مراقش ، اسرائیل اور امریکہ ۔۔ قبضہ مافیا؟؟؟

ڈان کی سربراہی میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کا معاہدہ

مسعود ابدالی

 

متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد مراقش بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند ہو گیا۔ بحر روم اور بحر اوقیانوس کے سنگم پر واقع اس ملک کو جغرافیہ داں افریقہ کا غرب الاقصیٰ قرار دیتے ہیں کہ یہ براعظم افریقہ کا شمال مغربی کنارہ ہے۔ پونے چار کروڑ نفوس پر مشتمل مراقش کا سرکاری نام مملکت المغربیہ ہے اور اس پورے علاقے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور مراقش واقع ہیں۔ اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مراقش کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہسپانیہ پر فوج کشی کے لیے طارق بن زیاد کا لشکر مراقش کے شہر طنجہ (Tangier) سے کشتیوں میں سوار ہو کر بحر روم و بحر اوقیانوس کو ملانے والی آبنائے کو عبور کر کے اس چٹان پر اترا تھا جو بعد میں جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوئی۔ افریقہ اور یورپ کو ملانے والا یہ تنگ سا آبی راستہ بھی آبنائے جبل الطارق یا Strait of Gibraltar کہلاتا ہے۔ آبنائے جبل الطارق علاقے کی آبی شہہ رگ ہے کہ بحر اسود و بحر روم کا سارا بحری ٹریفک اسی آبنائے سے گزر کر بحر اقیانوس میں داخل ہوتا ہے۔ بحر روم سے نکلنے کا دوسرا راستہ نہر سوئز ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔
1956 میں اپنی آزادی کے بعد سے مراقش میں ملوکیت کا نظام قائم ہے۔ 2010 کے اختتام پر تیونس سے شروع ہونے والی پرامن تحریک ساری عرب دنیا بالخصوص شمالی افریقہ میں بیداری کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ مراقشی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور العدل والاحسان کے عنوان سے سماجی انصاف، جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ اپنے تیونسی، مصری، شامی اور یمنی ہم منصبوں کے برعکس مراقش کے فرمانروا محمد السادس (ششم) نے ان مظاہروں کو کچلنے کے بجائے عوامی خواہشات کے مطابق دستور میں ترامیم کا ایک مسودہ پارلیمان میں پیش کر دیا جس کے مطابق حکم رانی کے تمام اختیارات منتخب وزیر اعظم کو تفویض کردیے گئے۔ نئے دستور کی رُو سے پارلیمنٹ کی تحلیل، بین الا قوامی معاہدات، سزاؤں کی معافی، قومی میزانیے کی ترتیب، اسٹیٹ بینک اور سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان کا تقرر اور انتخابات کے انعقاد سمیت تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کردیے گئے۔ پارلیمان سے منظوری کے بعد جولائی میں ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے اس آئینی مسودے کی توثیق کرالی گئی اور نئے آئین کے مطابق دو بار انتخابات بھی منعقد ہوچکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شاہ صاحب نے مغربی صحارا میں کشیدگی کے پیش نظر سفارت و بین الاقوامی تعلقات کے اختیارات وزیر اعظم سے واپس لے لیے۔
یادش بخیر جب نئے آئین کے تحت 2011میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو اس وقت بائیں بازو کی کچھ جماعتوں نے لنگڑی لولی جمہوریت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کے بجائے بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی تجویز دی تھی۔ مزدور رہنما نجیب شوقی نے اسی وقت کہا تھا کہ بادشاہت اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بادشاہ سلامت کی ’دست نگر‘ پارلیمان اور حکومت، ربڑ کی مہر سے زیادہ کچھ نہیں۔ شوقی صاحب کی بات اب درست ثابت ہوئی جب شاہ صاحب نے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اخوانی فکر سے وابستہ وزیر اعظم سعید الدین عثمانی اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں لیکن قہر درویش بر جان درویش۔
