سی اے اے مخالفین کی گرفتاریوں کا سلسلہ! کیا ہیں پس پردہ محرکات؟

ٓئین و جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے سیاسی انتقام جاری

افرورز عالم ساحل (دلی بیورو)

کسی بھی جمہوری ملک میں حزب اختلاف یا مخالفین کی آواز کو عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور یہ جمہوریت کے لیے ایک مثبت شئے مانی جاتی ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں اقتدار ایک ایسی پارٹی کے ہاتھوں ہے جس کے نزدیک سچ بولنا جرم ہے۔ مخالفین پر سرکاری ظلم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک اب دنیا کے ’’ناقص جمہوریت‘‘ کے زمرے میں شامل ہو گیا ہے۔

’2019 ڈیموکریسی انڈیکس‘ کے 167ملکوں کے گلوبل رینکنگ میں ہندوستان اب 51ویں پوزیشن پر آ گیا ہے جب کہ سال 2018 میں یہ 41ویں مقام پر تھا اور سال 2014 میں ہندوستان کا مقام 27 واں تھا۔

یہ ڈیموکریسی انڈیکس خاص طور پر ان پانچ باتوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے کہ ملک میں انتخابی عمل، اکثریت پسندی، حکومت کی کار گزاری، سیاسی شراکت داری اور سیاسی مذاکرہ یا کلچر کیسا ہے اور خاص طور پر شہری آزادی کتنی ہے اور حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتی ہے؟ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہندوستان کی سب سے زیادہ خراب کارکردگی شہری آزادیوں کے معاملے میں رہی ہے لیکن موجودہ حکومت اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کے بجائے اسے مزید بدتر کر رہی ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ جو شہری حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، ملک کی بہتری اور امن و امان کی بات کرتا ہے حکومت اسے اپنے غیر آئینی کالے قوانین کے تحت جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مضبوط آواز بلند کرنے والے نوجوان لیڈر ڈاکٹر عمر خالد کی گرفتاری بھی حکومت ہند کے ’آمرانہ جمہوریت‘ کی طرف بڑھنے کا ثبوت ہے۔ ملک میں امن اور گاندھی کے ستیہ گرہ کی بات کرنے والے عمر خالد کو دلی پولیس کی خصوصی سیل نے فروری میں ہوئے شمال مشرقی دلی فسادات میں مبینہ کردار کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان کی اس گرفتاری کے بعد ملک بھر کے نوجوانوں میں غصہ ہے اور سوشل میڈیا میں ان کی رہائی کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔

ہفت روزہ دعوت نےڈاکٹر عمر خالد کی اس گرفتاری کے مسئلے پر ملک کے کئی مشہور سماجی کارکنوں اور نوجوانوں سے جو عمر خالد کی رہائی کے لیے مہم چلا رہے ہیں خاص بات چیت کی ہے۔ ہفت روزہ دعوت نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ عمر خالد اور اس سے قبل ہوئیں درجنوں نوجوانوں کی گرفتاریوں کو کس طرح دیکھتے ہیں اور شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کی مخالفت کرتے ہوئے آئین بچانے کی جو لڑائی انہوں نے شروع کی تھی اس کا مستقبل کیا ہے؟

سی اے اے مخالف تحریک میں شامل لوگوں کو مجرم ٹھیرانے کی کوشش: پروفیسر اپوروانند

دلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں بتایا کہ شروع سے ہی دلی پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دلی تشدد کی جانچ کر رہی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ دلی تشدد کی کوئی جانچ نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس کے نام پر ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہروں میں حصہ لینے والوں کو مجرم ٹھیرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پروفیسر اپوروانند کو بھی دلی فساد سے جڑے معاملے میں 13 اگست 2020 کو پوچھ تاچھ کے لیے اسپیشل سیل کے لودھی روڈ واقع آفس پر بلایا گیا تھا۔ قریب پانچ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد ان کا فون بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ پروفیسر اپوروانند نے شہریت ترمیمی قانون اور تعلیمی گاہوں میں کریک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی۔

سوال کسی ایک قانون کا نہیں، ملک کو بچانے کا ہے:

