انٹرویو: "حالیہ فیصلوں سے عدالتوں پر عوام کا اعتماد مجروح”

کیوریٹیو پٹیشن کے ذریعے آخری کوشش بھی کرلیں۔بابری مسجد مقدمہ کے اہم وکیل مشتاق احمد صدیقی سے بات چیت

محمد راشد، لکھنؤ

 

مشتاق احمد صدیقی صاحب سینئر وکیل ہیں جو ابتدا سے بابری مسجد قضیے سے منسلک رہے ہیں۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہفت روزہ دعوت نے ان سے خاص بات چیت کی ہے اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
س: بابری مسجد معاملے سے آپ کب اور کیسے منسلک ہوئے؟
ج: سن 1977میں جبکہ یہ مقدمہ فیض آباد کی دیوانی عدالت میں چل رہا تھا میں اس معاملے سے جڑا تھا۔ اس وقت اس مقدمے کی پیروی سینئر ایڈووکیٹ جناب رحمت حسین صاحب کر رہے تھے، پھر وہ پاکستان چلے گئے اور یہاں کوئی وکیل نہیں تھا جو اس مقدمے کی پیروی کرتا۔ مولوی نصیر صاحب (سابق ایم ایل اے) نے مجھے ١٩٧٧ میں اس معاملہ میں انگیج کیا۔ پھر وہ مقدمہ میری بحث سے خارج کر دیا گیا۔ عملی طور پر بتاریخ ٣٠؍ جنوری ١٩٨٦؍ کو جب مسجد کا قفل کھولنے کا آرڈر ہوا تو اس کے خلاف ضلع جج کے یہاں اپیل پیش ہوئی اور میں 1989 تک فیض آباد، لکھنؤ اور دہلی میں مقدمے کی پیروی کرتا رہا۔
س: اس معاملے میں آپ کو بہت سی دشواریاں پیش آئی ہوں گی، کہیں کہیں کیس کو تقویت بھی ملی ہوگی، اس سلسلے میں کچھ خاص باتیں بتائیں؟
ج : دشواریاں تو بہت سی پیش آئیں بالخصوص پہلی فروری 1986کو جبکہ سنیچر کا دن تھا، اتفاق سے میں فیض آباد گیا ہوا تھا۔ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ اس سلسلہ میں ضلع جج کے یہاں مقدمہ چل رہا ہے تو میں بھی وہاں پہونچ گیا اور پوری بات معلوم کی۔ میں نے کہا کہ اس معاملے میں تو ہم بھی شریک ہیں تو ہمیں کہا گیا کہ ہاں آپ کو بھی موقع ملنا چاہیے اور لنچ کے بعد فائل پیش کرنے کو کہا گیا، لہٰذا ہم نے اپنی فائل پیش کر دی۔ لنچ کے بعد جب عدالت میں پہنچے تو پیش کار نے کہا کہ آپ کی فائل نہیں ملی۔ چنانچہ جج صاحب نے دوسرے فریق کی بحث مکمل کرا لی اور اسی دن 5 بجکر 15منٹ پر فیصلہ سنا دیا۔ فیصلے سن کر ہم لوگوں کو بہت مایوسی ہوئی۔ شام کو فیض آباد کے عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد اکٹھا ہو گئی اور شام کو ایس پی صاحب بھی گھر پر آئے پھر میں نے ٣؍ فروری پیر کے دن الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں رٹ داخل کر دی اس میں ہم کو اسی دن اللہ کا شکر ہے کہ اسٹے مل گیا۔ تو جو پریشانی اور مایوسی ہم لوگوں کو فیض آباد میں ہوئی تھی الٰہ آباد میں Stay ملنے سے ہمیں اس کیس میں پھر سے تقویت حاصل ہوئی۔
پھر ہم لوگوں نے یہ طے کیا کہ فیض آباد میں اس مقدمہ کا چلنا ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ بابری ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ اس مقدمہ کو لکھنؤ بنچ میں تین ججز کی بنچ سے سنا جائے۔ سرکار نے اس مطالبہ کو تسلیم کر لیا اور 1987میں حکم ہوا کہ فیض آباد کی فائل یہیں لکھنؤ منگا لی جائے اور اس کے بعد سے یہ مقدمہ یہیں رواں ہونے لگا۔
1989میں دوسرے فریق نے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں شلا نیاس کا پروگرام کیا اور بابری مسجد کے باہر ایک پتھر نصب کر دیا اور اس بات کا اعلان کرنے لگے کہ اب یہاں مندر کی تعمیر ہوگی۔
س: بابری مسجد معاملے کو کئی بار سمجھوتے کی بنیاد پر سلجھانے کی کوشش کی گئی، یہ کوششیں کب کب ہوئیں اور آپ ان کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ج: سمجھوتے کی بات تو ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے اور اکثر پیشکش انہیں کی جانب سے ہوئی، لیکن اس سے ان کا اصل مقصد یہی تھا کہ ہم مسجد سے دستبردار ہو جائیں۔ دہلی میں کئی بڑی بڑی میٹنگیں بڑے بڑے وزراء کے ساتھ ہوئیں، لیکن ان سب کا مقصد بھی بس یہی تھا کہ مسلمان مسجد سے دستبردار ہو جائیں اور یہ سمجھوتے ایک طرح سے مسلمانوں پر دباؤ کی شکل میں ہوتے تھے کہ مسلمان مسجد کو چھوڑ کر ہٹ جائیں۔