مراقش کی تاریخ، جغرافیہ اور سیاست کے مختصر تعارف کے بعد اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ اسرائیلی سالمیت کے تحفظ کو صدر ٹرمپ نے اپنا مذہبی فریضہ قرار دیا تھا اور وہ اپنی حلف برداری کے پہلے دن سے اس مشن پر انتہائی اخلاص سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرتے ہوئے امریکہ کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا اور پھر گولان کے اسرائیل سے الحاق کی توثیق کرکے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ عرب علاقوں کو وہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کریں۔ اسی ایجنڈے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد مئی 2017 میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس تفصیلی دورے کو سربراہی کانفرنس یا Riyadh Summit کا نام دیا گیا۔ یہ دراصل چوٹی کے تین اجلاس تھے۔ یعنی صدر ٹرمپ اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان گفتگو، امریکی صدر اور خلیجی ممالک کے سربراہان کے مابین ملاقات کے علاوہ امریکی صدر نے اسلامی ممالک کی قیادت سے بات چیت کی جس میں پاکستان سمیت 54 مسلم ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ایران اور شام کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ ترکی نے اس بنیاد پر کانفرنس کا بائیکاٹ کیا کہ فلسطین کو ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ اس دوران سعودی فرماں روا نے امر بالمعروف کا زبردست مظاہرہ کیا۔ مہمانوں کو رات کے کھانے کے بعد جب قہوہ پیش کیا گیاتو امریکی صدر نے فنجان بائیں ہاتھ میں لیا۔ یہ دیکھ کر سعودی بادشاہ نے اپنے مہمان سے کہا کہ ہمیں دائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے کی ہدایت کی گئی ہے لہٰذا آپ سے گزارش ہےکہ فنجان دائیں ہاتھ میں رکھیں۔ صدر ٹرمپ نے شکریے کے ساتھ قہوے کی پیالی دائیں میں کر لی۔اس ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے مسلم رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں بدامنی سے ساری دنیا متاثر ہو رہی ہے اور یہ ضروری ہے کہ عرب اور اسرائیلی ماضی کو بھول کر دوستی کا نیا باب شروع کریں۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے بہت صراحت کے ساتھ او آئی سی کا نقطہ نظر دہرایا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے مسلم دنیا اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس دوران یہ حقیقت بھی امریکی صدر کے گوش گزار کر دی گئی کہ مصر اسرائیل معاہدے اور اس کے اوسلو مذکرات میں بھی اسرائیل نے آزاد و خود مختار فلسطین کو تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس سال کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا جسے deal of the century کا نام دیا گیا۔ اس پیشکش کو سادہ سے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ خود مختار ریاست و مملکت کا سودا سر سے نکال کر فلسطینی اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہریت قبول کرلیں تو ان کے لیے مصر کی سرحد پر ایک جدید ترین صنعتی شہر اور فارم ہاوس کی شکل میں عظیم الشان زراعتی مرکز تعمیر کیا جائے گا۔ امریکہ کے دامادِ اول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر جیرڈ کشنر نے معاہدے کے اقتصادی پہلو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ امن کے قیام سے فلسطینیوں کے لیے خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس نئے منصوبے پر 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ فلسطینی ریاست کے جو خد وخال پیش کیے گئے اس کے مطابق فلسطین اسرائیل سے گِھری چند بستیوں پر مشتمل ایک کالونی ہوگا جسے فوج رکھنے کی اجازت نہیں اور اس کی سرحدوں پر اسرائیلی فوج تعینات رہے گی، یعنی جھنڈے اور پاسپورٹ کے علاوہ استقلال و اختیار کی کوئی علامت فلسطینی ریاست کے پاس نہ ہو گی۔ حسب توقع مقتدرہ فلسطین اور حماس نے یہ deal آنِ واحد میں مسترد کر دی ہے۔ فلسطینیوں کے صاف انکار پر امریکہ بہادر نے عرب اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو نکال کر لاٹھی اور گاجر کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی حکم عدولی کی صورت میں کڑی سزا اور تابعداری پر شاندار پیشکش۔
خلیجی ممالک کو ایران کا خوف دلایا گیا کہ اگر امریکہ ان ملکوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھالے تو ایران چند ہی گھنٹوں میں ان شیوخ و ملوک کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ جناب کشنر نے اپنے جگری دوستوں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے اماراتی ہم منصب محمد بن زید کو سمجھایا کہ امریکہ بہت دور ہے اور پھر کانگریس اور سینیٹ کی موشگافیاں عین وقت پر مشکلات بھی پیدا کر سکتی ہیں اس کے مقابلے میں اسرائیل پڑوسی ہے اور ایران سے اسے بھی خطرات لاحق ہیں چنانچہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات خلیجی ممالک کے مفاد میں ہے۔
ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اس نئی تحریک کو صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا یعنی حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تینوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مصالحت۔ اسی دوران یورپ کے ایک مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک اعلان کیا کہ وہ کسی بھی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ سعودی عرب کی جانب سے آنے والے تمام اشارے مثبت ہیں لیکن اب تک ریاض نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
خلیجی ممالک کے ساتھ شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ سوڈان دہشت گردوں کی اعانت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔ خرطوم کو پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ لیکن یہ سب کچھ مفت نہیں بلکہ معافی کے عوض دہشت گرد واقعات کے متاثرین کی امداد کے لیے سوڈان سے 40 کروڑ ڈالر تاوان بھی وصول کیا گیا ہے۔
مراقش کے معاملے میں شہشاہانِ بر صغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیاگیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ظلِّ الٰہی خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیا کرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض مراقش کو مغربی صحارا عطا کر دیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے تنازعہ مغربی صحارا پر چند سطور۔مراقش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحر اوقیانوس کے کنارے 2 لاکھ 66 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراقش کی عمل داری جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہویہ صحراویہ کے نام سے خود مختار ریاست ہے۔ اس لق و دق صحرا کے بڑے حصے میں زندگی کے آثار نہیں اور یہاں آباد 5 لاکھ افراد کی اکثریت ساحلی علاقوں میں رہائش پزیر ہے۔ سوا لاکھ کےقریب افراد بحر اوقیانوس کے کنارے دارالحکومت العیون (Laayoune) میں رہتے ہیں۔یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربر نسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بر بر تھے۔ مغربی صحارا میں فاسفیٹ کے بڑے ذخائر ہیں اور بحر اوقیانوس میں تیل و گیس کے امکانات خاصے روشن ہیں۔مغربی صحرا پر سن 1700 میں ہسپانیہ نے قبضہ کر کے اس کی بندرگاہ غلاموں کی تجارت کے لیے وقف کر دی تھی۔ مسلح یورپی قزاق العیون کی بندرگاہ پر اترتے اور انسانوں کو گھیر کر جانوروں کی طرح جہاز پر سوار کر کے یورپ روانہ کر دیا جاتا جہاں ہالینڈ میں روٹر ڈیم Rotterdam کی بندرگاہ پر غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئی تھیں۔ 1975 میں ہسپانیہ کے جنرل فرانکو نے صحارا کو موریطانیہ اور مراقش کے حوالے کر دیا۔ شمالی علاقہ جو رقبے کے اعتبار سے 2 تہائی سے زیادہ ہے مراقش کو دے دیا گیا۔ یہ علاقہ مراقش کا جنوبی صوبہ کہلاتا ہے۔ جنوب کا حصہ جسے جنرل فرانکو نے موریطانیہ کے حوالے کیا مغربی تیرس یا تیرس الغربیہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
علاقے کے عوام نے اس تقسیم کو قبول نہیں کیا، وہ ایک آزاد صحراوی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لیے پاپولر محاذ برائے آزادی کے نام سے مزاحمتی تحریک سالوں سے سرگرم تھی۔ قارئین نے پولیساریو (POLISARIO) فرنٹ کا نام سنا ہوگا جو محاذ کا ہسپانوی محفف ہے۔ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہا ہے، اسی بناپر رباط اور الجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پولیساریو اور مراقشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے 1991 میں اس شرط پر جنگ بندی ہوئی کہ صحارا کی قسمت کا فیصلہ اگلے سال آزادانہ استصواب رائے سے ہوگا۔ ریفرنڈم میں صحراوی عوام سے دریافت کیا جائے گا کہ ‘ کیا وہ مراقش کا حصہ یا پولیساریو کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں؟’ ریفرنڈم کے بعد جب ووٹر فہرست کی تیاری کا کام شروع ہوا تو رائے دہندگان کی شناخت کا مسئلہ سامنے آیا۔ صحارا کی قبائلی نوعیت کی بنا پر شہریوں کے پاس کوئی مستند شناختی دستاویز نہیں تھے چنانچہ انہیں شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن مراقش کے اعتراضات کی بنا پر ووٹر رجسٹریشن کے طریقہ کار پر اتفاق رائے نہ ہو سکا اور ریفرنڈم ملتوی ہوگیا۔ اس دوران پولیساریو نے اقوام متحدہ کے نام ایک خط میں شکایت کی کہ مراقش علاقے کی نسلی ہیئت تبدیل کرنے کیلیے بڑی تعداد میں مراقشیوں کو ساحلی علاقوں میں آباد کر رہا ہے۔
