی احسان فراموشی کا رونا روؤں؟ مجھ سے عرب کی دوری کا گلہ کروں؟ عجم کے ستم ہائے صد رنگ بتاؤں؟ شرق کا ظلم بولوں یا غرب کی زبان درازیاں عرض کروں ؎
جو لوگ ہویٰ کے ساتھی ہیں، وہ اپنے خدا کے باغی ہیں
اس جرم بغاوت سے بڑھ کر ایمان کا نقصان کیا ہوگا
ائے علیم وخبیر !آپ سمیع وبصیر ہیں، سب جانتے ہیں، سب دیکھتے ہیں، کراماً کاتبین شب وروز احوالِ آدم لکھے جا رہے ہیں۔ آپ کی ذاتِ بے ہمتا عادلانہ فیصلہ لینے کی مجاز ومختار ہے۔ میں نے اپنے اوپر ڈھائے جارہے ظلم وستم کی رُوداد سنائی تاکہ میری شنوائی ہو۔ مولا! دنیا میں میرا بُرا حال ہو رہا ہے، ایسا ہی بُراحال جیسے بازارِ طائف میں تیرے پیغمبر کی ذاتِ اقدس پر اوباشوں نے پتھر مار مار کر کیا۔ مجھ پر بھی طائف کی مانند طعن وتشنیع، حکم عدولی، عدم تعمیل کے نوکیلے سنگ ریزے چاروں طرف سے برسائے جارہے ہیں کہ لہو لہان ہوں۔ میرے اصولوں کی زبان بندی کی جارہی ہے ، میری لائی ہوئی شریعت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، میری خوش خبریوں اور دھمکیوں کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ میری تنبیہات، عذاب کی وعیدوں، مکافات عمل کی مثالوں کو قصہ گوئی سمجھا جا رہا ہے۔ نہ قومِ نوحؑ، نہ نمرودد، نہ فرعون کا بُرا انجام، نہ قومِ لوط، نہ قوم ثمود کی دل دہلانےو الی سرگزشت سے سرکشوں کے دل پگھلتے ہیں نہ کردار میں بدلاؤ آتا ہے۔ غرورِ نفس میں مبتلا شیطان کے پجاری مجھ پر دقیانوسی، رجعت پسندی، ترقی دشمنی کے طعنے کسے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ میری بتائی ہوئی راہِ امن پر چلتے نہیں، انسانیت کے دفاع میں میری کاوشوں کو قبول نہیں کرتے، میری تقلید میں رنگ، نسل، قوم اور زبان کے بھید بھاؤ سے بالاتر بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا ڈھب بناتے نہیں، کمزور قوموں کو تاراج کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، آباد وشاداب ملکوں کو فوجی طاقت کے بل پر نشانہ عبرت بنانے سے باز آتے نہیں اور پھر بے شرمی یہ کہ خود کو جمہوریت نواز، حقوق البشر کے حامی، آزاد خیالی کے پیکر جتلاتے ہوئے مجھے دہشت گرد، انتہا پسند، شدت پسند بتلاتے پھرتے ہیں۔ میرے بتائے ہوئے نظامِ عدل سے سرعام انحراف ہو رہا ہے۔ میں نے پاکی اور نیک عملی کے جن انمول موتیوں کو سدا بہار مالا میں پرو کر محبتوں سے انسان کے گلے ڈالا تھا، اُس مالا کو ’’ادب و ثقافت اور ترقی و جدت‘‘ کے نام سے فحاشی، عریانیت اور فسق وفجور کی زنجیروں سے بدلا جا رہا ہے۔ خوشی و غمی کے لیے میرے سادہ حکموں اور اخلاقی قدروں سے منہ موڑا جا رہا ہے۔ ملّی اتحاد کو پروان چڑھانے والے میرے آزمودہ فرامین کو کھلم کھلا لتاڑا جا رہا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والی جن وحشی قوموں کو میں نے ایک خدا کی بندگی، رسول کی اتباع، ایک ’الکتاب‘ کی فرماں برداری، ایک قبلہ کی سمت میں جوڑ کر ہم دوش ثریا کیا تھا، انہی اقوام کو اب راہِ راست سے ہٹا کر نہ جانے کتنے لات ومنات، رسومات، توہمات، بدعات، یہود ونصاریٰ کی دجالی خدائیت اور جابر وقاہر قوتوں کا غلام در غلام بنایا جا رہا ہے۔