س: سمجھوتے کی کیا شکل ہوتی تھی اور اس میں اہم نام کون کون سے تھے؟
ج: سمجھوتے کی شکل یہ ہوتی تھی کہ کمیٹیاں تشکیل دی جاتیں ان میں ان کی طرف سے چار آدمی، ہماری طرف سے چار آدمی، جس میں مَیں بھی شریک رہا اور ثالثی کے طور پر سیاسی رہنما شریک ہوتے تھے۔ شرد پوار کا نام مجھے آسانی سے یاد ہے، اس کے علاوہ چندر شیکھر صاحب جب وزیر اعظم ہوئے تو ان کے زمانہ میں بھی سمجھوتے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن ہر بار سمجھوتہ کا مقصد یہی رہا ہے کہ ہم مسجد کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں اور ہم اس طرح کے سمجھوتے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہوئے۔اس سلسلے میں آخری کوشش جو شری شری روی شنکر کی طرف سے ہوئی تو اس سے پہلے ایک دن اخبار میں ان کا بیان آگیا تھا کہ ’’500سال سے ملک کے ہندو ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘‘ اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی تھی کہ انہوں نے پہلے ہی اس پر ہندؤوں کا حق مان لیا تھا۔ تو ہم نے اپنے ساتھیوں کو یہی رائے دی کہ جب ایک شخص اپنا ارادہ پہلے ہی ظاہر کر چکا ہے تو اس کے ساتھ سمجھوتے کا تو کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
س: سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد بھی بابری ایکشن کمیٹی برقرار رہے گی؟
ج: میں سمجھتا ہوں کہ کمیٹی کو اب خاموش بیٹھ جانا چاہیے۔ صرف نام و نمود اور اخبارات میں بیانات دینے کے لیے اسے باقی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
س: سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم فریقین کی جانب سے ریویو پٹیشن داخل کی گئی، لیکن بنا کسی سنوائی کے اتنے بڑے اور حساس معاملہ کو خارج کر دیا گیا، اس کی کیا وجہ رہی؟
ج: عام طور سے سپریم کورٹ review petition کے معاملہ میں سنوائی نہیں کرتی بلکہ خود اپنے طور سے دیکھتی ہے اگر اس میں کوئی اہم پہلو ملتا ہے تو پھر کوئی تاریخ مقرر کرتی ہے لیکن اس نے اس کو سرسری طور پر دیکھا اور چار لائن کے آرڈر کے ساتھ اسے خارج کر دیا۔ اس میں کسی کی کوتاہی نہیں ہے۔ Review کو صحیح طریقے سے ڈرافٹ نہیں کیا گیا اس میں جن پوائنٹس کو اجاگر کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا جا سکا۔
س: Review Petition کے بعد Curative Petition کا آپشن باقی ہے کیا آپ اس کے حق میں ہیں، اس کی افادیت کیا ہے اور اسے کون داخل کر سکتا ہے؟
ج: میں Curative Petition داخل کرنے کے حق میں ہوں اور ہم لوگوں کو اسے ضرور داخل کرنا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پھر سے اس معاملہ کو سن سکتی ہے۔ کیونکہ اس فیصلہ میں بہت سی فاش غلطیاں ہیں۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ 1857سے 1947تک مسجد پر مسلمانوں کا قبضہ تھا اور یہ عمارت بطور مسجد ہی بنائی گئی اور مسلمانوں کے ہی استعمال میں رہی تھی تو اب یہ مان لینے کے بعد کبھی اگر بیچ میں ہمارا قبضہ ہٹ گیا تو بقول سپریم کورٹ کے ان کا دعویٰ ڈکری نہیں ہو سکتا تھا۔ اس معاملہ میں ٩ لوگوں نے مقدمہ دائر کیا تھا، ان میں سے کوئی بھی یا سب مل کر Curative Petition داخل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی دیگر باڈی یا اور کوئی بھی فرد داخل کر سکتا ہے۔
س: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد کا ملبہ حاصل کرنے کی بات کہی گئی تھی، اس سلسلہ میں کیا پیش رفت ہوئی
اور ملبہ حاصل کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟
ج: اس سلسلے میں جیلانی صاحب نے کچھ خطوط وغیرہ لکھے ہیں لیکن ابھی کوئی پیٹیشن نہیں دائر ہوئی ہے۔ ملبہ حاصل کرنے کی ہم کوئی خاص افادیت نہیں سمجھتے ہاں مگر اس میں کچھ خاص چیزیں جیسے دیواروں پر کندہ قرآنی آیتیں اور کلمہ طیبہ وغیرہ جنہیں نکال کر میوزیم وغیرہ میں بطورِ یادگار رکھا جا سکتا ہے لیکن محض اینٹ پتھر وغیرہ کی تو کوئی افادیت نہیں ہے۔
