اردو ادب میں تقابل ادیان کا فروغ قومی یکجہتی کی علامت

’’منو کا قانون اور اسلامی قانون ‘‘سید مفتی عبد القیوم جالندھری کی ایک اہم تصنیف

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،علیگڑہ

 

اردو ادب میں ایک اور انتہائی اہم اور انوکھی کتاب مفتی سید عبد القیوم جالندھری نے ’’منو کا قانون اور اسلامی قانون‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے۔ اس کتاب کو سید محبوب عالم لٹن روڈ لاہور، نے 1968 میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں ہندو قوم کے قدیم قانون منو اور قدیم تہذیب کا موازنہ اسلامی تہذیب اور قانون اسلامی سے کیا گیا۔ یہ بات بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہندو مت کی ایک فقہی کتاب منو دھرم شاستر کے نام سے ملتی ہے، اس کتاب میں منو مہاراج نے ہندوؤں کے تقریبا تمام فقہی مسائل کا احاطہ کیا ہے۔ منو دھرم شاشتر کا اردو ترجمہ بھی آ چکا ہے۔ سید مفتی عبد القیوم جالندھری نے اس کتاب کو 78 عناوین و مضامین اور ایک دیباچہ پر منقسم کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے بعض اہم عناوین کو قلمبند کرنا نہایت مناسب ہوگا۔
قدیم قوانین، منو کا قانون، ہندوستان کی قدیم مہذب اقوام، ہندو قوم کا ہندوستان میں ورود، ہندو قوم کی تہذیب اور عقائد، ہندو قوم میں ویدک تہذیب کا عہد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانی مساوات پر خطبے، غلامی، قانون منو میں غلاموں کی اقسام، اسلامی قانون میں غلاموں سے حسن سلوک، وراثت، قانون منو میں منجھلے اور چھوٹے بیٹے کی محرومی، اسلامی قانون میں بیٹے کی وراثت، قانون منو میں قومیت کے لحاظ سے بیٹوں کی وراثت، اسلامی قانون میں سب بیٹے برابر ہیں، جرائم کی تعزیریں، قانون منو میں سزا کی اقسام، اسلامی قانون میں سزا کی اقسام، قتل کی سزا، قانون منو میں برہمن مجرم قتل کی سزا سے مستثنیٰ ہے، قومیت کے لحاظ سے قتل کی سزا، اسلامی قانون میں قومی اور قبائلی تفریق کے بغیر قتل کی سزا، جرم زنا کی سزا، قانون منو میں جرم زنا کی سزا مجرم کی قومیت کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہے۔ برہمن عورت سے زنا کی سزا عضو تناسل قطع کرنا ہے، اسلامی قانون میں جرم زنا کی سزا میں مجرم کی قومیت کا لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔ جرم سرقہ کی سزا، قانون منو میں جرم سرقہ کی پانچ سزائیں، قطع عضو بھی ایک سزا ہے، شہادت، قانون منو میں جرم قتل کی سزا سے بچانے کے لیے جھوٹی شہادت دینا دیوتا کی قربانی کے برابر ہے، قانون منو میں مردوں عورتوں وغیرہ کے لحاظ سے گواہوں کی شہادت، اسلامی قانون میں اس قسم کی کوئی تخصیص نہیں اور جھوٹی شہادت دینا بڑا گناہ ہے جیسے اہم اور بنیادی مسائل پر سید مفتی عبد القیوم جالندھری نے انتہائی عالمانہ اور محققانہ گفتگو کی ہے۔
سبب تالیف
سید مفتی عبد القیوم جالندھری نے اپنی کتاب ’’منو کا قانون اور اسلامی قانون‘‘ پر عالمانہ دیباچہ تحریر کیا ہے وہ کتاب کے دیباچہ میں کتاب کا سبب تالیف درج ذیل بیان کرتے ہیں۔
