اقامت دین کے بنیادی اصول کار

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی کتاب ’فریضہ اقامت دین سے ایک اقتباس

 

 

قران کریم کو غور سے پڑھئے تو اصول و نکات بڑی آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتے ہیں جنکے مطابق اقامت دین کے جدوجہد کی جانی چاہیے- ١- تقوی کا التزام ٢- مضبوط و منظم اجتماعیت ٣- امر بالمعروف و نہی عن المنکر یہ تین نکات ہیں جو اقامت دین کے بنیادی اصول کار ہیں۔
اقامت دین کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے اور جس کو اس راہ کی شرط اول کہنا چاہیے وہ ہے اللہ کا تقوی اور اپنی آخری سانس تک ک ہرآن اور ہر لمحہ ایک مسلم بن کر زندگی بسر کرے۔ دوسری اہم چیز جو اقامت دین کے لیے ضروری ہے وہ جماعتی اتحاد۔ اللہ کا دین اپنے پیروؤں کو مضبوطی سے جڑ جانے کی زبردست ہدایت کرتا ہے۔ ( واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا) اقامت دین کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ انفرادی حیثیت سے اپنی اپنی ذات کے اوپر دین حق کا قائم کرلینا اور پھرایسے تمام افراد کا باہم جڑکر ایک جماعت بن جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان دونوں باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس ’’خیر‘‘اور” معروف‘‘ کی طرف دوسروں کو بھی بلایا جائے جس کو خود قبول کیا گیا ہے، اور اس”منکر” کو اپنے مقدور بھرمٹا ڈالنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی جائے جس کو خود ترک کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی زمین کے کسی گوشہ میں اس کے دین کے سوا کسی اور دین کا اقتدار باقی نہ رہ جائے اقامت دین کا یہ طریقہ اوراس کے یہ اصول تو ہمیں قرآن سے ملتے ہیں اب اگر آپ قرآن کے معلم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کئے ہوئے طریق کار پر نظر ڈالیں گے تو پائیں گے کہ وہی اصول جو قرآن کے اندر الفاظ کے لباس میں تھے یہاں عمل اور واقعہ کی شکل میں موجود ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےٹھیک انہیں لائنوں پر ایک امت بنا کر اللہ کے دین کو قائم کیا تھا ۔قرآن اور سنت ہر ایک سے اقامت دین کے یہی تین بنیادی اصول معلوم اور متعین ہوتے ہیں ۔ اس فرض کو ادا نہیں کیا جاسکتا جب تک ان تینوں اصولوں پر پورے عزم اور استقلال کے ساتھ عمل نہ کیا جائے۔ اس عمل کی کوئی زمانی ترتیب نہیں ہے جس کی رو سے ضروری نہیں کہ پہلے اصول پر پوری طرح عمل کرلیں پھر دوسرے کی ابتدا کی جائے جب دوسرے اصول کی پیروی کا حق ادا ہوجائے تب تیسرے پر عمل کیا جائے اس کے برعکس صحیح بات یہ ہے کہ ان تینوں اصولوں پر عمل بیک وقت شروع ہونا چاہئے ۔ قلب انسانی میں جب ایمان کا بیج جگہ پکڑتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس سے صرف تقوی کی جڑ ہی نکلتی ہواور نکل کر ایک مدت دراز تک خوب موٹی تازی اور مضبوط ہوتی رہتی ہو تب جاکر اتحاد ملی اور امربالمعروف کا موقع آتا ہو،بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس سے ملی اتحاد اور امر بالمعروف کی شاخیں اور پتیاں بھی نکلنے لگتی ہیں ۔ پھر زمین کی زرخیزی اور بیج کی عمدگی کے مطابق تقوی کی جڑ جس قدر گہری اترتی جاتی ہےاسی قدر شاخیں اور پتیاں بھی بلندو بالا اور سرسبز و شاداب ہوتی جاتی ہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ اس ’’خیر‘‘اور” معروف‘‘ کی طرف دوسروں کو بھی بلایا جائے جس کو خود قبول کیا گیا ہے، اور اس”منکر” کو اپنے مقدور بھرمٹا ڈالنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی جائے جس کو خود ترک کیا گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020