افغان طالبان اسلامی نظام کے قیام پر اٹل

قطر میں مذاکرات۔فریقین کا موقف اخباری تجزیے

احمد عظیم ندوی، جھارکھنڈ

 

2001 میں امریکہ نے چالیس سے زیادہ اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔ طالبان کے تعلق سے امریکہ کا موقف اتنا سخت ہو گیا تھا کہ 2011-12میں افغانستان کے اندر 150000 سے زیادہ غیر ملکی فوج موجود تھی جن کا کام مسلسل طالبان اور ان کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا تھا، لیکن اس کے باوجود 2001 سے آج تک افغانستان کے نصف سے زیادہ حصہ پر طالبان کا کنٹرول ہے نیز، اب تک 3500 غیر ملکی فوجی مارے جا چکے ہیں جن میں 2300 امریکی ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی طور پر بھی امریکہ کو اس جنگ سے بے انتہا نقصان ہوا ہے۔ جب صدر اوباما کے دور میں افغانستان سے غیر ملکی افواج نکلنا شروع ہوئیں اور 2014 میں یہاں صرف 10000 امریکی فوجی رہ گئے تو سکیورٹی کی ذمہ داری افغان فوج نے اپنے ذمہ لے لی اور طالبان کے خلاف سخت کارروائیاں کیں لیکن اس کی وجہ سے افغان حکومت کا ہی بے تحاشہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ رپورٹس کے مطابق 2015 سے اب تک 30000 افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
چنانچہ افغانستان کے مسلسل 19 سالوں تک جنگ کی آگ میں جلنے کے بعد تمام فریقوں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ تنازع صرف اور صرف بات چیت سے حل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر 29 فروری کو امریکہ اور طالبان میں معاہدہ ہوا اور 12 ستمبر سے قطر کی میزبانی میں دوحہ کے اندر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمن آل ثانی نے اپنے افتتاحیہ میں کہا کہ: ’’افغانستان میں جنگ بندی کا واحد راستہ یہ ہےکہ بات چیت کی شروعات کی جائے نیز، ہم چاہتے ہیں کہ دونوں فریق اس مسئلہ کو اس طرح حل کریں کہ نہ کوئی فاتح ہو نہ کوئی مفتوح‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو: ’’افغانستان کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے ساتھ ہی یہ بات یقینی ہے کہ اس مذاکرے میں بہت سی مشکلات سامنے آئیں گی لیکن فریقین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آپ یہ سب کچھ صرف موجودہ افغان نسل کے لیے نہیں کر رہے ہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کی ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر ہے‘‘۔
افغان وفد کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ: ’’افغان عوام چاہتے ہے کہ ملک میں جنگ بند ہو اور ایک ایسے آئینی نظام کا نفاذ ہو جس سے ملک میں استحکام پیدا ہو‘‘۔
طالبان کے سیاسی شعبہ کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر:’’ہم ملک میں امن وامان کے خواہاں ہیں ساتھ ہی ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو نیز، میں تمام لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے مذاکرات اور معاہدے اسلام کے مطابق کریں اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اسلام کو پامال نہ کریں‘‘
اس کے علاوہ ہندوستان، پاکستان، ترکی اور دیگر کئی ممالک کے نمائندوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پروگرام میں شرکت کی اور افغان-طالبان مفاہمتی مذاکرات پر خوشی کا اظہار کیا۔
عربی اخبارات اور ماہرین کی رائے :
العربیہ ٹی وی کی رپورٹر سونیا الوافی: ’’افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے لیکن مذاکرے کی ابتدا لمبے سفر میں منزل کی طرف بڑھتا ایک قدم ضرور ہے اور دوحہ کی یہ بات چیت افغانستان میں امن وسلامتی کی بنیاد ہوگی‘‘۔
افغان صحافی اور سیاسی تجزیہ کار بلال سروری: امریکہ کہتا تھا کہ ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن افغانستان میں اتنا کچھ جھونک دینے کے بعد اس سرزمین سے مکمل انخلا کے مناظر امریکہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوں گے، انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات سے یہاں کے عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں لیکن تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ راستہ بہت مشکل اور چیلنجوں سے پر ہے‘‘
بی بی سی کی رپورٹر شازیہ حیا: حقوق نسواں کے سلسلہ میں بات چیت مذاکرات کا سب سے مشکل مرحلہ ہوگا۔
امریکی وزارت خارجہ سلامتی کونسل کے سابق مشیر کار جونی والش نے الجزیرہ کے پروگرام ’’ما وراء الخبر‘‘ (خبر کے پیچھے کیا ہے) میں کہا کہ: امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ ہو جائے‘‘۔
ریسرچ سنٹر برائے انسانی کاز و اختلاف، دوحہ کے ڈائریکٹر سلطان برکات: ’’جب 2001میں امریکہ افغانستان میں داخل ہوا اس وقت وہاں طالبان کی حکومت تھی جسے امریکہ نے ختم کر دیا اور اب جب اس مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے تو طالبان کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ افغانستان کا نظام اسلامی اصولوں پر قائم ہو اور جہاں تک میرا خیال ہے تقریبا 99 فیصد افغان عوام کی بھی یہی رائے ہے‘‘۔
الجزیرہ نے ایک سرخی اس طرح لگائی: تاریخی مذاکرات، دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان آمنے سامنے۔بی بی سی عربی کی ایک ہیڈنگ:افغان حکومت نے طالبان کو فائر بندی کی دعوت دی۔
طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے العربی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ہم شروع سے جنگ بندی اور ملک میں امن چاہتے ہیں اور تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی ہے بلکہ غیر ملکیوں نے ہم پر تھوپی ہے۔اخبار’الوسیط‘ نے اپنے ایک مضمون ’افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تاریخی بات چیت‘ میں لکھا:’’اگرچہ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے ہیں لیکن اگلے مرحلہ میں کیا ہوگا اس کا علم کسی کو نہیں ہے‘‘۔کویت کے اخبار’الجریدۃ‘ نے اپنے مضمون ’دوحہ میں طالبان اور کابل کے مابین تاریخی مذاکرات‘ میں لکھا کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اورافغان حکومت کا مذاکرات کی میز پر آنا ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ اتنی آسان ہے کیوں کہ طالبان اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں جب کہ افغان حکومت مغربی طرز کی جمہوریت چاہتی ہے۔

طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے العربی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ہم شروع سے جنگ بندی اور ملک میں امن چاہتے ہیں اور تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی ہے بلکہ غیر ملکیوں نے ہم پر تھوپی ہے۔اخبار’الوسیط‘ نے اپنے ایک مضمون ’افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تاریخی بات چیت‘ میں لکھا:’’اگرچہ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے ہیں لیکن اگلے مرحلہ میں کیا ہوگا اس کا علم کسی کو نہیں ہے‘‘۔کویت کے اخبار’الجریدۃ‘ نے اپنے مضمون ’دوحہ میں طالبان اور کابل کے مابین تاریخی مذاکرات‘ میں لکھا کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اورافغان حکومت کا مذاکرات کی میز پر آنا ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ اتنی آسان ہے کیوں کہ طالبان اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں جب کہ افغان حکومت مغربی طرز کی جمہوریت چاہتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020