آیات قرآنی پر اعتراضات اورعلماء کی ذمہ داری

تعارف قرآن و دعوت الی القرآن کی ضرورت

محمد نصیر اصلاحی (داپولی)

 

قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے۔ وہ لوگ جو اس پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان پر بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری رسول اکرم ﷺ پر بھی نہیں ڈالی گئی۔ حضرت جبرئیلؑ جب وحی لے کر آتے تو آپؐ بھی عجلت سے ان کے ساتھ پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائیں چنانچہ آپؐ کو اس سے روکا گیا۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد درج ہے کہ لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ و قرآنہ ترجمہ : اے نبیؐ ! اس وحی کو یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے (القیامۃ : ۱۶ تا ۱۷) سورہ طہٰ میں فرمایا گیا کہ ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ ترجمہ : تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری ہو جائے۔ (طہ : ۱۱۴) ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کتاب مبارک کی ایک ایک سورہ، ایک ایک آیت، ایک ایک لفظ، ایک ایک حرکت اور ایک ایک نقطہ کی حفاظت اللہ خود فرمائے گا۔
درج بالا حقائق کے باوجود رسول اکرمؐ نے قرآن کی حفاظت کے دو طریقے اختیار فرمائے۔ ان میں پہلا طریقہ حفظِ قرآن (قرآن کو زبانی یاد کرنا) اور دوسرا طریقہ کتابت (لکھنا) ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کا اتنا شور ہوتا کہ رسولؐ کو لوگوں کو اپنی آوازیں پست رکھنے کی تاکید کرنی پڑی۔ ۴ ھ میں بئر معونہ کے المناک واقعہ میں شہید ہونے والے ۷۰ صحابہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب قرآن کے فضلاء اور قراء تھے۔ حضور ﷺ کی وفات کے فوراً بعد ہونے والی جنگ یمامہ میں ۷۰۰ حفاظ قرآن نے جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ یہ واقعات اس کے شاہد ہیں کہ صحابہ کرام میں ایک کثیر تعداد حفاظ قرآن کی تھی۔ حفظ قرآن کا یہ سلسلہ عہد نبوی سے لے آج تک بلا انقطاع جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ بلا مبالغہ یہ با ت کہی جا سکتی ہے کہ آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فرزندان توحید کے سینوں میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے پورا اور مکمل قرآن موجود و محفوظ ہے۔ رسول ﷺ نے حفاظتِ قرآن کے لیے دوسرا طریقہ کتابت (لکھنا) کا اختیار فرمایا۔ آپؐ نے پڑھنے لکھنے والے صحابہ کرامؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وحی نازل ہونے کے فوراً بعد اس کو وہ لکھ لیا کریں۔ حضرت زید بن ثابت آپ کے مستقل کاتب وحی بھی تھے۔ عہد نبوی میں کاتبانِ وحی کی تعداد مجموعی طور پر چالیس تک پہنچ گئی تھی۔ آپؐ کا طریقہ تھا کہ جب قرآن مجید کی کوئی آیت یا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپؐ کاتب وحی کو ہدایت فرماتے کہ اسے فلاں فلاں سورہ میں فلاں فلاں آیت کے بعد لکھ لیا جائے۔ کاتبانِ وحی اسے پتھر کی سلیٹ، دباغت شدہ چمڑا، کھجور کی موٹی شاخ، درخت کے پتے، جانور کی ہڈی یا کسی ٹکڑے پر لکھ لیتے۔ اس طرح زمانۂ رسالت ہی میں قرآن کریم کا ایک ایسا مکمل نسخہ تیار ہو گیا جسے رسول اکرمؐ نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابۂ کرام ایسے تھے جنہوں نے از خود اپنے ذوق و شوق سے قرآن کے کچھ حصے بعض سورتیں اور آیات اپنے پاس لکھ رکھے تھے۔
اگر قرآن یا اسلام کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے اور کوئی سمجھنے کے لیے کوئی سوال یا اعتراض کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن عام طور پر قرآن مجید کی آیات پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ معترضین کی کسی تحقیق اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ وہ قرآنی آیات کو ان کے اصل پس منظر سے کاٹ کر اور سیاق سباق سے الگ کر کے اسلام، مسلمانوں اور قرآن پاک کو بدنام کرنے کے لیے اعتراض کرتے ہیں۔ خاص طور سے جن آیات کا تعلق جہاد، قتال ،کفر، کافر ،شرک، مشرک، بت پرستی سے ہے ان پر اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اور اس سے آگے بڑھ کر وارثین انبیاء کی حیثیت سے اور علم نبوت کے امین ہونے کی حیثیت سے دوسروں کے بالمقابل علماء کرام کی ذمہ داریاں کئی گنا زیادہ ہیں۔ قرآن کے تعلق سے اس وقت کاموں کے کئی محاذ ہو سکتے ہیں ان محاذوں میں سے چنددرج ذیل ہیں بحیثیت عالم جن پر توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے:
(۱) تعلق بالقرآن: آج ملت جس ذلت و مسکنت اور پستی کا شکار ہے اس کی واحد وجہ قرآن سے دوری اور غفلت ہے۔ ملت کے تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب و بیماریوں کا علاج قرآن کو مضبوطی سے تھام لینے میں ہے۔ علماء کرام کو چاہیے کہ وہ رجوع الی القرآن کی ایک ایسی مہم چلائیں جس سے لوگ قرآن سے قریب آئیں اور ان کا تعلق قرآن سے مضبوط و مستحکم ہو۔ وہ قرآن کو ایک زندہ اور متحرک کتاب کی حیثیت سے پیش کریں۔ اس کو محض دعا و مناجات، حلال و حرام اور قصص و واقعات کی کتاب بناکر نہ پیش کیاجائے بلکہ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں میں اس کو رہنمائی کرنے والی اور ہدایت دینے والی کتاب بنائیں۔