 ہرش مندر

مشہور سماجی کارکن ہرش مندر کہتے ہیں کہ ملک میں جتنے بھی فساد ہوتے ہیں ان میں ہم نے دیکھا ہے کہ سرکار اور پولیس نے بس یہی کوشش کی ہے کہ جو فساد برپا کرنے کے اصل ذمہ دار ہیں انہیں بچایا جائے۔ ہر فساد کے بعد پولیس کے کردار پر سوال اٹھتے رہے ہیں لیکن کبھی بھی پولیس کو جواب دہ نہیں بنایا گیا ہے۔ لیکن میں اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ جو لوگ شانتی، امن اور بھائی چارے کی بات کر رہے تھے، انہی کو دلی تشدد کے معاملے میں مجرم بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ بہت صاف ہے کہ سرکار کا مقصد یہ نہیں ہے کہ دلی کے فسادات میں جو لوگ شامل تھے وہ پکڑے جائیں، بلکہ وہ لوگ جنہوں نے سی اے اے کی مخالفت کی تھی انہیں نشانہ بنایا جائے تاکہ آگے اس طرح کی مخالفت نہ ہو سکے۔ عمر خالد کی گرفتاری کے سوال پر ہرش مندر کہتے ہیں کہ سی اے اے مخالف تحریک کے دوران ہم نے ساتھ میں تقریریں کیں، انہوں نے ہمیشہ عدم تشدد کی بات کی۔ ملک کے نوجوانوں کو عمر خالد پر فخر ہونا چاہیے۔

ہرش مندر کے مطابق ان کا نام 6 چارج شیٹوں میں درج ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 16 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دھرنا کے مقام کا دورہ کر کے مظاہرین کو اکسایا کہ وہ سپریم کورٹ پر یقین نہ کریں اور انصاف کے حصول کے لیے سڑک پر اتریں۔ ان کے اوپر دلی تشدد کی سازش رچنے کا بھی الزام ہے حالاں کہ فروری میں ہونے والے تشدد کے پیش نظر ہرش مندر نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ان سیاسی لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر کرنے کی درخواست کی گئی تھی جنہوں نے تشدد بھڑکنے سے پہلے اشتعال انگیز تقریریں کیں جن کے نتیجے میں فسادات بھڑک اٹھے۔

حکومت آئین و جمہوریت کا کر رہی ہے قتل

دلی فسادات کے نام پر سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی ہو رہی گرفتاریوں کے سوال پر دلی یونیورسٹی میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہی سواتی کھنہ کا کہنا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے نام پر لاک ڈاؤن ہوتے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ چل پڑا۔ حکومت کا لاک ڈاؤن کرنے کا مقصد کوویڈ-19 سے لڑنے سے زیادہ اپنے مخالفین کو سبق سکھانا اور ملک کے معصوم شہریوں کو خوف میں مبتلا کرنا تھا۔ ملک کی موجودہ حکومت آئین اور جمہوریت کا قتل کر رہی ہے۔ پولیس کسی بھی شہری کے با عزت طریقے سے زندگی گزارنے اور اظہارِ آزادی کے حق کو جو آئین کے آرٹیکل 20 اور 21 کے تحت دیا گیا ہے کسی بھی حالت میں ختم نہیں کر سکتی۔ سواتی کھنہ بھی سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش تھیں اور انہوں نے ہر جگہ کھل کر اس قانون کی مخالفت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی قانون ’یو اے پی اے‘ غیر آئینی ہے۔ اس قانون پر اب تک کوئی جوڈیشیل ریویو نہیں ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اب تک کوئی سنوائی نہیں کی  ہے۔ آج ملک ایمرجنسی سے بھی بدتر حالات سے گزر رہا ہے۔

  گزشتہ سال  یو اے پی اے ترمیمی بل 2019 کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے دلی کے سجل اوستھی اور این جی او ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ عرضی گزاروں کا مطالبہ ہے کہ اس بل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اس عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی ہے۔

عمر خالد حکومت کے خلاف سچ بولتا ہے:نابیہ خان

سی اے اے مخالف مظاہروں میں ایک اہم نام نابیہ خان کا بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک طریقہ ہے بی جے پی حکومت کا ان لوگوں سے بدلہ لینے کا جنہوں نے کھل کر فرقہ وارانہ و غیرآئینی قانون کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ عمر خالد آج سے نہیں 2016 سے ان کے نشانے پر ہے کیوں کہ وہ حکومت کے خلاف سچ بولتا ہے۔ ملک سے غداری کے معاملے میں پھنسا نہیں پائے تو اب اس کی تقریر کا چھوٹا سا حصہ کاٹ کر اس کو دلی تشدد کا ذمہ دار بتانے لگے جب کہ وہ اس تقریر میں تشدد کی نہیں گاندھی کے عدم تشدد کی بات کر رہا ہے۔ وہیں جس کپل مشرا نے وہاں کھڑے ہو کر فساد برپا کرنے والی تقریر کی تھی اسے آج تک پوچھ گچھ کے لیے بھی نہیں بلایا گیا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ عمر خالد جیل چلا گیا ہے لیکن ملک کے ہر انصاف پسند شخص کو اس کی گرفتاری کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ صرف عمر خالد ہی نہیں بلکہ جتنے بھی لوگ فرضی طریقے سے اس معاملے میں گرفتار ہوئے ہیں ہمیں ان کی رہائی کا  مطالبہ کرتے رہنا چاہیے۔

