مکافات ِ عمل سے غافل انسان

جاویدہ بیگم ورنگل

 

انسان اپنی ذات پر لگی معمولی چوٹ بھی برداشت نہیں کرتا اور بلبلا اٹھتا ہے اور بعض مرتبہ اس قدر بے حس ہو جاتا ہے کہ اپنے ایسے گناہ کو جسے بولتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اس کا اس طرح تذکرہ کرتا ہے جیسے اس نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ ایک صاحب اثر، صاحب پوزیشن شخص اپنی ماں کی لاش اولڈ ایج ہوم سے لے جاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں، میری بیوی اور میرے بچے خدمت نہیں کر سکے لیکن اولڈ ایج ہوم والوں نے میری ماں کی بہت اچھی طرح خدمت کی ہے۔ یہ الفاظ جہاں اولڈ ایج ہوم والوں کی خدمات کا اعتراف ہے وہیں ان بد بختوں کی کی بد بختی کا اعلان بھی کہ جنت میں لے جانے والے ذریعے کو انہوں نے کھو دیا اور احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ اگر انسان کو احساس ہی نہ ہو تو زبانِ احساس کیسے عطا ہوگا؟ اولاد کو ماں باپ کی اہمیت کا احساس نہ ہو تو یہ بہت بڑے افسوس کی بات ہے۔
ماں کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا اور سنا ہے جس کے بعد یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ماں کی عظمت سے واقف نہ ہو۔ خاص کر جب وہ خود صاحب اولاد ہو جاتا ہے تو ماں باپ کے مقام کو خود سمجھ جاتا ہے اور سمجھ جانا چاہیے۔ مگر آج کی مادہ پرستانہ سوچ نے انسان کو نازک جذبات و احساسات سے عاری ایسا انسان بنا دیا جو دنیوی مفادات کے سوا اور کچھ نہیں سوچ سکتا۔ یہ مادہ پرستانہ ذہن ہوتا ہے جو ماں باپ کو صرف ضرورت کی چیز سمجھتا ہے۔ جس طرح کوئی چیز ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی اہمیت کھو دیتی ہے اور ناکارہ سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہے اسی طرح بوڑھے ماں باپ کو ردی کا ٹوکرا سمجھ کر اولڈ ایج ہوم میں پہونچا دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے بڑھاپے میں ان سے دنیوی فائدہ پہنچنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ دنیا پرستی نے ان کو اس طرح غافل کر دیا ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ آخرت کی دائمی فلاح و کامرانی کا تعلق ماں باپ سے بھی ہے۔ قرآن نے جن آنکھ رکھنے والے اندھوں کا ذکر کیا ہے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو سب کچھ جانتے سمجھتے اور دیکھتے ہوئے بھی حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سب کچھ جاننے کا غرور ان کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت سمجھنا نہیں چاہتے اور اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ چھوٹوں کی بات کو سننا اس کو تسلیم کرنا بڑوں کی شان کے خلاف ہوتا ہے۔
آج کے دور کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے اس کو نصیحت کی ضرورت نہیں۔ جب کوئی نصیحت کی طرف سے کان بند کر لیتا ہے تو اس کو کوئی بات سمجھانا سعی لاحاصل ہی کہلائے گی۔ جوان اولاد جو قوت طاقت مال و دولت نوکر چاکر تمام وسائل رکھتے ہیں ان کو کیسے بتائیں کہ ماں باپ کو ان کے اپنے ماحول سے جس میں وہ خود اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزار چکے ہیں، انہیں نکال کر اولڈ ایج ہوم میں داخل کرنا ان کی راحت کا نہیں بلکہ روحانی تکلیف کا باعث ہو گا۔ عقل وہوش رکھنے والوں کے لیے یہ بات تکلیف دہ ہو گی۔ بڑھاپے میں انساں احساسات و جذبات سے عاری و بے حس نہیں ہوتا بلکہ بہت زیادہ حساس نازک دماغ ہو جاتا ہے وہ اپنی توہین کو بہت زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے جذبات و احساسات کا کس قدر خیال رکھا ہے۔ وہ فرماتا ہے۔ ان کو ’’اف‘‘ نہ کہو۔ ماں باپ کے سلسلے میں یہ بات کس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے فوری بعد ماں باپ کے حق کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہے۔ ’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دو بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں ’اف‘ تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے لیے خاکساری کے بازو جھکائے رکھو۔ دعا کیا کرو پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا۔ (بنی اسرائیل 24) ماں باپ جن کے سامنے جھکے رہنے کی تاکید کی گئی ہے اولاد سینہ تان کر اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے کہ اب ان کو باقی عمر اولڈ ایج ہوم میں گزارنی ہو گی۔ یہ فیصلہ سن کر ماں باپ کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی وہ کس قدر اپنی بے عزتی ہتک ناقدری محسوس کرتے ہوں گے، اولڈ ایج ہوم پہنچ کر اپنوں کی جدائی برداشت کرنا ان کے لیے کس قدر مشکل ہوتا ہوگا ان کی نظریں اپنوں کو دیکھنے ان کے کان اپنوں کی آواز سننے کو کتنا ترستے ہوں گے یہ وہی جانتے ہیں۔ وہ اپنوں کو دیکھنے کی خواہش لے کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اولاد ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں شریک کرواکر بس ان کی میت لینے کے لیے آتی ہے۔ بعض وقت یہ زحمت اٹھانا بھی پسند نہیں کرتی۔ اولڈ ایج ہوم والوں کو فون کر دیتی ہے کہ تدفین کا انتظام آپ لوگ کر دیں۔ کبھی تدفین کا خرچہ بھیجا جاتا ہے۔ کبھی چندے پر ہی گورِ غریباں پہنچا دیا جاتا ہے۔
انسان آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے دن میں کئی کئی بار دیکھتا رہتا ہے کاش! وہ اپنے عمل کے آئینے میں کبھی جھانک لیتا مستقبل کو دیکھ لیتا۔ ۲۵ سے ۳۰ سال کی مدت کوئی بڑی مدت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد وہ عمر کی اس منزل پر پہنچ جائے گا کہ اس کو اولڈ ایج ہوم وہاں سے گور غریباں پہنچادیا جائے گا، یہ خیال کیا اس کو اپنے طرز عمل پر غور کرنے پر آمادہ نہیں کرے گا؟ مگر دنیا کے عیش و آرام میں یہ سب سوچنے کا وقت کس کے پاس ہے اور یہ موت کا تصور! قبر میں پاؤں لٹکا کر بھی انسان اپنے آپ کو قبر سے دور اور دنیا سے قریب سمجھتا ہے۔ یہ خود فریبی اور اس کا متوقع انجام! کاش کوئی اس کو سمجھا دے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020