امت کا اتحاد امت والی سوچ چاہتا ہے

افتراق کے ساتھ ملت چیلنجس کا سامنا نہیں کر سکتی

محی الدین غازی

 

جب بھی اتحاد امت کی کسی کوشش کی خبر آتی ہے، خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ خوشی کے اس احساس کے بیچ یہ اندیشہ بھی سر اٹھاتا ہے کہ کہیں یہ خبر بھی باسی خبروں کے انبار میں شامل نہ ہوجائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی متعدد خبریں پرانے اخباروں کے آرکائیو میں آرام فرمارہی ہیں۔ تاہم امت کی صحت مندی اسی میں مضمر ہے کہ وہ مایوسی کو امید پر غالب نہ آنے دے اور اندیشوں کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دے۔اچھے کاموں کو صحیح رخ دینےکی کوشش کرتے رہنا بہت اچھی بات ہے، لیکن بدگمانیاں پھیلا کر شروع ہی میں اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنا بری بات ہے۔ بدگمانیوں کی زیادتی تعمیر و تخریب کے فرق کودیکھنے سے محروم کردیتی ہے۔ بہرحال جب ملت میں اتحاد کی ایک لہر دوڑی ہے ، تو کچھ معروضات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اتحاد ملت کے لیے کی جانے والی سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش وہ سمجھی جاتی ہے جس میں ایک اسٹیج پر ملت کے دھڑوں کی نمائندگی کرنے والے زیادہ سے زیادہ افراد جمع ہوجائیں لیکن اس طرح دھڑوں کا رول اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ ملت کا نمائندہ ہونے کے لیے اپنے دھڑے کا نمائندہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتحاد ملت کی کوششوں کے لیے سب سے زیادہ مفید وہ لوگ قرار پائیں جو ملت کے اندر اور خود اپنےحلقے کے اندر دھڑے بندیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔
کسی بھی کوشش کے لیے اس کوشش کے چہرے کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اتحاد ملت کی کوشش کا صاف ستھرا ،پرکشش اور قابل اعتماد چہرہ ان افراد سے مل کر بنتا ہے جو اتحاد کی قیمت ادا کرنے کے لیے پہچانے جاتے ہوں اور اتحاد کے لیے اپنی ذات اور ذات سے جڑی مصلحتوں کی قربانی دیتے رہے ہوں۔ ایسے افراد کی تلاش ہونی چاہیے۔ جو افراد اس پہلو سے نیک نام نہیں رہے ہیں انہیں ایسی کسی کوشش کا چہرہ تو نہیں بننا چاہیے۔
عام طور سے ملت کی بہت سی شخصیات کے اتحاد کو ملی اتحادسمجھ لیا جاتا ہے اور ان کے بکھر جانے کو ملی انتشار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملی شخصیات کا اتحاد ملت کے اتحاد میں مددگار تو ہوسکتا ہے، لیکن وہ ملی اتحاد کا بدل نہیں ہوسکتا ہے۔ ملی اتحاد تو دراصل وہ ہے جو شخصیات کو انتشار کا راستہ اختیار نہ کرنے دے۔ یہ اس وقت ہوگا جب اتحاد ملت کی ضرورت واہمیت کا احساس خود ملت کو ہوجائے اور انتشار وافتراق کو بڑھانے والا کوئی بدگیت ملت میں مقبول نہ ہوسکے۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ بھاری نقصانات اٹھانے کے باوجود اتحاد ایک ملی جذبہ نہیں بن سکا ہے۔ امت میں وہ تقریریں زیادہ مقبول ہیں جو امت کے اندر فرقہ بندی کو بڑھاوا دینے والی ہیں۔ عوام کے اندر ملی اتحاد کا جذبہ شعوری کوششوں کے ذریعے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ان رخنوں کی تلاش کرنی ہوگی جہاں سے گروہ بندیوں کو غذا مل رہی ہے اور ان رخنوں کو بند کرنے کی تدبیریں کرنی ہوں گی۔ وحدت امت کو دین کا لازمی جز بتانے والی قرآنی آیتوں اور حدیثوں کو ان کی اصلی طاقت کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ افسوس کہ ہمارے یہاں ستّر فرقوں والی حدیث کو کثرت کے ساتھ بے محل پیش کیا جاتا ہے اور اس کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ جب کہ ایک امت والی آیتوں اور حدیثوں پر زور کم رہتا ہے۔
