اللہ کو مطلوب ایمان

اہلِ ایمان کی زندگی کا کوئی گوشہ دین سے جدا نہیں ہوتا

ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدر آباد

 

دور حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین کا محدود تصور رکھتی ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات میں تو وہ احکامِ الٰہی کی پابندی کرتی ہے لیکن دیگر معاملاتِ دنیا مثلاً صنعت و تجارت، سیاست و معیشت وغیرہ کو دنیوی امور قرار دے کر شریعت خداوندی کا لحاظ نہیں کرتی بلکہ جیسا جی میں آئے ویسا کام کرتی ہے۔ اس سے اللہ کی طرف سے پھٹکار پڑتی ہے اور وہ ذلت و نامرادی کا شکار ہو جاتی ہے ۔
ارشادِ خدا وندی ہے:
(ترجمہ) تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو پھر جو تم میں سے ایسا کرے اس کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں ذلیل ہو اور قیامت کے دن سخت عذاب میں دھکیلے جائیں اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔ (البقرہ:۸۵)
فقہی اور قانونی اسلام کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ کسی شخص کا نام مردم شماری کے رجسٹر میں مسلمانوں کا سا ہو۔ اس کے بعد چاہے وہ کچھ بھی کرے عبداللہ اور عبدالرحمن ہی رہے گا۔ لیکن حقیقی اسلام کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہو ، تب ہی اس کی دنیا بھی سنور سکتی ہے اور آخرت میں بھی وہ اللہ کے رسوا کن عذاب سے بچ سکتا ہے۔
اللہ کے رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کے رسولؐ کی نافرمانی اللہ کی نا فرمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) اللہ کے رسول تمہیں جس بات کا حکم دیں ان کی بات مانو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاو۔ (سورہ الحشر:۷) تو یہ حقیقی اسلام ہی ہے جو آدمی کو دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو کر سکتا ہے ورنہ قانونی مسلمان تو بہت سے ہیں اور رہیں گے جو بس نام کے مسلمان ہیں اور عمل کی دنیا میں اسلام سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ منحرف ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ کیا اس کی شکر گزاری کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ ہم اپنی جان اپنا مال اور سارے اسباب اللہ کی راہ میں لگا دیں۔ اگر ہم دین و دنیا کی تقسیم کریں گے تو بتائیں کہ ہم بندگی رب کا حق کیسے ادا کرسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار کیسے کہلائے جاسکتے ہیں؟
آج ہم کئی لوگوں میں یہ نعمتیں دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کو زندگی کا ایک ضمیمہ سمجھتے ہیں اور عبادات اور ذکر و اذکار میں احکام الٰہی کی پابندی تو کرتے ہیں لیکن باقی زندگی کو اسلام سے آزاد کر کے کبھی اپنے بزرگوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو کبھی خاندان کے رسومات کو اہمیت دیتے ہیں اور کبھی فیشن کے نام پر زمانے کا ساتھ دیا جاتا ہے اور ان تمام کاموں میں یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ اللہ تعالیٰ کا دین ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ خاص طور پر کاروبار و معاملات اور سیاست و تہذیب و تمدن میں قانون خداوندی کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ پھر وہ مقام اور وہ قدر و منزلت ہمیں کیسے حاصل ہو سکتی ہے جو اہل ایمان کے اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔
فقہی و قانونی اسلام اور حقیقی اسلام کا فرق واضح ہونے کے بعد اب یہ جان لینا چاہیے کہ اس اعتبار سے آخرت میں مختلف نتائج سامنے آئیں گے ہی لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ بڑی حد تک دنیا میں بھی اس کے نتائج مختلف ہی ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے مسلمان تو وہ ہیں جو اسلام کو مذہب کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں اور اسے اپنی عملی زندگی کا ایک جزو اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھتے ہیں۔ ایک طرف ان کی اسلام سے عقیدت ہے، تسبیحات ہیں، عبادتیں ہیں، کھانے پینے کے آداب اسلامی ہیں، معاشرتی زندگی بھی اسلام کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ خیر کے کچھ کام ہیں، غرض یہ کہ وہ سب کچھ ہے جسے عام طور پر مذہبی زندگی سمجھا جاتا ہے۔ مگر زندگی کے اس شعبے کے علاوہ ان کی باقی زندگی غیر اسلامی رنگ لیے ہوئے ہے، اس میں ان کے مسلم ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ محبت اپنے نفس کے لیے کرتے ہیں۔ ان کے پیش نظر ان کا فائدہ ہوتا ہے یا ان کی قوم کا یا ملک کا فائدہ ہوتا ہے۔ ان کے کاروبار، ان کے لین دین، ان کے رات دن کے مشغلے، ان کی سیاسی زندگی اور ان کی تمام دلچسپاں دین سے آزاد ہوتی ہیں۔ وہ یہ جاننے کہ کوشش ہی نہیں کرتے کہ اللہ کا دین ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ خاص طور پر کاروبار و معاملات اور سیاست و تہذیب و تمدن اور معاشرت و معیشت میں قانونِ خداوندی کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اسلام کو لاتے اور طلاق و وراثت میں ہی نہیں بلکہ سیاست میں بھی اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوتے تو آج دنیا جنت ارضی ہوتی۔اب دوسری قسم کے مسلمانوں کو لیجیے۔ آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا جینا اور مرنا سب اسلام کے لیے ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور اپنے پورے وجود کو اسلام کے حوالے کرتے ہیں۔ ان کی ساری حیثیتیں اسی حیثیت میں گم ہو جاتی ہیں۔ وہ چاہے باپ ہوں بیٹے ہوں شوہر ہوں یا بھائی ہوں ہر حیثیت میں مسلمان ہوں گے، وہ جو بھی سوچیں گے کام کریں گے کسی سے ملیں گے یا کٹیں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ وہ کمائیں گے کھائیں تو مسلمان کی حیثیت سے جئیں گے مریں گے تو مسلمان کی حیثیت سے۔ پھر ان کی یہ حیثیت صرف انفرادی زندگی کی حد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سرتا سر اسلام پر قائم ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ وہ اپنے اس اقرار میں کھرے ثابت ہوتے ہیں اور وہ اسلام کو اپنی پوری زندگی کے لیے ایک مکمل دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔
دونوں قسم کے مسلمان اگرچہ قانونی لحاظ سے امت میں شامل ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پہلی قسم کے مسلمانوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو ان کا کارنامہ حیات کہا جائے۔ ایسے مسلمانوں کا وزن کبھی بھی محسوس نہیں کیا گیا۔ ان کے وجود کا نوٹس بھی کہیں نہیں لیا گیا۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ ایسے مسلمانوں نے اپنے مفادات ک خاطر اسلامی اقدار کو الٹا نقصان ہی پہنچایا ہے۔ یہ وہ مسلمان تھے جن کی وجہ سے نظام زندگی کی باگ ڈور غیروں کے قبضے میں چلی گئی تھی۔ ایسے مسلمانوں نے ہمیشہ کفر کے ہاتھ مضبوط کیے اور ایک محدود مذہبی زندگی پر قانع ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے مسجد میں سجدے کی اجازت کو کافی سمجھ لیا۔ لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے مسلمان مطلوب نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو مبعوث کیا اور کتابیں نازل کیں تو اس کی ایک ہی غرض تھی اور وہ یہ تھی کہ ایسے مسلمان بنائے جائیں جن کا ذکر اوپری سطروں میں دوسری قسم کے مسلمانوں کے طور پر کیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کسی مسلک کا جھنڈا کبھی ایسے پیرووں کے ہاتھوں بلند نہیں ہوا جنہوں نے اسے محض ایک ضمیمہ بنا کر رکھ چھوڑا ہو اور جن کا جینا اور مرنا اپنے مسلک کے سوا کسی اور چیز کے لیے ہو۔
