ایک قبائلی کلکٹر کی منصوبہ بندی ملک میں بنی مثال

مہاراشٹر کے ضلع نندوربار کو ’آتم نربھر‘ بنانے کی کہانی

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

غریب ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ غریب آدمی بھی محنت اور لگن کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتا ہے معاشرے میں نام پیدا کر سکتا ہے جو تمام لوگوں کے لیے بھی قابل رشک عمل بن سکتا ہے۔ خاص طور پر آدی واسی ماحول سے نکل کر اپنے علاقے کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینا تو ملک کے لیے نہایت خوش آئند بات ہے۔
اس وقت جبکہ پورا ملک کورونا کی پہلی لہر کے کمزور پڑنے کے بعد خواب غفلت میں سو گیا تھا اور اقتدار میں بیٹھے سیاسی لیڈر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپانے لگ گئے تھے۔ تالی تھالی اور دیے روشن کر کے کورونا کو بھگانے کا ناٹک کر رہے تھے، اور کبھی ’گو کورونا گو‘ کے نعرے لگا کر کے سمجھ رہے تھے کہ کورونا اس منتر سے دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ ایسے وقت میں کوئی تو تھا جو مہاراشٹر کے بے حد پچھڑے ہوئے ضلع نندوربار میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پوری سنجیدگی اور دور اندیشی کے ساتھ حکمت عملی اور روڈ میپ تیار کرنے میں مصروف تھا۔ اس شخص کا نام ہے ضلع نندوربار کا ڈی ایم ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ (Rajendra Bharud) جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں۔ ڈاکٹر راجیندر بھروڑ وہ خوش نصیب انسان ہیں جو پیدا تو ہوئے مہاراشٹر کے ضلع نندوربار کے بے حد غریب آدی واسی خاندان میں لیکن انہوں نے ضلع نندوربار میں کلکٹر رہتے ہوئے وہ کچھ کر دکھایا جو دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔
ایک رپورٹ کے مطابق نندوربا میں کورونا سے لڑنے کے لیے محض بیس بیڈ ہی موجود تھے۔ لیکن آج ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کی بدولت یہاں اسپتال میں 1289 بیڈس، کووڈ کیئر سینٹروں میں 1117 بیڈس اور دیہی اسپتالوں میں 5620 بیڈس کے ساتھ کورونا کو قابو میں کرنے کے لیے مضبوط ہیلتھ کیئر سسٹم کھڑا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہاں آکسیجن پلانٹ بھی ہے۔ جبکہ ڈی ایم ڈاکٹر راجیندر بھروڑ کی نگرانی میں اسکولوں، ہاسٹلوں، سوسائیٹیوں اور مندروں میں بھی بیڈس کے انتظامات کیے گیے ہیں۔ وہیں پورے ضلع میں سات ہزار سے زیادہ آئیسولیشن بیڈس اور تیرہ سو آئی سی یو بیڈس بھی موجود ہیں۔ اسی وجہ سے یہ آج یہ ضلع کسی پر منحصر نہیں ہے۔ اس حوالے سے وزیر ریلوے پیوش گوئل، ریاستی وزیر صحت راجیش ٹوپے اور بائیوکون کے چیئر پرسن کرن مجمدار شاہ نے ڈی ایم راجیندر بھروڑ کی خوب تعریف کی ہے۔
کسی اچھے عہدے پر ایک پڑھے لکھے اور ذمہ داری کو محسوس کرنے والے انسان کے فائز ہونے سے اسی طرح کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر راجیندر بھروڑ 2013 بیچ کے آئی ایس افسر ہیں۔ انہوں نے ممبئی کے کے ای ایم اسپتال سے ایم بی بی ایس کیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ بے حد غریب اور آدیواسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ذمہ دار ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس مہلک بیماری کو سمجھا پرکھا اور اس سے نمٹنے کے لیے ذہن میں لائحہ عمل ترتیب دیا اور اس پر عمل کر کے وہ کارنامہ انجام دیا جو پورے ملک کے لیے ایک مثال بن گیا۔ ورنہ حکومت مریضوں کو آکسیجن اور بیڈس مہیاکرانے میں کس قدر ناکام ہو چکی ہے وہ دنیا جانتی ہے۔
ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ کا تعلیمی سفر
ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ کا بچپن انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزرا۔ انہوں نے مشکل ترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب ڈاکٹر بنے بلکہ وہ ایک کامیاب آئی اے ایس افسر بھی ہیں۔ ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ کے والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ جسے وہ ’مائی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور ان کی دادی نے ہی گھر بار چلایا اور ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ سمیت تین بچوں کی پرورش کی۔
10ویں اور 12ویں جماعت میں اول مقام حاصل کیا
ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ درجہ پانچ میں تھے جب ان کے اساتذہ نے محسوس کیا تھا کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اساتذہ نے والدہ کو باخبر کیا کہ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے انہیں اعلیٰ تعلیم دلانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ کی والدہ نے اساتذہ کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے ایک سو پچاس کیلومیٹر دور جواہر نوودیا ودیالیہ (jawahar navodaya vidyalaya) میں بھیج دیا جہاں انہوں نے ریاضی اور سائنس میں مہارت حاصل کی۔ ان کا شمار ہمیشہ ہونہار طلباء میں شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے دسویں کے بورڈ کے امتحان میں دونوں مضامین میں ٹاپ کیا تھا اور دو سال بعد انہوں نے بارہویں کے بورڈ کے امتحانات میں بھی اول مقام حاصل کیا۔
ایک نجی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ بتاتے ہیں کہ بچپن سے ہی انہیں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا تاکہ وہ دوسروں کی مدد کر سکیں۔ لیکن جیسے جیسے وہ سن بلوغت کو پہنچتے گئے انہیں احساس ہوا کہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے انہیں تعلیمی میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جی توڑ محنت کی اور ایم بی بی ایس امتحان کےساتھ یو پی ایس سی اگزام بھی دیا اور پہلی ہی کوشش میں ہی وہ کامیاب ہو گئے۔ حالانکہ پہلے اٹیمپٹ (Attempt) میں رینک کی بنیاد پر انہیں آئی آر ایس سروس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی اور 2013 کے امتحان میں آئی اے ایس بن کر اپنا ہدف پورا کر لیا۔
ڈاکٹر راجیندر بھاروڈ نے مسوری میں دو سال تک ٹریننگ لی۔ 2015 میں ضلع ناندیڑ میں بطور اسسٹنٹ کلکٹر اور پراجیکٹ آفیسر تعینات ہوئے۔2017 میں وہ شولا پور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدہ پر تعینات ہوئے اور آخر کار جولائی 2018 میں انہیں ضلع نندوربا کا کلکٹر بنا دیا گیا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021