دیکھا یہ جاتا ہے کہ اتحاد امت کے حق میں تقریریں اس اسٹیج پر کی جاتی ہیں جو خاص اسی کے لیے سجایا جاتا ہے اور جس میں مختلف حلقوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ لیکن اپنے حلقے کے اسٹیج پر اتحاد امت موضوع نہیں بن پاتا ہے۔ اس وجہ سے امت کااتحاد امت کے مختلف حلقوں کی اپنی فکرمندی کا حصہ نہیں رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر حلقہ اور جماعت اپنی اندرونی گفتگو اور منصوبہ بندی میں اتحاد امت کو موضوع بنائے۔ فکر مندی اور منصوبہ بندی اس بات کے لیے ہو کہ اپنے حلقے یا جماعت کی سوچ اور مزاج میں وہ کیا تبدیلیاں لائی جائیں کہ وہ حلقہ یا جماعت ایک متحد امت کا حصہ بن سکے اور امت میں صحیح طریقے سے فٹ ہوسکے۔
ابھی تو صورت حال یہ ہے کہ ملت کے مختلف حلقے اور جماعتیں ملت کے جسم کا حصہ بننے کے لیے موزوں نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اندرونی فکر سازی میں اتحاد امت سے زیادہ اپنی شناخت پر زور ہوتا ہے۔ میں یہاں اپنی شناخت کو مٹانے کی بات نہیں کررہا ہوں۔ لیکن جب تک کسی حلقے کے اندر امت سے وابستگی کا مزاج غالب نہیں ہوگا وہ حلقہ امت کا حصہ بن ہی نہیں سکے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اتحاد امت کی کانفرنسیں، اس موضوع پر تقریریں ، اس کے لیے منصوبہ بندی اور پروگرام سب سے پہلے اپنے حلقے کے اندر کیے جائیں اور حلقے کی صورت گری اس طرح کی جائے کہ وہ اپنی الگ شناخت کے باوجود امت والی شناخت کو واقعی اہمیت دیتا ہو۔
اتحاد ملت کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کو ناپنے کا پیمانہ تقریریں اور کانفرنسیں نہیں ہیں۔ صحیح پیمانہ اقدامات ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اتحاد امت کانفرنس اور اس میں ہونے والی تقریریں اقدامات سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ دراصل تقریروں کے اثر کی مختصر عمر ہوتی ہے اور اقدامات کے بغیر ہر قرار داد محض خوشبو کا ایک جھونکا ثابت ہوتی ہے۔ اقدام خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو لیکن وہ سنجیدگی کی علامت بنتا ہے اور دور رس اثرات رکھتا ہے۔ حضرت حسنؓ نے اقدام کرکے ملت کو بہت بڑی خوں ریزی سے بچالیا تھا۔ اتحاد امت کے لیے کی جانے والی ہزاروں لاکھوں تقریریں بھی حضرت حسنؓ کے اس ایک اقدام کی ہم وزن نہیں ہوسکتی ہیں۔
دیوار برلن کے انہدام کو انسانوں کے اتحاد کی تاریخ میں اہم سنگ میل مانا جاتا ہے۔ تیرہ اگست ۱۹۶۱ میں ۱۵۵ کیلومیٹر لمبی اس دیوار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس نے اٹھائیس سال تک ایک ہی شہر کے باشندوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا۔ تاہم نو نومبر ۱۹۸۹ کو ریاستی ظلم وجبر کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ دیوار عوام نے اپنے ہاتھوں سے منہدم کرڈالی اور ایک دوسرے سے گلے مل کر اپنے جذبات کا خوب اظہار کیا۔ جرمن قوم کو تقسیم کرنے والی اس دیوار کو منہدم کرنے کے لیے زبردست عوامی جذبہ درکار تھا اس کے بغیر یہ اقدام ممکن نہیں تھا۔ امت کے اندر بھی بہت سی دیواریں امت کے افراد کو ایک دوسرے سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ان دیواروں کے ہوتے ہوئے امت کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ اتحاد امت کے لیے کی جانے والی ہر کانفرنس اور تقریر اس بات کا برملا اعتراف ہے کہ امت کو دیواروں نے تقسیم کررکھا ہے۔ ان دیواروں کو منہدم کرنا شخصیات کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے عوامی جذبہ ضروری ہے۔ اور یہ جذبہ وہ لوگ نہیں پیدا کرسکتے ہیں جو ان دیواروں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ یہ جذبہ وہی لوگ پیدا کرسکتے ہیں جو ان دیواروں سے خدا واسطے کی نفرت کرتے ہیں۔