ایک مسلک کے حقیقی اور سچے پیرو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو دل وجان سے اس کے وفا دار ہوتے ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اس میں گم کر دیتے ہیں اور جو اپنی کسی چیز کو حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد تک کو اس کے مقابلہ میں عزیز نہیں رکھتے۔ دنیا کا ہر مسلک ایسے ہی پیروکار مانگتا ہے، اور اگر کسی مسلک کو دنیا میں غلبہ نصیب ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایسے ہی پیروؤں کی بدولت ہو سکتا ہے۔
البتہ اسلام میں اور دوسرے مسلکوں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلک اگر انسانوں سے اس طرز کی فنائیت اور فدائیت اور وفاداری مانگتے رہیں تو یہ فی الواقع انسان پر ان کا حق نہیں ہے بلکہ یہ ان کا انسان سے ایک بے جا مطالبہ ہے۔ البتہ اسلام یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دے کہ وہ اپنی جان نچھاور کر دیں تو یہ بالکل ٹھیک بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے برتنے میں جو چیزیں آتی ہیں وہ سب اللہ کی ہیں اس لیے انصاف اور عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ جو کچھ اللہ کا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو۔ دوسروں کے لیے یا خود اپنے نفس کے لیے اسے قربان کرنا ایسی خیانت ہے جس سے بڑھ کر کوئی خیانت نہیں ہو سکتی۔ انسان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کرے۔ خدا کے لیے انسان جو کچھ قربان کرتا ہے وہ تو دراصل اپنا حق ادا کرتا ہے پھر بھی یہ سمجھتا ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
اسلام کا یہ معیار جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو اس پر رکھ کر دیکھیں اور اپنا امتحان لیں کہ ہم اس پر کہاں تک پورے اترتے ہیں۔
ہم سب اس میں کوتاہ ہیں ہم سب میں خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ خدا بچائے اس سے کہ کہیں ہم پر اس کا غضب نازل ہو۔ ہمارا اسلام یہ ہو کہ ہم پہلے اپنی خامیاں اور کمزوریاں دیکھیں اور پھر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہم کو ہر آن اس پر نظر رکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم فرائص و نوافل کی تو پابندی کر رہے ہیں اور صدقات بھی دے رہے ہیں لیکن کاروبارِ دنیا اور معاملات میں احکام الٰہی کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ احکام الہی کو معلوم کریں، اس کی تعلیمات سے واقف ہوں اور ان کو اپنی زندگی میں روبہ عمل لائیں۔ ہم یہ فکر کریں کہ کل روز محشر ہمیں خدائے تعالیٰ کو اپنے اعمال کے بارے میں جواب دینا ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت اور بے شمار نعمتوں کا ہم نے کہاں تک حق ادا کیا؟ ہم اقتدارِ وقت کی ناراضگی کی فکر نہ کریں بس ہمیں ڈر ہو تو خدائے بزرگ و و برتر کی ناراضگی کا ہو۔
یہ ایمان کی کسوٹی ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا دن اگر نکل رہا ہے تو کتنے برائی کے کام ہیں جو ہم چھوڑ رہے ہیں اور کتنی نیکیاں ہیں جو آج ہم کما سکتے ہیں لیکن کل اس کا موقع نہیں ہے۔ ہم حلال و حرام کی تمیز کریں۔ حرام کو چھوڑیں اور حلال کو اختیار کریں ۔ ترازو میں ڈنڈی مارنا، غلّہ کو جمع کر کے رکھنا کہ قلت کے وقت بازار میں بیچ کر من مانی منافع کمایا جائے۔ رشوت لینا اور نوکری میں وقت کی پابندی نہ کرنا، یا اپنے فرائض کی پابندی نہ کرنا، شادی میں بے جا رسومات ادا کرنا، دعوتوں میں فضول خرچی کرنا،،، یہ اور ان جیسے کئی کام ہیں جو ہمیں چھوڑ دینے ہوں گے۔
آپ کو اس کی ذرا پروا نہیں ہونی چاہیے کہ دوسرے کیا خیال کریں گے یا زمانہ کیا سمجھے گا اگر ہمیں اپنی آخرت عزیز ہے تو دنیا کا خسران بھی ہمیں گوارا کرنا پڑے گا۔ یہی ہمارے ایمان کی کسوٹی ہے۔
(ماخوذ از خطبات حصہ اوّل)

اگر ہم اپنی زندگی میں اسلام کو لاتے اور طلاق و وراثت میں ہی نہیں بلکہ سیاست میں بھی اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوتے تو آج دنیا جنت ارضی ہوتی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021