امن عالم سیرت رسول ؐ سے وابستگی میں مضمر

امریکہ ویورپ کے اقدامات دنیا میں تخریب کاری میں اضافے کا سبب

محمد احمد اللہ قاسمی ،نئی دہلی

 

موجودہ دنیا نے جہاں حیرت انگیز ترقی کی ہے ، وہیں اسے کئی لحاظ سے زبردست پستی کابھی شکار ہونا پڑا ہے۔ عالمی امن کی صورت حال ہی کو لے لیجیے ، دنیا میں بے شمار وسائل و ذرائع کے باوجود ہر جگہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم نظر آتا ہے، لوگ ایک دوسرے سے ہی خائف دکھائی دیتے ہیں ۔ سڑکوں ، گلیوں ، کوچوں اور بازاروں میں چلتے ہوئے لوگ سراسیمہ اور خوف زدہ نظر آتے ہیں اورانہیں اس بات کا کھٹکا لگا رہتاہے کہ نہ جانے کب اور کہاں کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ لوگوں کا یہ احساس بلا وجہ نہیںہے،بلکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا کے محفوظ ترین علاقوں، بازاروں اور کیفوں میں ایسے ناگہانی واقعات رونماہوچکے ہیں ، جن میں آن کی آن میں سیکڑوں افراد موقع پر ہی موت کے شکار ہوگئے۔ مرنے والے یہ لوگ بلا جھجھک یاتو بازاروں میں خرید و فروخت کررہے تھے یا کیفے میں موج و مستی کے عالم میں تھے یا ریستوران میں عمدہ قسم کے لذیذ کھانے تناول کررہے تھے یا پھرزندگی کے دوسرے مشاغل میں مصروف تھے۔
خوف و ہراس کے اس ماحول میں دنیائے انسانیت کو سب سے زیادہ امن وسکون کی ضرورت ہے، بلکہ یہ دور جدید کے لیے ناگزیر ہو گئی ہے ، کیوں کہ لوگوں کے پاس زندگی گزارنے کی دیگر اشیا توکسی حدتک موجود ہیں۔ چلنے کے لیے چھوٹی بڑی گاڑیاں ، دور درازکے مقامات پر سفر کرنے کے لیے تیز رفتار ٹرینیں اور فی گھنٹہ سیکڑوں اور ہزاروں کلو میٹر کی دوری طے کرنے والے ہوائی جہاز موجود ہیں، پہننے کے لیے طرح طرح کے قیمتی لباسوں سے بازار بھرے پڑے ہیں ، کھانے کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں موجود ہیں ،پرانے لذیذ کھانوں کے علاوہ موجودہ دور کے فاسٹ فوڈ کے بھی قدم قدم پر ریستوران اور ہوٹل موجود ہیں، رہنے کے لیے بڑے ،کشادہ اور آرام دہ مکانات کی کمی نہیں ہے۔اس کے علاوہ روزگار کے بھی خاصے وسائل دریافت کرلیے گئے ہیں اور اس میدان میں مزید کوششیں جاری ہیں۔ مادی ترقی کے لیے آج کے انسان کے پاس کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے آلات موجود ہیں۔ رہا تفریح کا سوال تو آج تفریحی آلات ومصنوعات کی اس قدر ریل پیل ہے کہ گزشتہ صدیوں میں اس کے عشر عشیر کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا ،مگر ان سب چیزوں کے علاوہ اگر کوئی چیز نہیں ہے،تو وہ امن وسکون ہے۔ لوگ دولت و ثروت اور اَن گنت وسائل کے باوجود دہشت اور تناؤ میں رہتے ہیں۔دہشت گردی و تخریب کاری کے خاتمہ اور امن وامان کے قیام کے لیے اگر چہ عالمی سطح پر اب تک متعدد کوششیں ہو چکی ہیں اور ان پر اربوں ڈالر خر چ کیے جاچکے ہیں، مگر خوف و دہشت کی فضا جوں کی توں برقرار ہے بلکہ بہ تدریج اس میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔اس کا سیدھا مطلب ہے کہ دہشت گردی کے سد باب اورامن کے قیام کے لیے ابھی تک جو حکمت عملی اختیار کی گئی اورجو کوششیں کی گئیں ، وہ سب ناکام ہوچکی ہیں۔ اب ضرورت ایسی حکمت ِ عملی اورایسااصول ونظام اپنانے کی ہے جو امن کی راہ کو ہموار کرسکے اورکامیابی کے ساتھ دنیا والوںکو سکون وچین عطا کرسکے۔امن کے قیام کے لیے اسلام کا ایک کامیاب تجربہ تاریخ کی بیش بہا امانت ہے۔اگر اسلام کے اسی تجربے کو اختیار کیا جائے تو یقیناً اس کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں اور دنیا سے دہشت گردی وتخریب کاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ اسلام انسانوں کے لیے مکمل نظام زندگی پیش کرتا ہے اوررحمۃ للعالمین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی امن وامان سے عبارت ہے ۔آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی سیرت ِ طیبہ کو سامنے رکھ کر اگر امن کے قیام کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا سے خوف و دہشت اورہر طرح کے جرائم و بدعنوانی کا خاتمہ نہ ہوجائے اور دنیا امن و چین اور راحت و سکون سے ہمکنار نہ ہو۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت پوری دنیا میں جہالت کا دو ر دورہ تھا ،لوگ باہم دست وگریباں تھے، ذرا ذرا سی بات پر خوں ریز جنگیں برپا ہو جایا کرتی تھیں ،لوگ لڑائیوں کے اس قدر دل دادہ ہوگئے تھے کہ انھیں ان میں ہی لطف آنے لگا تھا ۔مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں اور آپ کی تعلیمات نے اہل دنیا کو جینے کا سلیقہ دیااور امن سے زندگی گزارنے کا تصور دیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت وہاں کے دو قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان میدانِ کارزار گرم تھا، ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی جان کا دشمن تھا، مگر آپؐ نے مدینہ پہنچ کر دونوں قبائل کو شیر و شکر کردیا اور دونوں فریق باہم دوست بن کر اس طرح ہوگئے، گویا ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں تھا۔جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد ستایا تھا ،آپؐ کے قتل کی سازشیں رچی تھیں،آپ ؐ کے صحابہ کو اذیتیں دی تھیں ،آپؐ کی تحریک کو مٹانے کی کوششیں کی تھیں، ایسے لوگوں پر جب آپؐ کو غلبہ نصیب ہوا تب بھی آپ نے ان سے کوئی انتقام نہ لیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر کفارومشرکین آپؐ کے رحم وکرم پر تھے، مگر آپ نے ان سب کو معاف کردیا ۔ آپ نے ابو سفیان سے بھی بدلہ نہ لیا جو اسلامی تحریک کے خاتمہ کے لیے پیش پیش رہتا تھا، بلکہ آپؐ نے یہ کہہ کر اس کو عزت دی کہ ’’ جو ابو سفیان کے گھر پناہ لے لے اس کو بھی امان ہے۔‘‘ آپؐ نے اس شخص سے بھی انتقام نہ لیا جس نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کو برچھی مار کر شہید کر ڈالا تھا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ذاتی عمل نے شقی القلب اور جنگ و جدال میں یقین رکھنے والوں کو بے حد متأثر کیا ۔
یہی نہیں آپ نے جرائم و بدعنوانی کو روکنے کی بھی بہت کوششیں کیں۔ آپ ؐ نے اس سلسلے میں بہترین تعلیمات پیش کیں ۔ لوگوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ کسی کو دھوکہ دیں ، کسی کی ساتھ عہد شکنی کریں۔ جھوٹ بولنے سے منع کیا ، قتل و غارت گری سے باز رہنے کی سخت ہدایت کی۔سچائی ، محبت ، انصاف اور مساوات کی تعلیم دی ۔ زناکاری،فحاشی ، لوٹ مار جیسی بری حرکتوں سے روکا ۔ سب کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور اچھے اخلاق کی تعلیم دی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو دیکھ کر لوگ برے کاموں سے تائب ہوگئے اور اتنے دیانت دار اور امانت دار ہوگئے کہ تاریخ میں اس دور کی مثالیں نہیں ملتیں۔
امن کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے،انھیں بھی صلح وامن کی دعوت دی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پیغام روانہ کرتے تو یہ ارشاد فرماتے:’’ اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیاں یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے علاوہ کسی کو رب نہ بنائے‘‘ ۔(آل عمران: ۶۴)
اگر آج بھی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات سے رہ نمائی حاصل کی جائے اور ان کا عملی نمونہ پیش کیا جائے تو دنیا سے بہت جلد دہشت گردی اور تخریب کاری کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو ودر گزر اورنرم رویہ سے سبق لیا جائے تو انتقام و لڑائی اور باہمی اختلاف ختم ہوجائے گا۔سیرت کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو ودر گزر ، رحم وکرم ،اخوت و محبت، صلح و آشتی کی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو زبانی و عملی طور پر عام کیا جائے اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ دنیا میں امن و امان صرف اسلامی تعلیمات پرعمل کرکے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے طریقے ہیں ان سے وقتی طور پر امن وسکون تومل سکتا ہے، لیکن دائمی امن و سکون صرف اسلام کی روشن تعلیمات کو اپنانے میں ہی ہے۔
آج اہل دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اسلام امن عالم کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ اس کے برعکس اگر اقتدار یہود ونصاریٰ اور دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ جس بربریت وسفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ،اس کا اندازہ تاریخ کے مطالعے سے کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ ویورپ پوری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ ممالک امن قائم کرنے میں ناکام ہیں، بلکہ امن کے بجائے ایسے اقدامات کرتے ہیں جو تخریب کاری اوردہشت گردی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔لہٰذا اس کے علاوہ اب کوئی چارہ کار نہیں کہ اگر موجودہ دنیا میں امن وسکون قائم کرنا ہے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق خودبھی زندگی گزاریں اور دنیا والوں کوبھی اس کی روشن تعلیمات سے قولی و عملی طور پر روشناس کرائیں۔
***

اگر آج بھی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات سے رہ نمائی حاصل کی جائے اور ان کا عملی نمونہ پیش کیا جائے تو دنیا سے بہت جلد دہشت گردی اور تخریب کاری کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو ودر گزر اورنرم رویہ سے سبق لیا جائے تو انتقام و لڑائی اور باہمی اختلاف ختم ہوجائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020