اتحاد امت ایک اعلیٰ مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے اخلاص ضروری ہے۔لازم ہے کہ جو لوگ اس کے لیے سرگرم ہوں وہ پھر کسی اور تمنا کو دل میں نہ بسائیں۔ امت کی قیادت کرنے کا شوق اور امت کو متحد کرنے کا جذبہ ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ہیں۔ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والی چیز قیادت کا شوق ہی ہوا کرتا ہے۔ اس شوق نےامت کے اندر بہت سے جسموں کو دولخت کیا ہے۔ جب مخلص افراد کا ایک ایسا گروہ اکٹھا ہوگا جو بنیاد کا نظر نہیں آنے والا پتھر بننے کا عہد کرے۔ جس کی سب سے بڑی فکر اتحاد کی پختہ کاری اور حفاظت ہو۔ جو اتحاد کی قیادت کرنے والے اہل ترین افراد کی تلاش میں سرگرداں رہے اور اہل ہونے کے باوجود خود کو اہل نہ سمجھے۔ اس وقت اتحاد کی راہیں آسان ہوجائیں گی۔ اپنے نفس کو قیادت کی حرص سے پاک رکھنے والوں کے لیے بہترین نمونہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ذات گرامی ہے۔ ان کے پاس حضرت عمرو بن عاصؓ پہنچے اور کہا چلیں باہر نکلیں ہم آپ سے بیعت کرلیں، آپ تو رسول اللہ کے صحابی اور امیر المومنین کے بیٹے ہیں اور خلافت کے سب لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ انہوں نے کہا: آپ جو کہہ رہے ہیں کیا اس پر تمام لوگ جمع ہوگئے ہیں؟ کہا: ہاں سوائے ایک بہت چھوٹے گروہ کے۔ انہوں نے کہا اگر ہجر (حجاز) میں صرف تین افراد ہی باقی رہ جائیں باقی سب میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں ، تب بھی مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انتشار وافتراق امت کی خطرناک بیماری اور بہت بڑی کم زوری ہے۔ہندوستان کی مسلم امت تو اس انتشار وافتراق کی ذرا بھی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ تعلیمی و معاشی پسماندگی اور سیاسی بے وزنی جیسے امراض اسے زمانہ دراز سے لاحق ہیں۔ فسطائیت کا خطرہ اس کے پورے وجود کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسی صورت حال کا سامنا ٹکڑوں میں بٹے ہوئے جسم سے تو ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اتحاد کی کسی بھی کوشش کو مضبوط زمین اسی وقت مل سکتی ہے جب کہ اتحاد کسی بڑے پروگرام سے وابستہ ہو۔ خطرات سے بچنے کے لیے اتحاد خطرات کا احساس کم ہوتے ہی بکھرنے لگتا ہے۔ لیکن طویل مدتی تعمیری منصوبوں کے لیے اتحاد منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہوتا جاتا ہے۔ ملت میں اب تک جو بھی اتحاد ہوئے وہ خوف کے ماحول میں ہوئے اس لیے وہ خوف کی طرح ناپائیدار ثابت ہوئے۔ امید کی عمر زیادہ ہوتی ہے، امیدوں سے معمور منصوبوں کے لیے اتحاد کی عمر بھی زیادہ ہوگی۔ ( مضمون نگار ماہنامہ زندگی نو کے ایڈیٹر ہیں اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں )
***

اتحاد امت ایک اعلیٰ مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے اخلاص ضروری ہے۔لازم ہے کہ جو لوگ اس کے لیے سرگرم ہوں وہ پھر کسی اور تمنا کو دل میں نہ بسائیں۔ امت کی قیادت کرنے کا شوق اور امت کو متحد کرنے کا جذبہ ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ہیں۔ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والی چیز قیادت کا شوق ہی ہوا کرتا ہے۔ اس شوق نےامت کے اندر بہت سے جسموں کو دولخت کیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21  اگست 2021