اردو کے تحفظ و ارتقا کے چند اہم مسائل اور ان کا حل

مالی امداد اور توجہات سے محروم مدارس کی طرف توجہ وقت کی اہم ضرورت

پروفیسر احمد سجاد

 

فی الواقع ان دنوں تعلیم و تعلم کے میدان میں تہذیب حاضر کا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ عصری علوم و فنون کو عرفانِ حیات و کائنات اور اطاعت رب ذوالجلال سے کیسے جوڑا جائے؟
ہندوستان میں جھارکھنڈ کے حوالے سے یہ مسئلہ اور بھی تہہ دار اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ دو سو سال تک انگریزوں نے اپنی منافقانہ سیاست اور تبلیغ مسیحیت کے پیش نظر لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی، انگریزی کے تسلط اور اردو ہندی کا جھگڑا کر کے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا جہاں آزادی کے ستر سال بعد بھی مسئلہ حل ہونے کے بجائے الجھتا ہی جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ابتدائی درجات تک ’’مادری زبان‘‘ کا کئی بار تذکرہ کیا مگر پورے پلان میں کہیں اردو کا ذکر تک نہیں آیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جھارکھنڈ میں اقلیت دوستی کا دعویٰ کرنے والی حکومتیں بھی اردو اور دینی تعلیم کے معاملے میں ایماندارانہ عملی اقدام کے بجائے ہمیشہ لیت و لعل سے ہی کام لیتی رہی ہیں۔ سیکڑوں اردو اسکولوں کو ہندی اسکول میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ متحدہ بہار کے زمانے سے اب تک جھارکھنڈ میں بھی سرکاری سطح سے اردو کے دوسری سرکاری زبان کا اعلان و اشتہار تو ہوتا رہا مگر بہار کے بعد بھی یہاں آج تک حج کمیٹی، وقف کمیٹی اور اقلیتی کمیشن کے علاوہ اردو اکیڈمی، مدرسہ اکزامیشن بورڈ، اقلیتی مالیاتی کمیشن اور دیگر اقلیتی اداروں کو مسلسل مطالبات کے باوجود ٹالا جاتا رہا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ریاست کی درجنوں آدیباسی بولیوں (جن کا اپنا کوئی رسم الخط تک نہیں ہے) کو ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک لے جانے کے لیے ہمہ جہت اقدامات کیے جارہے ہیں مگر اردو اسکولوں اور اسلامی مدرسوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اردو کے اساتذہ کو مہینوں نہیں برسوں سے تنخواہیں تک نہیں دی جا رہی ہیں۔ اردو کو بہار کی طرح لازمی کے بجائے اختیاری مضمون بنا کر اس کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ یوں پچھلے دو ڈھائی سو سالوں میں مسلمانوں کے سر پر کبھی انگریزی تو کبھی ہندی اور جھارکھنڈ میں اب آدیباسی بولیوں کو مسلط کیا جا رہا ہے۔
پرائمری اردو ٹیچرس کی خالی اسامیاں ۴۴۰۱ آج تک پُر نہیں کی جا سکیں جس کے لیے انجمن ترقی اردو و جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی جیت لیا ہے اس کے باوجود کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ خود انجمن بھی قحط الرجال کا شکار ہے اور اردو آبادی عالم سکرات میں ہے۔ اس لیے آگے کے اقدامات کا خدا ہی حافظ ہے۔