(۲) تاریخ جمع و تدوین قرآن: نزولِ قرآن اور جمع و تدوینِ قرآن کی تاریخ سے ملت کو روشناس کرانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ قرآن کی اس تاریخ سے دوسروں کو تو جانے دیجیے اپنے بھی کتنا واقف ہیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی تقاریر اور دروس خصوصاً خطبات جمعہ میں اس کو ضرور ایک موضوع بنائیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ قرآن موجودہ شکل میں کن کن مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔ اس کے جمع، تدوین و ترتیب میں کتنی عرق ریزی کی گئی ہے۔
(۳) قرآن پر عمل: اللہ نے یہ کتاب اس لیے اتاری ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ اس کی تعلیمات کے مطابق اپنی سیرت و کردار اور شخصیت کی تعمیر کی جائے۔ ہم عوام الناس کے لیے قرآن کو آسان بنا کر پیش کریں۔ اس طرح پیش نہ کریں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ ایک چودہ سو سال پرانی کتاب ہے جس پر اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ زمانہ میں عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کو سمجھائیں کہ تلاوت کے اجرو ثواب سے انکار نہیں لیکن اس کتاب کی اصل برکتیں اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں جب اس کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے ۔
(۴) قرآن کا تعارف: برادران وطن کے سامنے قرآن کا تعارف پیش کیجیے۔ ان کو بتائیے کہ یہ صرف مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ ہم سب کے پیدا کرنے والے نے اس کو سارے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ یہ کتاب حضرت محمد ﷺ پر اتاری گئی جو ساری دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ یہ ہر طرح سے مکمل ہے اس میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہے اور نہ قیامت تک اس میں کوئی ردو بدل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل محفوظ ہے۔ یہ کوئی انسانی کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ اس جیسا کلام کوئی پیش نہیں کر سکتا۔
(۵) دعوت الی القرآن: ہم داعی امت ہیں قرآن پر حالیہ اعتراض کے واقعات سے دعوت کے لیے عمومی فضا پیدا ہوئی ہے۔ قرآن اب پورے ملک کے لیے بحث کا موضوع بنے گا زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے بارے جاننا چاہیں گے سوالات کریں گے جوابات چاہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی دعوت کی اشاعت و تبلیغ اس موقع کو استعمال کریں۔ منصوبہ بنائیں، اہداف متعین کریں اور اللہ کے بندوں کو قرآن کی طرف بلائیں۔ قرآن کا پیغام ان تک پہنچائیں۔ ہر شر میں خیر چھپا ہوتا ہے ہم ایسے شر کے مواقع کو خیر میں تبدیل کریں۔
(۶) قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک مثالی بستی کی تعمیر: ہم سب کے مشاہدہ میں ہے اس ملک میں اسلام کو متعارف کرانے کے لیے جو طریقے بھی اختیار کیے گئے وہ تبلیغی اور نظریاتی طریقے ہیں مثلاً انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں، تقسیم لٹریچر، کانفرنسیں اور سیمینار، مباحثے اور دعوتی اجتماعات وغیرہ مگر یہ سارے طریقے روایتی اور نظری ہی ہیں۔ اب ان سے آگے بڑھ کر قرآنی بنیادوں پر ایک ایسی مثالی بستی بسانی چاہیے جہاں لوگوں کو اسلام چلتا پھرتا نظر آئے۔ اس بستی میں آکر لوگ اسلام کی برکتوں اور اس کے نظام معاشرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔اس دین کی بنیاد پر اخوت و محبت، امن و سکون، ایثار وبے لوثی ہر خوبی کا وہ عملاً مشاہدہ کر لیں۔ ہمارے علما، جماعتوں کے سربراہان اور ملت کے قائدین و ذمہ داران مدارس کو اس پہلو سے ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ برادران وطن کے لیے انتہائی پر کشش اور عملی دعوت ثابت گی۔
(مضمون نگار مجلس العلماء تحریک اسلامی مہاراشٹر کے ناظم اعلیٰ ہیں)
***

قرآنی بنیادوں پر ایک ایسی مثالی بستی بسانی چاہیے جہاں لوگوں کو اسلام چلتا پھرتا نظر آئے۔ اس بستی میں آکر لوگ اسلام کی برکتوں اور اس کے نظام معاشرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔اس دین کی بنیاد پر اخوت و محبت، امن و سکون، ایثار وبے لوثی ہر خوبی کا وہ عملاً مشاہدہ کر لیں۔ ہمارے علماء، جماعتوں کے سربراہان اور ملت کے قائدین و ذمہ داران مدارس کو اس پہلو سے ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ برادران وطن کے لیے انتہائی پر کشش اور عملی دعوت ثابت ہوگی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021