ہند-ترکی رشتہ : ’ہم ایک دوسرے کو جتنا زیادہ جانیں گے، ہمارے درمیان اختلاف اتنے ہی کم ہوں گے۔۔۔‘

سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کی جانب سے ویبنار کا انعقاد

افروز عالم ساحل

’سیاست اور تواریخ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ سیاستدان دوراندیش نہیں ہوتے۔ وہ طویل مدتی فیصلے نہیں لے سکتے۔ لیکن مورخ دو ملکوں کے درمیان ماضی کے آپسی رشتے کو جوڑتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو جتنا زیادہ جانیں گے، ہمارے درمیان اختلاف اتنے ہی کم ہوں گے۔ اسلئے ہمارے دانشوروں اور ماہرین تعلیم کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو دو ملکوں کے رشتوں کی یاد دلائیں۔ میری خواہش ہے کہ ہندوستان اور ترکی مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے۔‘

16 جنوری کو ’سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ‘ کی جانب سے ’ہندوستان ترکی کے تاریخی و تہذیبی تعلقات‘ عنوان پر منعقد ویبینار میں ترکی کی سکاریہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اعظمی اوزجان نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اور ترکی دونوں ملک مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے اہم ملک ہیں۔ انساینت کے مستقبل کے لئے دونوں ملکوں کے یہ اقدار اہم ترین ہیں۔ دنیا نے تکنیکی ترقی بہت حاصل کرلی ہے۔ مگر آنے والے وقت میں انسانیت کی خدمت کے لئے ہندوستان اور ترکی کے کلچر کی ضرورت ہوگی۔

خیال رہے کہ پروفیسر اوزجان نے یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ہے اور ہندوستانی مسلمان اور خلافت عثمانیہ و برطانیہ کے رشتے پر کام کیا ہے۔ ان کی کتاب ’انڈین مسلمس، دی آٹومنس اینڈ بریٹین 1877-1924‘ اکیڈمک کی دنیا میں ایک مشہور کتاب ہے۔

پروفیسر اوزجان جورڈن، لیبیا اور مالٹا میں ہندوستان کے سابق سفیر انیل ترگونایت کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ انیل ترگونایت نے ان سے پوچھا تھا کہ ’ہمارے تاریخی رشتے تو کافی بہتر رہے ہیں لیکن گزشتہ بیس سالوں میں رشتوں میں جو خرابی آئی ہے، تو کیا آپکو لگتا ہے کہ اس سے ابھرا جا سکتا ہے؟ یا پھر یہ صرف ایک ’جیوپالیکٹکل گیم‘ کا حصہ ہے؟‘ 

پروفیسر اوزجان نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ترکی اور ہندوستان کے رشتے بہت بہتر ہوں گے، کیونکہ ترکی میں بہت سے ہندوستانی طلبا ہیں اور ہندوستان میں ترکی کے طلبا ہیں، جو ہندوستان میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہی لوگ اپنے کام کے ذریعے رشتے کو مزید بہتر کریں گے۔   

انہوں نے یہ بھی کہا کہ امید کرتا ہوں کہ ترکی و پاکستان کے رشتے کی وجہ سے مستقبل میں ترکی و ہندوستان کا رشتہ خراب نہ ہو۔ ہندوستان اور ترکی کا رشتہ کسی بھی معنی میں ترکی پاکستان رشتے سے کسی بھی طرح کم اہم نہیں ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈپلومیسی کے ذریعہ دونوں کے رشتوں میں جو دراڈ آئی ہے اس کو دور کیا جائے، کیونکہ دونوں رشتوں میں منفی سے زیادہ مثبت پہلو بہت ہی زیادہ ہیں۔

اس ویبینار کی صدارت ’سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ‘ کے ڈائریکٹر پروفیسر آفتاب کمال پاشا کر رہے تھے۔ پروفیسر پاشا ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے گلف اسٹڈیز سنٹر کے ڈائریکٹر و چیئرمین رہ چکے ہیں۔

پروفیسر پاشا نے پروفیسر اوزجان اور ان کی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ کیسے ان کی کتاب ہند-ترکی کے تعلقات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ایک بنیادی حیثیت  رکھتی ہے۔ ان سے پہلے مورخین نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ پروفیسر پاشا نے یہ بھی بتایا کہ 1453 میں استنبول پر ترک کنٹرول تک، ہندوستان کے ساتھ عثمانی تعلقات کثیر جہتی تھے اور یہ تعلقات سیکڑوں سالوں تک برقرار رہے۔

پروفیسر اوزجان نے ہندوستان سے ابتدائی رشتوں سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک کی مشہور کوششوں کا ذکر کیا، جس میں 8 ماہ کی فوجی خدمات اور عثمانی سپاہیوں کی امداد کے لیے مشہور ریڈ کریسنٹ مشن اور جنگ کے دوران اسلام کے مقدس مقامات کی غیر مسلمانوں کے جارحیت سے تحفظ کے لیے تشکیل دی گئی ’انجمن خدامِ کعبہ‘ کی بنیاد شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخ میں گاندھی جی کی زیر صدارت تحریک خلافت، دونوں کے ثقافتی رشتوں کی مجموعی ترقی کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مشکل وقت کے باوجود ہندوستان نے عالمی جنگ اور کولڈ وار میں بھی کبھی بھی ترکی کے ساتھ تعلقات میں کوئی کمی نہیں کی۔ اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کو تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے تجویز پیش کریں۔

اس ویبینار کی نظامت ڈاکٹر عمیر انس نے کی۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو اجاگر کرنے میں اس سیشن کی اہمیت کا ذکر کیا۔ آپ کو بتادیں کہ ڈاکٹر عمیر انس ترکی کی ’انقرہ یلدرم بایزیت یونیورسٹی‘ میں ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ریلیشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ترکی و ہندوستان کے مختلف اخباروں میں لکھتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان اور ترکی کے مابین رشتوں کو بہتر بنانے میں ان کی کوششیں قابل قدر ہیں۔

واضح رہے کہ ’سنٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ‘ ہندوستان کی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم ایک غیر منافع بخش رضاکارانہ اقدام ہے جو ہندوستان اور مغربی ایشیا کے درمیان صدیوں پرانے تجارتی، سفارتی، ثقافتی اور تہذیبی روابط کا مطالعہ اور تحقیق کرتا ہے اور مشترکہ مفادات پر ہندوستانی اور مغربی ایشیائی نقطہ نظر کا تبادلہ کرتا ہے۔ اس ویبینار میں ہندوستان-ترکی تعلقات میں دلچسپی رکھنے والے ہندوستان و ترکی کے سیکڑوں اسکالرز، سفارت کار اور محققین نے شرکت کی۔