سب کو معلوم ہے کہ فساد کون برپا کر رہا تھا: بنو جیوتسنا لاہری

عمر خالد کی ساتھ جے این یو میں تعلیم پا چکی ان کی دوست بنوجیوتسنا لاہری ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتی ہیں، دلی پولیس شروع سے ہی یہ کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ دلی فساد سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں نے ہی کروایا ہے۔ جب کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ فساد کون کروا رہا تھا، بھڑکاؤ تقریریں کون کر رہا تھا کہ جس کے نتیجے میں فساد کے شکار کون ہوئے۔ کن کے مکانات، دکانیں اور مسجدیں جلیں۔ جو لوگ جعفرآباد میں فساد بھڑکانے کے لیے موجود تھے اور جو سوشل میڈیا پر کھلے عام مسلمانوں کو مارنے کی اپیل کر رہے تھے، دلی پولیس ان کو گرفتار نہ کر کے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں سے اس کے تار جوڑ رہی ہے۔

سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کھڑے کیے سوالات

عمر خالد کی گرفتاری پر سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بھی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے جانچ کی آڑ میں پُر امن طریقے سے احتجاج کرنے والے کارکنوں کو پھنسانے کی یہ سازش ہے۔ انہوں نے دلی پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’یچوری، یوگیندر یادو، جیتی گھوش اور اپوروانند کا نام لینے کے بعد اب عمر خالد کی گرفتاری سے دلی فسادات کی جانچ کر رہی دلی پولیس کی بدنیت نظریے کو سمجھنے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ یہ پولیس کے ذریعہ جانچ کی آڑ میں سماجی کارکنان کو پھنسانے کی سازش ہے‘‘۔

عمر خالد 10 دن کے لیے ریمانڈ میں

دلی پولیس نے عمر خالد کو 14 ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راؤت کی عدالت میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پیش کیا جنہوں نے انہیں 10 دن کے ریمانڈ میں بھیج دیا ہے۔ دلی پولیس نے عدالت میں بتایا کہ اسے عمر خالد کے خلاف موجود  گیارہ لاکھ صفحات پر مشتمل دستاویزات کو سامنے رکھ کر پوچھ تاچھ کرنی ہے۔ دلی پولیس کے خصوصی سیل نے اتوار 13 ستمبر کو عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔ تقریباً 11 گھنٹوں کی پوچھ  تاچھ  کے بعد رات 11 بجے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAP

  1. A) کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے قبل اس ماہ کے شروع میں بھی دلی پولیس کی کرائم برانچ نے عمر خالد سے پوچھ گچھ کی تھی اور ان کا موبائل فون بھی جانچ کے لیے ضبط کر لیا تھا۔

ایک ہی ایف آئی آر کی بنیاد پر 15لوگ ہو چکے ہیں گرفتار

ابھی تک دلی پولیس نے دلی فساد سے منسلک کل 751 ایف آئی آر درج کی ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایف آئی آر 59، ایف آئی آر 65، ایف آئی آر 101 اور ایف آئی آر 60 ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دلی پولیس کی کرائم برانچ نے ماہ جون کی شروعات میں فساد کے پیچھے کی ’کرونولوجی‘ بھی عدالت میں پیش کی ہے۔