خدائے بزرگ وبرتر! میری آیات کی وساطت سے پوری انسانیت آپ کی مخاطب ہے۔ مجھے آپ نے نہ کسی شخص کی ذاتی جاگیر بنایا، نہ کسی قوم یا خطے کی نجی میراث میں لکھا، مجھے پوری انسانیت کے لیے اپنا ابدی تحفہ اور ازلی امانت کے طور پر اہل ایمان کے سپرد کر دیا، البتہ میری ہدایت صرف متقین کے لیے مخصوص رکھی۔ کوئی مانے نہ مانے مگر صرف میں ہی تمام انسانیت کے لیے آپ کی بے پایاں محبت وخیرخواہی کا رہنما اصول ہوں۔ نیز الخلق عیال اللہ کے صدقے ہر کوئی میرا اپنا ہے، میری محبت وخلوص کا یکساں حق دار ہے مگر انسانوں میں کوئی ہے جو مجھ سے بغل گیر ہے؟ مجھ سے نصیحت حاصل کرتا ہے؟ مجھ سے رہبری چاہتا ہے؟ میرا مسلک ’’ہر ملک، ملک ماست، ملک ِ خدائے ماست‘‘ ہے( یعنی زمین خدا کی ملکیت ہے اور یہ سب ہمارے وطن ہیں) تقسیم تو انسانوں نے خود کی ہوئی ہے۔ اس تقسیم کے توسط سے میرے ’’اپنے‘‘ بڑی لاپروائی بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ میری نافرمانیاں کر رہے ہیں اور ’’غیر‘‘ زبان طعن دراز کر کے میری بُرائیاں کر رہے ہیں اور تشکیک والحاد پھیلا رہے ہیں۔ یوں دنیا میں، میں اکیلا پڑا ہوں، تنہائی کا مارا، اجنبیت کا ستایا۔ کیا مسلمانوں میں میرے احکامات، تعلیمات، اخلاقیات کی کسی کو فکر دامن گیر ہے؟ صرف زبانی کلامی عزت و محبت کے دعوے ہیں۔ بلا شبہ میرے نام پر بے شمار دارالعلوم، اُنجمنیں، ادارے موجود ہیں مگر یہ سب نمبر شماری کے لیے ہیں۔
میں دنیا کے ہر کوچہ وبازار میں کتابی صورت میں موجود ہوں، میرے تراجم ہو رہے ہیں، میری بڑی بڑی شرحیں و تفسیریں موجود ہیں مگر عمل ندارد۔ لا تعداد چھاپے خانے روز میری دیدہ زیب طباعت کرتے ہیں، کچھ بندگان خدا مجھے اپنے خوش نصیب سینوں میں محفوظ کر رہے ہیں، مساجد قائم ہو رہی ہیں، پنج وقتہ اذانیں گونج رہی ہیں، نمازیں ادا ہورہی ہیں، اھدنا الصراط المستقیم کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، حُسن قرأت کی مجلسیں آراستہ ہو رہی ہیں، واعظ وخطیب میری آیات پڑھ پڑھ کے منبر ومحراب گرماتے ہیں مگر سب اثر اور اصلیت سے خالی۔ ہاں کوئی کوئی بندۂ خدا ہے جو میرے سامنے سرنگوں ہے، میری اطاعت کا قلادہ گردن میں ڈالے ہوئے ہے باوجود یہ کہ اس کے سر پر مجبوریوں کی تلواریں اور مشکلات کی کٹاریں سایہ فگن ہیں۔ اب آپ ہی
انصاف کریں کہ میں غریب الدیار کیا کروں۔
یکایک سورہ آل عمران کی آیت ۱۳۹ کی صدائے غیبی آئی ؎
خرقہ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش
’’اَنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘ تاجی بر سرش
یعنی غم نہ کرو، تم ہی اعلیٰ و بالا رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021