خوں ریز تصادم کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہوئی اور اس بار امریکی شہر ہیوسٹن کی جامعہ رائس (Rice University) میں مذاکرات ہوئے۔ 1997 میں ہونے والے ان مذاکرات کے سہولت کار اقوام متحدہ کے نمائندے جیمز بیکر تھے چنانچہ اسے اعلانِ ہیوسٹن کے علاوہ بیکر معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ ہیوسٹن سے پہلے جناب بیکر کی سربراہی میں پولیساریو اور مراقش کے درمیان پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ووٹروں کی شناخت کے معاملے پر اصولی اتفاق ہو چکا تھا لیکن معاہدے کے باوجود عملی طور پر کام شروع نہ ہوسکا اور 2004 میں مراقش اعلانِ ہیوسٹن سے یک طرفہ طور پر دست بردار ہوگیا۔ بیکر منصوبہ مسترد کر کے مراقش نے ریفرنڈم کے بجائے اپنے زیرانتظام علاقے میں شاہی مجلس شوریٰ برائے امورِ صحارا قائم کر دی جس کے عربی املا کا مخخف CORCAS ہے۔ رباط کا اصرار ہے کہ اس نے CORCAS کی شکل میں صحراوی عوام کو مکمل خود مختاری عطا کر دی ہے لہٰذا ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاہی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بادشاہ سلامت خود نامزد کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں مغربی صحارا پر مراقش کے قبضے کو تسلیم کرلیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں امریکی صدر نے کہا کہ ’مراقش نے امریکا کو اپنی آزادی کے ساتھ ہی تسلیم کرلیا تھا اور اب ہم مغربی صحارا میں اس کی خود مختاری کو تسلیم کر رہے ہیں۔‘ امریکی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کے فیصلے کو صحارا امن کے لیے بڑی پیش رفت قرار دیا ہے لیکن یہ اعلان صحراوی عوام کے لیے مایوس کن ہے جو کئی دہائیوں سے اس علاقے کی آزادی کے خواہش مند ہیں۔
جیسے ’معافی‘ کے عوض امریکہ نے تاوان کی مد میں خرطوم سے 40 کروڑ ڈالر وصول کیے ویسے ہی مغربی صحارا حوالہ کرنے کی قیمت اسلحے کا سودا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بات چیت کے دوران مراقشی بادشاہ کو باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کرے گا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کے لیے مراقش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع نے بتایا ہے کہ مراقش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کے لیے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جس کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کے لیے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کی ہے جس کا حجم 20 کروڑ ڈالر بتایا جا رہا ہےحسب توقع پولیساریو فرنٹ نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں فرنٹ کے نمائندے سیدی عمر نے اس اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ’مہذب دنیا‘ کو یاد دلایا کہ علاقوں کی قانونی حیثیت کا تعین بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہوتا ہے لیکن حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ مراقش مغربی صحارا کے کچھ حصوں پر غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی روح کو فروخت کر رہا ہے۔ پولیساریو فرنٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکی پالیسی میں تبدیلی سے نہ اس تنازعے کی حقیقت تبدیل ہوگی اور نہ مغربی صحارا کے عوام خود ارادیت کے لیے اپنی مقدس جد وجہد سے دست بردار ہوں گے۔‘
اقوامِ متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے انکشاف کیا کہ امن کے بین الاقوامی ادارے کو بھی باقی دنیا کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ سے اس پیش رفت کا علم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف اس معاملے پر تبدیل نہیں ہوا اور یہ معاملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مطابق حل ہونا چاہیے۔
امریکہ کی ثالثی میں مراقش اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ کسی بھی زاویے سے سفارت کاری کا نتیجہ نظر نہیں آتا، یہ قبضہ مافیا کے درمیان ڈان کی سربراہی میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کا معاہدہ ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]
***

سعودی عرب کی جانب سے آنے والے تمام اشارے مثبت ہیں لیکن اب تک ریاض نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020