ار طغرل ڈراما: ذکرِ ماضی ہے یا مستقبل کا خواب؟

ڈاکٹر عمیر انس

آخر کار جنوبی ایشیا کے مسلمان بھی دریلیس ارطغرل کے سحر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے۔ جیسا کہ ۲۰۰۶ کی ہالی ووڈ کی فلم ۲۰۰ میں سپارٹا کے کمانڈر نے کہا تھا کہ ہماری بہادری کی کہانی آنے والی نسلوں کو سنا دینا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دریلیس ارطغرل ڈراما ترک تاریخ کے پرانے قرض کو ادا کرنے کی کوشش ہے۔

چوں کہ جنوبی ایشیاء کے مسلمان مغلیہ سلطنت کی ناکامی اور زوال کے درد اور یادِ ماضی کے عذاب سے ابھی ابھر نہیں سکے ہیں اس لیے مسلمانوں کی تاریخ کا احیاء کرنے والی ہر کوشش میں وہ اپنی تصویر دیکھنے اور اپنے درد کا درماں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ویسے تو ترکی کی موجودہ حکومت نے عثمانی سلطنت کی تاریخ کو مکمل طور پر زندہ کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے، اور یہ کام وہ فلموں، ناولوں اور سب سے زیادہ اکیڈمک ریسرچ کے ذریعے کر رہی ہے۔

اب لوگ عثمانی تاریخ کا ایسے تذکرہ کرتے ہیں جیسے بس کل ہی کی بات ہو، یہ ترکی کے معاشرے کے لیے جہاں ایک طرف بہت بڑی کامیابی ہے وہیں خطر ناک چال بھی۔ کیوں کہ جس تاریخ سے مستقبل کا دروازہ نہ کھلتا ہو وہ تاریخ ایک نفسیاتی قید خانے سے کم نہیں ہوتی۔

نسیم حجازی، عنایت اللہ، اور دیگر پاکستانی اسلامی ناول نگاروں نے ایسی ہی تاریخ تیار کی تھی لیکن ترکی کی تاریخ کا احیاء اس معاملے میں زیادہ واضح اور بامقصد ہے۔ ترکی کو مصطفیٰ کمال نے ایک سخت قسم کی سیکولر پہچان والی ریاست بنانے کا تجربہ کیا تھا۔ ان کے زمانے میں ترکی کے ما قبل اسلام تاریخ کا احیاء ہوا اور ترک قومیت کو ما قبل اسلام تاریخ سے مربوط کرنے کی ناکام کوشش ہوئی۔

ترک تاریخ سے مذہبی رجحانات کو بہت ہی محدود کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رجب طیب اردگان کے دور حکومت میں ان مورخین کو بہت اہمیت حاصل ہوئی جنہوں نے ترکی کی تاریخ میں اسلامی عناصر کو بھی قابل توجہ سمجھا، ان میں ایک اہم نام مرحوم پروفیسر خلیل انالجک کا ہے۔ انہوں نے تفصیل سے عثمانی تاریخ مرتب کی اور اس کے مطالعے میں عثمانی سلطنت کے تاریخی دستاویزات کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا۔ ان سے پہلے سیکولر طبقے نے بھی عثمانی تاریخ مرتب کی تھی۔ دورِ آخر کی تاریخ کو مرتب کرنے والوں میں برنارڈ لیوس اور ٹرکش دوست مثلاً کمال کرپات قابل ذکر ہیں، لیکن ان کے یہاں عثمانی تاریخ کے لیے منفیت کا تاثر غالب ہے جب کہ ترکی کی تاریخ کو ترکی فائی کرنے کے بنیادی نظریے کے ساتھ لیون سیہون نے ۱۸۷۲ میں ترکوں کی ما قبل از اسلام تاریخ کا تصور پیش کیا جس سے متاثر ہوکر ضیاء گوکلپ ترکی کی تورانی تاریخ کے نقیب بن جاتے ہیں اور مصطفیٰ کمال تاریخ نویسی کا ادارہ قائم کرتے ہیں۔

چناں چہ عثمان توران نے ترکیت اور اسلامیت دونوں کو ٹرکش قومی پہچان کا جزءِ لا یتجزا ثابت کرنے والا تاریخی مقالہ لکھا اور اس طرح سے ترکی قومیت میں اسلامی تاریخ اور عثمانی تاریخ کی واپسی ہوئی۔ جب کہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا، اُنہوں نے نہ سیکولر تاریخ سازی کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی دہلی سلطنت اور مغلیہ سلطنت کے تسلسل کا تصور اختیار کیا، مزید برآں اُنہوں نے ہندوستان کے ساتھ مل کر خطہ کی مشترکہ تاریخ قلمبند کرنے کا تصور بھی پیش نہیں کیا۔ لہٰذا ہندوستان اور پاکستان میں قومی شناخت موجودہ مذہبی فسادات اور ان سے پیدا شدہ تلخیوں کا شکار اور ترکی کے مقابلے میں ہند وپاک کی تاریخ زیادہ مصنوعی اور زیادہ فرقہ ورانہ رجحانات پر مبنی ہو کر رہ گئی۔