دلی پولیس کرائم برانچ نے 6 مارچ کو ایک ایف آئی آر (نمبر 59/2020) درج کی۔ اس ایف آئی آر میں صرف دو افراد کے نام تھے- جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر عمر خالد اور محمد دانش، جو پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے وابستہ ہیں لیکن اس ایف آئی آر 59 کی بنیاد پر اب تک 15 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے صفورا زرگر، محمد دانش، پرویز اور الیاس فی الحال ضمانت پر رہا ہیں۔ باقی 10 لوگ اب بھی عدالتی تحویل میں ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے بیشتر کو ابتدائی طور پر دلی فسادات سے متعلق مختلف ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن جیسے ہی ان معاملوں میں انہیں ضمانت ملی یا ملنے کی امید نظر آئی، ان کا نام ایف آئی آر نمبر 59 میں بھی شامل کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ ایف آئی آر 59 میں یو اے پی اے کی دفعات شامل ہیں جو دہشت گردی کے معاملات میں لاگو ہوتے ہیں۔ یو اے پی اے کی دفعات کے تحت تفتیشی ایجنسیاں بغیر قانونی کارروائی کے ان لوگوں کو طویل عرصے تک نظر بند رکھ سکتی ہیں۔ دلی پولیس کی کرائم برانچ کا کہنا ہے کہ دلی فسادات کے پیچھے گہری سازش تھی۔ یہ ایف آئی آر اسی مبینہ سازش کے بارے میں ہے۔

اس ایف آئی آر میں کرائم برانچ کے اروند کمار بتاتے ہیں کہ انہیں ان کے ایک خاص مخبر نے یہ اطلاع دی کہ دلی میں جو فرقہ وارانہ فساد ہوا ہے، وہ پہلے طے شدہ ایک سازش تھا۔ اس فساد کو پھیلانے کی سازش جے این یو کے ایک طالب علم عمر خالد اور اس کے ساتھیوں نے جو دو الگ الگ تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں،  مل کر رچی تھی۔ اس سازش کے تحت عمر خالد نے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آمد کے دوران لوگوں کو سڑکوں پر اترنے اور سڑکوں کو بند کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ اس دوران انٹرنیشنل سطح پر یہ پروپیگنڈا پھیلایا جا سکے کہ ہندوستان میں اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اسی سازش کے تحت عمر خالد اور اس کے ساتھیوں نے عورتوں اور بچوں کو دلی میں کئی جگہ سڑکوں پر اتار کر فساد بھڑکانے کی سازش رچی تھی۔ ایف آئی آر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سازش میں ہتھیار، پٹرول بم، تیزاب کی بوتلیں اور پتھر کئی گھروں میں اکٹھے کیے گئے۔ پولیس کا الزام ہے کہ معاون ملزم دانش کو فسادات میں حصہ لینے کے لیے دو جگہوں پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔            بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۵

عام آدمی پارٹی کے معطل شدہ کونسلر طاہر حسین کے خلاف پولیس کی جانب سے داخل کی گئی چارج شیٹ میں بھی خالد کا نام ہے۔ اس چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ 8 جنوری کو طاہر حسین نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران عمر خالد اور ’یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ‘ کے شریک بانی خالد سیفی سے دلی کے شاہین باغ میں ملاقات کی تھی جہاں عمر خالد نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے وقت کسی بڑے فساد کے لیے تیار رہنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے ہندوستان آنے کی خبر پہلی بار میڈیا نے اپنے باوثوق ذرائع  کے حوالے سے 13 جنوری کو پبلک ڈومین میں لائی تھی تو پھر 5 دن پہلے یعنی 8 جنوری کو ہی ٹرمپ کے دورے کے بارے میں کیسے پتہ چل گیا؟ ایسے میں پولیس کی تھیوری پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔

 عمر خالد کی اس تقریر کا ذکر 11 مارچ کو لوک سبھا میں بھی کیا گیا تھا، تب ’یونائٹیڈ اگیسنٹ ہیٹ‘ نامی تنظیم نے صحافتی بیان جاری کر کے اس بیان کو غلط قرار دیا تھا۔ اس بیان کے مطابق جس (42 سیکنڈ کی) ویڈیو کلپ کا ذکر لوک سبھا میں کیا گیا وہ عمر خالد کی ایک لمبی تقریر سے لی گئی ہے۔ عمر خالد نے یہ تقریر 17 فروری کو امراوتی، مہاراشٹر میں کی تھی۔ اس کلپ میں، وہ کہتے ہیں’’ 24 فروری کو جب ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان آئیں گے، تو ہم بتائیں گے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم اور حکومت ہند ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مہاتما گاندھی کی اقدار کو ختم کر رہے ہیں اور ہندوستان کی عوام حکمرانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اگر حکمران ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو ہندوستان کی عوام ملک کو متحد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سڑکوں پر اتریں گے۔ کیا آپ لوگ باہر آئیں گے؟‘‘ وزیر داخلہ اور ان کے ساتھیوں کے مطابق مہاراشٹر میں اکسانے والی اس تقریر نے سات دن بعد دلی میں تشدد کو جنم دیا۔ لیکن بہت ہی چالاکی سے انہوں نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے کو خارج کر دیا ہے جہاں عمر خالد نے کہا تھا کہ ’’ہم لوگ تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیں گے۔ ہم نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیں گے۔ اگر وہ نفرتیں پھیلائیں گے تو اس کا جواب ہم محبت سے دیں گے۔ اگر وہ ڈنڈا چلائیں گے تو ہم ترنگا اٹھا کر لہرائیں گے۔ اگر وہ گولی چلائیں گے تو آئین کو ہاتھ میں لے کر بلند کریں گے۔ اگر وہ جیل میں ڈالیں گے تو سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا گاتے ہوئے ہنستے ہنستے جیل چلے جائیں گے لیکن ملک کو برباد نہیں کرنے دیں گے۔ اس جدوجہد میں ہم صرف دو ہتھیار استعمال کریں گے، جو مہاتما گاندھی کی ستیہ گرہ نے دیے ہیں – اور یہ کہ ہم ’نفرت‘ کے خلاف ’محبت‘سے لڑیں گے‘‘

