اے انسان،اپنی حقیقت کو پہچان!

کروناعالمی وبا: لمحۂ فکریہ! دعوتِ رجوع الی اللہ

 

صورتحال: اس وقت دنیا ایک انتہائی تشویشناک دور سے گزر رہی ہے۔وبائیں و حادثات اس سے پہلے بھی دنیا نے دیکھے ہیں اور تباہی بھی بڑے پیمانے پر مچی ہے مگر کووڈ۔۱۹ کی وبا جو فی الواقع عالمگیر ہے اور اس وقت جس تیزی سے خصوصاً ہمارے ملک میں پھیل رہی ہے اس نے انسان کی بے بسی و بے چارگی پر سے پردہ اٹھادیا ہے۔ کروڑوں انسان مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔مرض کا کوئی علاج نہیں ہے اور ویکسین کی دریافت کوسوں دور ہے۔ عالمی صحت عامہ کے ماہرین کا انتباہ ہے کہ یہ مرض بہت دیر تک چلے گا اور چند دہائیوں میں دنیا کی آبادی میں ۲۵؍فیصدی کمی واقع ہوگی۔ بھکمری، بیروزگاری، معیشت کی تباہی، طرز زندگی میں غیر معمولی تبدیلی نگاہوں کے سامنے ہے۔چھوٹے بڑے پیمانے پر دیگر عذابات۔۔سرسریاں، زلزلے، باڑ، خانہ جنگی ، آگ، جنگ و جدل اورماحولیاتی آفات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس کا اس وقت انسانیت شکار ہے۔
حفاظتی تدابیر کے ساتھ اخلاقی وجوہ پر توجہ: انسانی جان کی حفاظت، مرض کی شدت کو کم کرنے اور پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جن حفاظتی تدابیر اور انتظامات کا اس وقت حکومت اور طبّی ماہرین کی طرف سے تاکید کی جارہی ہے وہ نہایت ضروری ہیں اور ان پر سختی سے شرعی حدود میں کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔ مگر حالات کے الٹ پھیر میں دو بڑی حقیقتیں کارفرما ہوتی ہیں جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ ایک خالق کائنات کی بے پناہ قدرت اور دوسرے مکافات عمل کا اٹل قانون۔ زندگی کے معمولات میں انسان اکثر ان حقائق کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہی چیز اس کی دنیوی و اخروی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس اخلاقی فلسفہ کو بھی ہم یاد رکھیں۔
دنیا ۔ غفلت و بغاوت کا نظارہ اور گناہ و ظلم کی آماج گاہ:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر کائنات کو اس کے لیے مسخر کیا۔ مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان اپنی حقیقت کو بھول کر اپنی آزادی و اختیار کا غلط استعمال کرتے ہوئے خدا سے غافل و باغی بن کر بھیانک تباہی کے راستہ پر چل پڑا ہے۔انفرادی طور پر گناہوں سے لت پت زندگی اور اجتماعی طور پر ظلم و نا انصافی کے نت نئے روپ ہیں جو مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ رنگ و نسل و ذات پات کی تفریق، معاشی نابرابری کی افراد اور قوموں کے درمیان بڑھتی خلیج، مادی وسائل کی بہتات کے درمیان سسکتی انسانیت، اغراض و مفادات کی نہ ختم ہونے والی کشمکش _____یہ سب ایک کرب ناک منظر پیش کر رہے ہیں۔
خدائی تنبیہات: اللہ تعالیٰ کا خالق و مالک و مدبر و مختارِ کُل ہونا اور انسانی زندگی کا یہاں ایک امتحان ہونا اور آخرت کا ابدی جزا و سزا کا مقام ہونا_____ وہ بنیادی حقیقتیں ہیں کہ جب بھی ان سے انحراف کیا گیا،اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ کرنے اور ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے اس طرح کے مصائب و آلام نازل کیے۔
وَ لَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ( السجدہ:۲۱)
اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیابہ روش سے)باز آجائیں۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (الانعام:۴۲)
تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔
اصل بات تو یہ ہے کہ بغاوت کا راستہ اختیار کرکے انسان ہمیشہ کی تباہی سے آخرت میں دوچار ہوگا اور اسی خسارہ سے بچنے کی انسان کو فکر کرنی چاہیے۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَ ہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْن (الانبیاء:۱)
قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔
دنیا تو عارضی شئے ہے اور یہاں کی تکلیف و الم کا یہ حال ہے تو پھر آخرت کا کیا پوچھنا؟
رجوع الی اللہ: ان حالات کا صحیح سبق یہی ہے کہ انسان اپنے خدا کی طرف رجوع کرے، اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کرے، خدا سے اپنا تعلق درست کرے اور خدائے واحد کی بندگی و اطاعت کے ذریعہ اس ہمہ گیر فساد کا علاج کرے جو آج انسانی زندگی میں پیدا ہوگیا ہے۔ شرک سے کلّی اجتناب، اپنی پوری زندگی میں خدا اور رسول و کتاب کی مکمل پیروی ضروری ہے۔ ہمارے فکر و عمل میں جو بنیادی کجی پیدا ہوگئی ہے اس کو درست کیے بغیر کامیابی کی کوئی سبیل نہیں ہے۔
امت مسلمہ کٹھرے میں: افسوس کی بات ہے کہ جس گروہ کو دنیا کی نگہبانی و ہدایت کے لیے مامور کیا گیا تھا وہ اپنے فرض منصبی سے غافل دیگر قوموں کی طرح حیران و پریشان نظر آرہا ہے۔دنیا کی ظلمتوں کا تاریک ترین باب ہمارے حصہ میں آیا ہے۔آج انفرادی و اجتماعی توبہ و استغفارء، اعمال کی اصلاح اور دعوت الی اللہ کے فریضہ کی طرف از سر نو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔اپنی سوچ، زاویۂ نظر اور طرز عمل میں اس کو ایک انقلابی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ دنیا جس فساد سے ددوچار ہے اور یہ عالمی وبا جس طرح غیر معمولی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن رہی ہے اس میں اس بنیادی فساد کا علاج توحید، رسالت، آخرت کے بنیادی فلسفہ اور اسلام کے واحد مبنی بر عدل نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس عالمی نظامِ نو (New World Order) کی تعمیر میں اسلام اور مسلمانوں کا کلیدی رول ہونا چاہیے۔کیا ہم اپنے اندر یہ شعور و بصیرت پیدا کرنے اور دنیا کی امامت کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرسکتے ہیں؟ دنیا کی ذلت اپنی جگہ، آخرت کی اصل زندگی میں ہم کیسے رسوائی سے بچ سکتے ہیں؟
جماعت اسلامی ہند کا پیغام: ان حالات میں آئیے ہم (۱)اس وبا سے متاثر انسانوں کی بغیر کسی تفریق و تقسیم کے مدد کا کام انجام دیں۔احتیاطی تدابیر کے سلسلہ میں جانکاری، ماسک وعیرہ کی فراہمی، طبّی سہولتوں کے سلسلہ میں رہنمائی و تعاون اور جہاں ضرورت ہو مالی تعاون کریں۔ Helpline Covid 19(080-46809998) جس کے ذریعہ ڈاکٹرس فار ہیومینٹی (DFH)کی طرف سے ڈاکٹرس اور ہیومینٹیرین ریلیف سوسائٹی(HRS)اور SIOکی طرف سے والنٹیرس جو خدمت انجام دے رہے ہیں اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔مسجد و محلوں کی سطح پر بیداری مہم چلائیں۔(۲)لوگوں میں ہمت، بردباری، توکل، ذکر الٰہی اور صبر کی تلقین کریں ا ور اللہ سے استعانت اور حالات کی بہتری کے لیے دعاؤں کا اہتمام کریں۔
(۳)عام انسانوں کو خدا اور آخرت کی یاد دلائیں، بندگئی رب کی دعوت دیں اور اس کے تقاضے سمجھائیں۔
(۴)مسلمانوں کو اپنے داعیانہ مقام کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنے اور ذمہ داری نبھانے کی طرف متوجہ کریں۔
یاد رکھیے کہ اس وبا کا خاتمہ صرف ہماری تدبیروں سے نہیں بلکہ خدائے قدوس کے رحم و کرم کو متوجہ کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔
15؍روزہ آن لائن مہم: انشاء اللہ5؍اگست سے 20؍اگست تک ایک دو ہفتہ کی مہم حلقہ بھر میں ’’کووڈ۔19۔دعوتِ رجوع الی اللہ‘‘ کے عنوان پر منائی جائے گی۔سماجی فاصلے کی مشکلات اور بڑے پروگرام کرنے پابندیوںکے پیش نظر یہ مہم زیادہ ترonlineچلائی جائے گی۔ facebook، twitter، whatsapp، youtube ، وغیرہ digital platformsکے ذریعہ پیغامات ، پوسٹرس اور videosبڑے پیمانے پر شیر کیے جائیں گے۔ جہاں ممکن ہو انفرادی ملاقاتوں کا نظم کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ ریاست کی کم از کم ایک کروڑ آبادی تک یہ پیغام پہنچایا جائے گا۔ ان شاء اللہ اس مہم میں تمام رفقائے جماعت کو بھرپور طریقے پر متحرک کیا جائے گا۔
٭٭٭