جب سے ڈراما ارطغرل نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی ہے ترکی کی تاریخ بھی موضوع بحث وتحقیق بن رہی ہے۔ اردغان مخالف بین الاقوامی میڈیا کو لگتا ہے اردوغان خلافت کا احیاء چاہتے ہیں، جنوبی ایشیا کے جذباتی مسلمانوں کو بھی اس الزام کے درست ہونے میں خوشی محسوس ہوتی ہے، لیکن خود ترکی کے اندر اس پرگرام نے ایسے جذبات نہیں پیدا کیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ترکی کی پوری تاریخ اور اردوغان کی سیاست دونوں موجود ہیں، اس کے علاوہ عثمانی تاریخ کے سیکڑوں ناول، کتابیں اور پروگرامز بھی موجود ہیں اس لیے یہاں اس کو نظریاتی عقیدت سے دیکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ترکی اپنی تاریخ کے ایک ایسے مرحلے میں ہے جہاں وہ قوم پرستی کی تنگ وتارک گلیوں سے باہر نکلنا چاہتا ہے، وہ سبھی ممالک، علاقوں اور معیشتوں سے تعلقات مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ آج ترک افراد پہلے کے مقابلے میں زیادہ گلوبل ہوئے ہیں، آج ارطغرل جیسے پروگراموں سے قوم پرستی اور انتہا پسند سیکولرزم کی زنجیریں ڈھیلی پڑتی محسوس ہو رہی ہیں۔

اسی کا اثر ہے کہ اب ترکی کی سیاست میں سیکولر، قومی، اسلام پسند، صوفی اور دیگر پارٹیوں کا رجحان ایک ہی سمت میں دکھائی دیتا ہے، الگ الگ نعروں سے ہی سہی لیکن آگے بڑھ رہا ہے۔ میرے مشاہدے میں کمالی سیکولرزم کا رنگ بھی سرخ سے بدل کر سبز ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

عثمانی تاریخ کو نا پسند کرنے والے ترک سیاست داں اب عثمانی تاریخ کے احترام کو اپنی انتخابی مقبولیت کے لیے ضروری سمجھنے لگے ہیں۔ میڈیا اور کلچر کا استعمال پورے ملک کو ایک ہی سمت میں لانے کے لیے کرنا اور بین الاقوامی ہمدردیاں حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن ڈرامے ارطغرل کو خلافت کا احیاء یا اسلامی سیاست کا احیاء سمجھنا فاش غلطی ہوگی۔ ہندوستان وپاکستان کے جذباتی ناظرین کو چاہیے کہ وہ ایک بار اپنے ملک کے لیے بھی ایسے کسی ڈرامے کا تصور کریں بلکہ پاکستانی حضرات کو مغلیہ تاریخ کا ڈراما بنانے سے کس نے روکا ہے؟

قبل از اسلام ہندوستان کی تاریخ پر ڈرامے بنانے سے کس نے باز رکھا ہے؟ ایسے ڈرامے بنانا جن میں ہندوستان کی غیر مسلم آبادی تاریخی واقعات کو صحیح حوالوں کے ذریعے سمجھ سکے اور انہیں مسلمانوں اور اسلام سے متعلق لاحق تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے بے حد ضروری ہے۔ ترکی کی ڈراما انڈسٹری کے لیے ارطغرل ایک شاندار موقع تھا چناں چہ اس کے بعد کئی چینلز نے ایسے ڈرامے بنانے میں مقابلہ آرائی شروع کر دی ہے۔

محتشم صدی کی سیریز، عثمان کرولوش، پایہ تخت عبد الحمید، اور استقلال یا اولم (حریت یا موت) اور دیگر فلمیں بھی بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقی فلمیں اور ڈرامے بھی ہیں۔ فیملی ڈرامے تو دنیا بھر میں مقبول ہو رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں ترکی ٹی وی پہلے پہنچتا ہے اور ترک ایمبیسی بعد میں۔ تفریح انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کا استعمال مارکیٹ، ریاست اور نظریاتی تحریکیں سبھی کرتی ہیں۔ انسان اپنی تفریحی ضرورتیں ضرور پوری کر کے رہے گا چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے اس تک پہنچتی ہوں۔ ارطغرل ڈرامے پر فتویٰ دینے والے یا اسے رامائن کی طرح عقیدت سے دیکھنے والے دونوں ہی مغالطے میں ہیں۔

(عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ترکی کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، انہیں @omairanas پر فالو کیا جا سکتا ہے۔)

میڈیا اور کلچر کا استعمال پورے ملک کو ایک ہی سمت میں لانے کے لیے کرنا اور بین الاقوامی ہمدردیاں حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن ڈرامے ارطغرل کو خلافت کا احیاء یا اسلامی سیاست کا احیاء سمجھنا فاش غلطی ہوگی۔ ہندوستان وپاکستان کے جذباتی ناظرین کو چاہیے کہ وہ ایک بار اپنے ملک کے لیے بھی ایسے کسی ڈرامے کا تصور کریں بلکہ پاکستانی حضرات کو مغلیہ تاریخ کا ڈراما بنانے سے کس نے روکا ہے؟