’’میں اصول فقہ لکھ رہا تھا اسی اثناء قدیم قوانین کا خیال آیا۔ سب سے پہلے دو ہزار سال قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورابی نے پتھر کے مینار پر قوانین کندہ کرائے اس پتھر کا کچھ حصہ اہل فرانس نینوا سے فرانس لے گئے، اب وہ ان کے عجائب خانے میں ہے۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں روم کبیر میں تانبے کی بارہ تختیوں پر قوانین کندہ کرائے گئے۔ 880 برس قبل مسیح میں قوم ہنود کے بادشاہ منو نے اس قوم کے لیے قوانین وضع کیے، اس قوم کی تہذیب و عقائد اور منو کے قانون کے چند احکام کا اسلام کی تہذیب و عقائد اور قانون سے موازنہ کیا تو ثابت ہوا منو کا قانون عقل وعدل اور انسانی فطرت کے مخالف اور لغو ہے۔ اسلامی تہذیب و عقائد اور قانون عقل وعدل اور انسانی فطرت کے موافق ہے۔ منو کا قانون مختص القوم ہے۔ وہ صرف ہندو قوم کے لیے مخصوص ہے۔ اسلامی قانون سب نوع انسانی کے لیے ہے۔ منو کا قانون قدیم نہیں ہے۔ اس قوم کے رسم و رواج اور وید وغیرہ اس قانون کے اصلی ماخذ بتائے جاتے ہیں۔وید خود ازلی نہیں ہیں۔ جب اس قوم نے تمدن میں ترقی کر کے اپنی ریاستیں قائم کرلیں یہ کتابیں اس زمانے کی ہیں۔‘‘
مصنف نے اس اقتباس میں سبب تالیف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ منجملہ ایک تو ان میں یہ ہے کہ ہندوؤں کا مقدس دینی ادب ازلی نہیں ہے، مصنف کی اس رائے سے ہم خیال و موافق بہت اہل علم ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے ہندوؤں قوم کا دینی ادب جنہیں وید کہا جاتا ہے وہ ازلی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بعض علماء ہنود بھی اس رائے سے اتفاق کرتے نظر آ تے ہیں۔ اگر مستشرقین کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ موکس مولر نے بھی اسی کے قریب قریب بات کہی ہے۔ ان تمام تفصیلات کا یہاں موقع نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں پوری تفصیل دیکھنی ہو تو راقم کا ایک غیر مطبوعہ مقالہ ہے ’’ہندومت ایک تعارف‘‘ جس میں موافقین و مخالفین کی تقریباً تمام آراء کو قلم بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہندوستان کی قدیم قوموں کی تہذیب
سید مفتی عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں کہ ۔’’ہندوستان کے قدیم عہد میں اس ملک میں کول، سنتال ،منڈا، بھیل گونڈ وغیرہ قومیں آ باد تھیں، یہ لوگ تعمیر کے فن سے واقف تھے مگر دھات استعمال کرنا نہیں جانتے تھے، ہتھیار تراش کر بناتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کی کوشش سے 1920 میں سندھ کے ضلع لاڑکا نہ میں ایک اونچے ٹیلے کے کھودنے سے اقوام متذکرہ کا قدیم شہر موہنجوڈارو برآمد ہوا، اس کی عمارتوں میں پتھر کے اوزار وغیرہ تھے۔ ڈاکٹر سر جان مارشل نے ان شہروں کے حالات بڑی تحقیق اور تفصیل سے لکھے ہیں۔ یہ لوگ مردوں کو جلاتے نہیں تھے صندوقوں میں رکھ کر دفن کرتے تھے، ان اقوام نے اپنے لیے کوئی قانون وضع نہیں کیا تھا یا نہیں اگر وضع کیا تھا تو وہ کونسا قانون تھا اس کی کیفیت تاریکی میں ہے‘‘
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مورخین نے ہندو اقوام کی تاریخ کو گنجلک اور پیچیدہ بتایا ہے۔ انہوں نے کسی بھی نتیجے تک پہنچنے سے انکار کیا ہے، اگر ہم بعض محققین کی احوالِ ہنود پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی قدیم قوم یہ نہیں ہے جو بالائی سطور میں ذکر کی گئی ہے۔ آگے سید مفتی عبد القیوم جالندھری ہندو قوم کے ہندوستان میں آمد کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ’’یہ قوم اس ملک کی قدیم قوم نہیں ہے۔ وسط ایشیا میں ایک بہت بڑی قوم تھی اس کے چند خانہ بدوش قبائل جھیل ارل کے قریب رہتے تھے، یہ لوگ تعمیر کے فن سے واقف نہ تھے۔ کاشت کاری کی غرض سے اجتماعی زندگی بسر کرتے۔ جھیل ارل کے علاقے میں ایسی چراگاہیں نہ تھیں جو ان کے مویشیوں کے لیے کافی ہوں، اس لیے یہ لوگ تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں پہاڑوں سے گزر کر سب سے پہلے سندھ میں داخل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بابل کے علاقے میں بادشاہ نمرود کے دارالسلطنت شہر ’’عور‘‘ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ سے محفوظ رہ کر کنعان فلسطین اور مصر و حجاز کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ہندو قوم سندھ کے بعد پنجاب میں آ ئی۔