جھارکھنڈ میں مدارس اسلامیہ کی کل تعداد ۷۷۹ میں سے صرف ۱۸۷ کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے اور ۵۹۲ اس گرانٹ سے محروم ہیں۔ ان میں لڑکیوں کے ۸۲ مدارس ہیں۔ حالانکہ غور کیا جائے تو تمام مدارس کو گرانٹ دینے پر بھی معمولی خرچ کا اضافہ ہوتا ہے۔ ایک مدرسہ وسطانیہ میں فوقانیہ سے فاضل تک کے ۶ عہدے منظور شدہ ہوتے ہیں جن پر ایک سال میں مجموعی خرچ ۳ لاکھ ۶۴ ہزار ۵۶۰ روپے آتا ہے۔ اس طرح ۵۹۲ منظور شدہ مدرسوں کو گرانٹ دینے پر سال میں ۲۱ کروڑ ۵۸ لاکھ ۱۹ ہزار ۵۲۰ روپے کا معمولی خرچ آئے گا جو کسی ریاستی حکومت کے لیے ایک حقیر رقم ہے۔ مگر جس سے ہزاروں بچوں کو فائدہ ہوتا اس سے وہ محروم کیے جا رہے ہیں اور اب ان دنوں مدرسوں پر بھی مختلف انداز سے یلغار کا آغاز ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر جمعیتہ العلما ہند مولانا ارشد مدنی کی طرح بہار اور جھارکھنڈ وغیرہ میں ایک مسلم قانونی سِل تشکیل کر کے قانونی لڑائی لڑ کر اپنے دستوری حقوق کی بازیافت کی جائے۔ اس کے بغیر تعلیمی اداروں کے بہت سے مسائل اخبارات و مجالس میں ماتم و مرثیہ کا موضوع تو بنتے رہیں گے مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوسکے گا نہ دیگر اسکولوں کے بچوں کی طرح مسلم بچوں کو دوپہر کا کھانا مل سکے گا نہ فوقانیہ تک منظور شدہ مدرسوں میں NIOS ،MANUU اور اگنو (IGNOU ) وغیرہ کے مراکز (Centers ) قائم ہو سکیں گے۔
فی الوقت امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ نے جو خود کفیل مکتب اور اسکول برائے ابتدائی تعلیم قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو اخباروں میں بھی آچکا ہے بڑا جامع، سہل اور قابل عمل ہے بشرطیکہ ضلع سے لے کر محلہ اور گاؤں گاؤں تک امارت دینی تعلیم اور اردو زبان کی بقا و تحفظ کے لیے جو تحریک چلا رہی ہے اسے وہاں تک پہنچائے اور اردو آبادی اپنے خول سے باہر نکلے۔شاہین انسٹیٹیوٹ اور امارت شرعیہ کے پچھلے بیسیوں برس سے تعلیم و صحت اور ٹکنالوجی کے میدان میں جو کامیاب تجربے کیے ہیں انہیں دیگر علاقوں کی اردو آبادی بھی حسب صلاحیت قائم کرے۔ ان کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے ’’تعلیم نو بالغان‘‘ کے تعلق سے ٹریننگ ماڈیول تیار کیا ہے جس کے اندر سائنس اور تہذیب و ثقافت کا ایک خوبصورت سنگم ہے جہاں عملی مشق کا بھی اہتمام ہے۔ انہوں نے صدر مدرسین کی ٹریننگ ماڈیول کو بھی تیار کر لیا ہے جس کے جلد منظر عام پر آنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کوششوں کے بعد دینی مدارس کے لیے ریسورس سنٹرس کے قیام کی بھی نوبت آ سکتی ہے۔ ان چند حقائق سے یہ نتیجہ نکالنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ملت نے بدلے ہوئے لسانی و تعلیمی ماحول میں اپنے دینی اقدار اور لسانی تحفظ وارتقا کے لیے نت نئے تجربے ہی نہیں کیے بلکہ وہ انہیں ٹھوس بنیادوں پر جابجا قائم بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کاوشوں کو منظم و مربوط انداز میں فروغ دیا جائے۔ ایسا ہوا تو ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب مسلمانانِ ہند All India Madarsa Education Foundation اور All India Muslim General Education Foundation اور مالی مسائل کے حل کے لیے ملائیشیا کے حج فاؤنڈیشن کی طرح ہم اپنے عُشر و زکوٰۃ اور اوقاف کو بھی عصری مسائل کے حل کے لیے منظم کر لیں گے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021