س: کاشی، متھرا و دیگر مساجد کے خلاف بھی آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، تو اس کو سامنے رکھتے ہوئے کیا اقدامات کرنا چاہیئں؟
ج: ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں ایک تو رٹ فائل کر دی ہے جبکہ حالیہ فیصلوں سے عدالتوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کیا کہ دے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ 1991میں ایک سنٹرل ایکٹ (Central Act) پاس ہوا تھا جس کے تحت آزادی کے وقت سے جو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں انہیں اسی طرح مانا جائے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ان لوگوں کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس Act کو ختم کر دیا جائے۔ اگر عدالت اس Act کو منسوخ کرتی ہے تو انہیں کسی بھی عبادت گاہ پر مقدمہ دائر کرنے کا حق حاصل ہوجائے گا اور وہ اسی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ رہی کاغذات اور ثبوتوں کی بات تو وہ سب ہم لوگوں کے پاس موجود ہیں، اور وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں یہ مسجدیں ہیں۔ خود بابری مسجد کے کیس میں ہم مکمل طور سے مطمئن تھے کہ ہمیں جتنے ثبوت فراہم کرانا چاہیے تھا وہ ہم نے مہیا کرا دیے تھے اسی طرح دیگر مساجد کے کاغذات بھی موجود ہیں۔
س: جیسا کہ آپ نے تذکرہ کیا کہ عدالتوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے تو کیا اس عدالتی نظام کے علاوہ کوئی آپشن ہے؟
ج : اس ملک میں موجودہ عدالتی نظام کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
س: بابری مسجد کو شہید کرنے والے ملزمین کو 30ستمبر کو بری کر دیا گیا، اس فیصلہ کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
ج : عدالت نے تو اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ مسجد تھی اور مسجد کو گرایا گیا ہے۔ لیکن اس کو گرانے والوں میں یا گرانے کی ترغیب دینے والوں میں یہ لوگ شامل نہیں تھے اور مدعی اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ یہ لوگ مسجد گرانے والوں میں سے تھے یا مسجد گرانے کی ترغیب دینے والوں میں سے تھے۔
اس کے خلاف اپیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس سے اپیل کی جا رہی ہے اس سے ہمیں انصاف کی امید ہی نہ ہو تو کیا فائدہ ہے۔
س: آپ اس معاملے سے بہت پہلے سے جڑے رہے لیکن اکثر و بیشتر لوگ آپ کو اس تعلق سے نہیں جانتے؟
ج: لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کام کم کریں شہرت زیادہ ملے مگر ہم نے اپنے کو اس سے الگ رکھا۔ شہرت حاصل کرنا مقصد نہیں تھا۔ پھر ہم سبھی لوگ ساتھ ہی تھے۔ مقدمہ کی پیروی میں ہم ظفر یاب جیلانی و دیگر ساتھ میں تھے۔
س: بابری مسجد مقدمہ کے دوران کوئی یاد گار موقع یا مرحلہ جس کا ذکر کرنا آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے قارئین کے ساتھ شیئر کریں۔
ج: خاص کر وہ واقعہ جب 3فروری 1986کو ہم لوگوں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤبنچ میں رٹ داخل کی تھی، جیلانی صاحب کی اُس دن بھی یہ رائے تھی کہ رٹ داخل نہ کی جائے کیونکہ یہ خارج ہو جائے گی، جس سے مسلمانوں کو بہت مایوسی ہوگی۔ لیکن منّان صاحب نے کہا کہ نہیں! رٹ تو داخل کی جائے گی، چنانچہ رٹ داخل کی گئی اور الحمدللہ اس میں Stay بھی مل گیا۔
***

1991میں ایک سنٹرل ایکٹ (Central Act) پاس ہوا تھا جس کے تحت آزادی کے وقت سے جو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں انہیں اسی طرح مانا جائے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ان لوگوں کی جانب سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس Act کو ختم کر دیا جائے۔ اگر عدالت اس Act کو منسوخ کرتی ہے تو انہیں کسی بھی عبادت گاہ پر مقدمہ دائر کرنے کا حق حاصل ہو جائے گا اور وہ اسی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020