اسی ایف آئی آر کے تحت ہوئی ان سب کی گرفتاری

یہ ان ناموں کی فہرست ہے جس پر دلی پولیس نے فسادات کی سازش اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان تمام لوگوں کو مختلف اور کم سنگین الزامات کے ساتھ ایف آئی آر میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں یو اے پی اے کی ایف آئی آر 59 کا حصہ بنا دیا گیا۔

شرجیل امام۔ (پی ایچ ڈی طالب علم، جےاین یو)

خالد سیفی۔ (یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ)

عشرت جہاں۔ (سابق کانگریس کونسلر)

طاہر حسین۔ (عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر)

میران حیدر۔ (پی ایچ ڈی طالب علم، جامعہ ملیہ اسلامیہ)

صٖفورا زرگر۔ (ایم فیل اسٹوڈنٹ، جامعہ ملیہ اسلامیہ)

گلفیشہ فاطمہ۔ (ایم بی اے اسٹوڈنٹ، غازی آباد)

شاداب احمد۔ (جامعہ طالب علم)

شیفائی الرحمن۔ (سابق طالب علم، جامعہ ملیہ اسلامیہ)

نتاشا نروال۔ (جے این یو اسٹوڈنٹ، اور ’پنجرا توڑ‘ کی ممبر)

دیونگانا کلیتا – (جے این یو اسٹوڈنٹ، اور ’پنجرا توڑ‘ کی ممبر)

آصف اقبال تنہا- (طالب علم، جامعہ ملیہ اسلامیہ)

کب کب  تنازعات میں رہے عمر خالد؟

 عمر خالد کا نام پہلی بار فروری 2016 میں جے این یو کے طلبا لیڈر کنہیا کمار کے ساتھ سرخیوں میں آیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کنہیا کمار اور عمر خالد ان چھ دیگر طلباء میں شامل تھے جو جے این یو کے ایک پروگرام میں بھارت مخالف نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس کے بعد عمر خالد پر غداری کا الزام عائد کیا گیا۔ وہ پولیس ریمانڈ پر رہے لیکن کچھ عرصے بعد عدالت سے ضمانت مل گئی۔ لیکن ہندوستانی میڈیا کے ایک دھڑے نے انہیں ’غدار‘ کہا، یہاں تک کہ ان کے ساتھیوں کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کہا گیا۔ ان پر دو بار پاکستان جانے کا الزام بھی لگایا گیا جب کہ عمر خالد کے پاس پاسپورٹ ہی نہیں تھا۔

اس کے بعد سے ہی کئی معاملوں میں عمر خالد اپنے کچھ بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہے۔ خاص طور پر عمر خالد مودی حکومت پر تنقید کی وجہ سے دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والوں کے نشانے پر رہے ہیں۔

 فروری 2017 میں دلی یونیورسٹی کے رامجس کالج کی لٹریری سوسائٹی نے عمر خالد اور طلبہ رہنما شہلا راشد کو ایک ٹاک شو میں شرکت کے لیے بلایا تھا۔ عمر خالد کو ’قبائلی علاقے میں جنگ‘ کے موضوع پر تقریر کرنا تھا لیکن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے تعلق رکھنے والے طلباء اس پروگرام کی مخالفت کر رہے تھے، جس کے دباؤ میں آکر رامجس کالج انتظامیہ نے دونوں مقررین کی دعوت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے ارکان کے درمیان ڈی یو کیمپس میں پُر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔

— اگست 2018 میں کچھ نا معلوم حملہ آوروں نے دلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر عمر خالد پر فائرنگ کی جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ عمر خالد وہاں ’ڈر کے بغیر جمہوریت کی طرف‘ کے موضوع پر ایک پروگرام میں شرکت کے لیے گئے تھے۔

بھیما کورے گاؤں میں تشدد کے معاملے میں بھی عمر خالد کا نام گجرات کے رہنما جگنیش میوانی کے ساتھ لیا گیا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان دونوں نے ہی اپنی تقاریر سے لوگوں کو مشتعل کیا تھا۔

 جنوری 2020 میں عمر خالد نے وزیر داخلہ امت شاہ کو للکارا کہ اگر وہ ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘‘ کو سزا دلوانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اپنی بات کے پکے ہیں، تو ’’ ٹکڑے ٹکڑے‘‘ تقریر کے لیے میرے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کریں۔ اس کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ نفرت انگیز تقریر کس نے کی اور کون غدار ہے۔

کنہیا اور شہلا راشد نے بھی کھڑے کیے کئی سوالات

سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار نے مضمون لکھ کر حکومت پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، کورونا وائرس کی آڑ میں دلی فسادات کی تحقیقات کے نام پر حکومت مخالف آوازوں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پولیس نے سیکڑوں افراد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے اور بہت سارے طلبا کو گرفتار بھی کیا ہے۔ اسی کڑی میں نتاشا اور دیوانگنا کے بعد عمر خالد کو بھی حال ہی میں گرفتار کیا گیا اور دس دن کے لیے پولیس ریمانڈ میں بھیج دیا گیا۔ حد تو تب ہوئی جب سیتارام یچوری، یوگیندر یادو، صبا دیوان، راہل رائے، پروفیسر اپوروانند اور پروفیسر جیتی گھوش کو ان فسادات کے الزامات کے گھیرے میں لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی قائدین، جنہوں نے کھلے عام فساد بھڑکانے کا کام کیا، انہیں پوچھ تاچھ کے لیے کیوں نہیں بلایا گیا اور ان کی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ ”سیاں بھئے کوتوال تو اب ڈر کاہے کا؟ دلی فساد کی جانچ پر سوال اٹھنا لازمی ہے کیوں کہ اس جانچ  کا مقصد انصاف کو یقینی بنانا نہیں بلکہ سیاسی انتقام لینا ہے۔ جے این یو میں عمر خالد کی دوست رہی کشمیر کی نوجوان لیڈر شہلا راشد نے بھی عمر خالد کی گرفتاری پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ’جس طرح مودی کی ڈگری اور شادی فیک ہے، اسی طرح یہ کیس بھی فیک ہے۔‘

کیا ہوگا سی اے اے تحریک کا مستقبل؟

دلی تشدد کے نام پر ابھی تک صرف انہی افراد کی گرفتاری ہوئی ہے، جو کسی نہ کسی طرح سے سی اے اے کی مخالفت میں تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان گرفتاریوں کے پیچھے حکومت کا اصل مقصد لوگوں کے دلوں میں ڈر پیدا کرنا ہے تاکہ دوبارہ کوئی اس قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر نہ اترے۔ ایسے میں سوال ہے کہ سی اے اے مخالف تحریک کا مستقبل کیا ہے؟

اس سوال پر سماجی کارکن ہرش مندر کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ سرکار اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو۔ لوگ جیل میں ڈالے جاتے رہیں گے لیکن لوگوں کو اپنی آواز اٹھاتے رہنا ہوگا کیوں کہ سوال صرف ایک قانون کا نہیں ہے بلکہ ملک کے مستقبل کا ہے۔ سوال اس بات کا ہے کہ ہمارا ملک کس طرح کا ہونا چاہیے۔

نابیہ خان کہتی ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ ان تمام گرفتاریوں سے لوگ ڈر جائیں اور ان کے کسی بھی ظلم کے خلاف نہ بولیں، لیکن مستقبل میں ایسا ہوگا نہیں۔بنو جیوتسنا لاہری بتاتی ہیں کہ سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لینے والا ہر شہری ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہے۔ اس لیے جب ملک میں کوویڈ-19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن شروع ہوا تو ملک بھر کے تمام مظاہروں کو ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سی اے اے کے خلاف ہماری مخالفت ختم ہو گئی ہے۔ جیسے ہی ملک کورونا کے قہر سے باہر نکلے گا، سی اے اے مظاہرے خود بخود شروع ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ جب تک سی اے اے ہے تب تک ملک میں اس کی مخالفت ہوتی رہے گی۔