’استادسکیم ‘کو بھی سہارے کی ضرورت

ہنر ہاٹ پروگرام کے ذریعہ روایتی فنون کے تحفظ کا سرکاری دعویٰ

افروز عالم ساحل

 

مرکزی حکومت کی اہم اسکیموں میں ایک ’اپگریڈنگ دی اسکلس اینڈ ٹریننگ ان ٹریڈیشنل آرٹس/ کرافٹس فار ڈیولپمنٹ (USTTAD)‘ اسکیم بھی ہے۔ اسے ’استاد‘ اسکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس اسکیم کا مقصد روایتی فنکاروں یا دستکاروں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ان کے فنون و دستکاریوں کو معیاری بنا کر، ان کی دستکاری اور ڈیزائن میں ترقی اور مارکیٹ سے روابط قائم کر کے روایتی ہنر کے شاندار ورثے کو محفوظ کرنا ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو حکومت ہند کے وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویز بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا رویہ اس اسکیم کے ساتھ اقلیتوں کے لیے چلائی جا رہی اسکیموں سے قدرے بہتر رہا ہے۔ حالانکہ اس بار اس اسکیم کے بجٹ میں اضافہ کے بجائے کٹوتی کی گئی ہے۔
آرٹی آئی کے دستاویز بتاتے ہیں مالی سال 21-2020 میں اس ’استاد‘ اسکیم کے لیے 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے، 60 کروڑ روپے جاری بھی ہوئے لیکن اگر خرچ کی بات کی جائے تو آرٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویز بتاتے ہیں کہ 31 دسمبر 2020 تک مرکزی حکومت اس اسکیم پر صرف 12.98 کروڑ روپے ہی خرچ کر پائی ہے۔
سال 20-2019 میں اس فاؤنڈیشن کے لیے 50 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن جاری 60 کروڑ روپے کیے گئے اور اس میں سے خرچ 54.48 کروڑ روپے ہی کیے جا سکے۔ ایسی ہی کہانی سال 19-2018 میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 30 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن جاری 50 کروڑ روپے ہوئے جبکہ خرچ 31.26 کروڑ روپے ہی ہو سکے۔
غور طلب ہے کہ فنڈس کا استعمال نہ ہونے پر پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی اپنی ناراضگی بھی ظاہر کر چکی ہے۔ کمیٹی کا صاف طور پر کہنا ہے کہ ملک میں دستکاروں یا فنکاروں کی کمی نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ انہیں مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وزارت اقلیتی امور اگر چاہتی تو یہ فنڈ آسانی سے خرچ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سال 22-2021 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں گھٹا کر محض 47 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
بتا دیں کہ 14 مئی 2015 کو شہر وارانسی میں اس ’استاد‘ اسکیم کا آغاز ہوا۔ اس اسکیم کو میک ان انڈیا مہم سے جوڑا گیا ہے اور اس کا مقصد اقلیتوں میں ہنر مند افراد کو پروان چڑھانا بتایا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا پیغام تھا، ’استاد ایک تاریخی قدم ہے جو روایتی فنون اور دستکاریوں کے شاندار ورثے کو تحفظ اور فروغ دے گا۔ یہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے محنتی کاریگروں، بنکروں اور دستکاروں کی زندگیوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔‘ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں دی گئی اطلاع کے مطابق سال 2020 تک 23760 کاریگر و فنکار اس اسکیم سے مستفید ہو چکے ہیں۔ اس ’استاد‘ اسکیم کے تحت 14 سے 45 سال تک کی عمر کے افراد کو 3 تا 8 ماہ کی ٹریننگ لینے کے لیے ہر ماہ 3000 روپے وظیفہ ملتا ہے۔ 33 فیصد نشستیں لڑکیوں اور خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ دیگر اسکیموں کی طرح یہ اسکیم بھی حکومت ’پروجکٹ امپلیمنٹنگ ایجسنی‘ کے تربیتی مراکز (ٹریننگ سنٹر) کی مدد سے چلاتی ہے۔
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ملک بھر کے دستکاروں، فنکاروں اور کھانا پکانے کے ماہرین (باورچیوں) کو موقع فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے ہاتھ کے بنے نایاب دستکاری کے نمونے اور ملک میں بنی اشیاء کی نمائش کر سکیں اور انہیں مارکیٹ میں لا سکیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت اس اسکیم کے تحت سال 17-2016 سے ہنر ہاٹ منعقد کر رہی ہے۔ 11 فروری 2021 کو لوک سبھا میں دی گئی جانکاری کے مطابق مرکزی حکومت اس اسکیم کی شروعات سے لے کر اب تک 25 ہنر ہاٹ منعقد کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ اس اسکیم کے ہنر ہاٹ جزو کے لیے کوئی علیحدہ فنڈ مختص نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خرچ ’استاد‘ اسکیم کے تحت مختص کیے گئے فنڈس سے ہوتا ہے۔
اس ’استاد‘ اسکیم سے مستفید ہونے والوں میں رامپور اتر پردیش کی آفرین خان بھی شامل ہیں۔ آفرین مختلف پرندوں کے پروں پر تصویریں بناتی ہیں۔ تصویروں کے ساتھ وہ ان پروں پر نام بھی لکھ سکتی ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں وہ بتاتی ہیں کہ اس اسکیم سے انہیں کافی فائدہ ملا ہے۔ آج ملک میں آرٹس سے محبت کرنے والے زیادہ تر لوگ انہیں جانتے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ اس اسکیم کی وجہ سے انہیں اپنا ہنر دکھانے کا ایک بڑا پلیٹ فارم ملا ہے۔ میں کئی ہنر ہاٹ میں حصہ لے چکی ہوں۔ یہاں مجھے مفت میں اسٹال بھی مل جاتا ہے اور آنے جانے کا کرایہ بھی۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا لوگ آپ کے ہاتھوں سے بنی پینٹنگ کو خریدتے ہیں؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ دراصل آرٹ لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ یہاں کھانے یا کپڑے خریدنے آتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ آرٹ کی قدر کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں، وہی لوگ کچھ خرید لیتے ہیں۔ آرٹ سے محبت کرنے والوں کی تعداد ہمارے ملک میں بہت کم ہے۔
بتا دیں کہ آفرین خان جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ گزشتہ سال دہلی کے ہنر ہاٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی ان کے اسٹال پر آ چکے ہیں۔ انہیں ان کا یہ آرٹ کافی پسند آیا تھا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021