پنجاب کے بعد گنگا اور جمنا کے میدانوں میں جاکر آ باد ہوگئی۔ اس کے بعد بنگال میں گئی۔ اس نے کول اور سنتمال وغیرہ قدیم اقوام مذکورہ سے مسلسل جنگ کرکے ان کو پہاڑوں اور ملک کے اطراف میں جانے پر مجبور کر دیا۔ اب بھی ان قوموں کے بعض افراد آسام وغیرہ میں ہیں‘‘۔ اگر ہندو قوم کی ہندوستان میں آمد کے تعلق سے دیگر کتب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی تاریخ بھی ملتی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہندو قوم ہندوستان کی سب قدیم تہذیب والی قوم ہے۔ البتہ اس کی تاریخ و تہذیب بھی اسی وجہ سے واضح و شفاف نہیں ہے۔ دوسری بات یہ بھی پتہ چل گئی کہ اس قوم کی کوئی ایسی تہذیب کا ذکر کسی بھی مصنف نے نہیں کیا ہے کہ جس پر فخر کیا جا سکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان کی قدیم قوم میں تہذیب و شائستگی کے نمونے ضرور پائے جاتے تھے۔
تعزیرات کا بیان
صاحب کتاب نے تحریر کیا ہے کہ ’’منو کے قانون میں بعض جرائم کی سزائیں وحشیانہ ہیں۔ بعض خفیف جرائم کی سزائیں سنگین ہیں۔ بعض سنگین جرائم کی خفیف سزائیں ہیں۔ قومی اور قبائلی تفریق کا اصول سزاؤں میں پوری طرح مد نظر رکھا گیا ہے۔ بعض سزائیں بجائے خود تضحیک کی موجب ہیں جیسے گدھے کے پیشاب سے بال منڈوانا وغیرہ۔ اس کے مقابل میں اسلامی قانون کی سزائیں عیوب و نقائص سے پاک ہیں‘‘
ہندو دھرم میں سزا کے اقسام درج ذیل بتائے گئے ہیں۔ عضو تناسل، شکم، زبان، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں، دونوں کان، دونوں آنکھیں، ناک، جائیداد، جسم، یہ دس ڈنڈ سزا کے مقام ہیں۔ جبکہ اسلامی قانون میں جسمانی سزاؤں کے چار قسم ہیں۔ قتل، صلیب، ہاتھ پاؤں مخالف طرفوں سے کاٹ دینا، قید و حراست اور جلاوطنی، نیز یہ سب سزائیں متبادل ہیں۔ ان میں بھی قاضی کو اختیار ہے کہ وہ مجرم اور جرم کے حالات و واقعات پر نظر کرکے ان چار سزاؤں میں سے جو سزا چاہے دے‘‘ اسی طرح یہ بھی ملاحظہ کرتے چلیے کہ ہندو دھرم قتل کی سزا کے تعلق سے کیا کہتا ہے۔
’’برہمن مجرم قتل کی سزا سے مستثنیٰ ہے۔ اس کی موتراشی یا اسے ملک سے باہر نکال دینا کافی ہے۔
قتل کے مقام میں برہمن کو مونڈ مونڈوانا ہی سزا ہے اور دیگر قوم کو قتل کی سزا نہ دینی چاہیے۔
اگر برہمن یا عالم شخص بہت گناہوں کا مجرم ہے تو بھی اسے قتل نہ کیا جائے، جسمانی سزا نہ دے کر اسے ملک سے باہر کر دیا جائے۔
دنیا میں برہمن کے قتل سے زیادہ کوئی گناہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے مسئلہ تعلیم کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے راجہ برہمن کو قتل کرنے کا خیال بھی نہ لائے۔
اس کے بر عکس اسلامی قانون کے ہر شعبہ میں عدل و مساوات نظر آتا ہے قاتل خواہ کسی قوم یا خاندان کا ہو یا کسی فرقہ یا منصب کا ہو سب کی سزا قتل یا دیت ہے۔‘‘
’’منو سمرتی میں سرقہ کی سزائیں پانچ قسم کی ہیں پہلی دفعہ زبانی سزا دے یعنی یہ کہنا کہ تم نے اچھا کام نہیں کیا دوبارہ ایسا کام نہ کرنا۔ دوسری دفعہ جھڑکنا اور لعنت ملامت کر کے اس کام سے ہٹانا۔ اگر سہ بارہ کرے تو جرمانے کی سزا دینا۔ اگر اس پر بھی نہ مانے تو قید اور جسم کے انگ کاٹنے کی سزا ہے۔ اس کا طریقہ یہ لکھا ہے کہ جس عضو سے دوسرے کی چیز چرائے اسی عضو کو قطع کرنا چاہیے تاکہ پھر ایسا کام نہ کرے۔ اگر جسم کا عضو کاٹنے سے مجرم جرم سے بعض نہ آئے تو اس کو چار قسم کی وہ سزا دے جن کو تذکرہ بالائی سطور میں آیا ہے۔
اسلامی قانون میں چوری کے عادی مجرم کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے
مذکورہ اقتباسات اس بات پر بین ثبوت ہیں کہ ہندو دھرم میں تعزیرات کے حوالے سے کافی فرق مراتب پایا جاتا ہے۔ اس سے نوع انسانی میں تفریق وتقسیم اور بھید بھاؤ کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندو دھرم میں تعزیرات اور قوانین کا تصور تو پایا جاتا ہے البتہ اس میں اونچ نیچ بہت ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی کامرانی کی زینت نہیں بن سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شعبہ حیات کا کوئی گوشہ خالی نہیں ہے جہاں ہندو ازم میں تفریق نہیں پائی جاتی ہو۔
مفتی سید عبدالقیوم جالندھری کی اس کتاب کی کئی اعتبار سے افادیت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو میں اس موضوع پر میری نظر میں یہ واحد کتاب ہے۔ اسی کے ساتھ اس کتاب میں تعزیرات کے تمام شعبوں کا ذکر کر کے اور مذہب اسلام و ہندو ازم کی معروف فقہی و قانونی کتاب منو دھرم شاشتر سے موازنہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ اسلام کی تعلیمات ابدی اور عقل و عدل کے موافق ہیں۔ کیونکہ ان میں کسی بھی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصور نہیں پایا جاتا اور نہ ہی ان بنیادوں پر قانون اسلام کے کسی بھی فیصلہ کا نفاذ ہوتا ہے۔ البتہ ہندو دھرم میں تو طبقاتی تقسیم کو امتیاز و تشخص کا نام دیاجاتا ہے۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ تقابل ادیان پر کام کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں من جملہ ان میں سے ایک یہ کہ مسلم اسکالر یا دیگر دھرموں سے وابستہ محققین نے ہندو دھرم اور دین اسلام کا تجزیاتی تقابل کیا ہے۔ چنانچہ مفتی سید عبد القیوم جالندھری کی یہ کتاب بھی تقابلی مطالعہ کے لیے لکھی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ اس طرح کی کتابوں کی ترویج و اشاعت دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ مبلغین کے پاس دیگر مذاہب یا برادران وطن کے دین کے متعلق جوابی الزام کے لیے دلائل ہوں گے۔ نیز دیگر مذاہب سے واقفیت حاصل کرنا اور پھر اپنے دین کی ترویج کے تئیں کاوش کرنا ہم سب کا بنیادی فریضہ ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اس کتاب کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ ضمناً یہ بھی عرض ہے کہ مفتی جالندھری کی یہ کتاب کسی بھی معاشرے میں سکون و اطمینان کا پیغام پہنچانے میں معین و مددگار ثابت ہوگی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم برادران وطن کے دین اور ان کی تہذیب سے وابستگی اور واقفیت کی روایت کو مزید آگے بڑھائیں تاکہ یہاں پر تمام انسان یکجائیت اور مرکزیت کے ساتھ رہ سکیں۔
***

قدیم قوانین، منو کا قانون، ہندوستان کی قدیم مہذب اقوام، ہندو قوم کا ہندوستان میں ورود، ہندو قوم کی تہذیب اور عقائد، ہندو قوم میں ویدک تہذیب کا عہد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانی مساوات پر خطبے۔ غلامی، قانون منو میں غلاموں کے اقسام، اسلامی قانون میں غلاموں سے حسن سلوک، وراثت، قانون منو میں منجھلے اور چھوٹے بیٹے کی محرومی، اسلامی قانون میں بیٹے کی وراثت، قانون منو میں قومیت کے لحاظ سے بیٹوں کی وراثت، اسلامی قانون میں سب بیٹے برابر ہیں، جرائم کی تعزیریں، قانون منو میں سزا کے اقسام، اسلامی قانون میں سزا کے اقسام، جرم قتل کی سزا، قانون منو میں برہمن مجرم قتل کی سزا سے مستثنیٰ ہے۔