اداریــــہ

چال، چرِتر و چہرہ

 

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں ’’سونار بانگلہ‘‘ یعنی سنہرے بنگال کا خواب دکھایا ہے۔ انہوں نے بنگالیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگالیوں کی تاریخ، تہذیب، عقیدہ، روحانیت، کاروبار ان سب کی ضمانت دینے والی حکومت فراہم کرنے کے لیے ان کی پارٹی پابندِ عہد ہے۔ وہ یہ کہنا بھی نہیں بھولے کہ کسی کی منھ بھرائی، ناز برداری (Appeasement) کیے بغیر وہ ریاست کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست سے پاک سب کی ترقی اور عقیدہ و ثقافت کا احترام کرنے والی حکومت قائم کرنے کی بات بھی کہی۔ اس سے قبل ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی اسی قبیل کی باتیں کہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ کورونا ویکسین کے بعد متنازع سی اے اے قانون کی بات بھی اپنے جلسوں میں اٹھاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب ترنمول کانگریس کی سربراہ اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی مخالفین کا ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف بی جے پی کی ’’انتخابی مشین‘‘ نے کمیونسٹوں کی ۳۵ سالہ اور ترنمول کی ۱۰ سالہ حکم رانی کے بعد اپنے لیے مخصوص ووٹ بینک بنانے کے سارے جَتَن کرنے شروع کر دیے ہیں تو دوسری طرف بنگال کے روشن خیال ووٹروں کے ہندوتوا کی طرف کھسکنے کے اندیشے نے ممتا دیدی کو ’جیے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس سے قبل جب ان کی پارٹی کو دوسری بار کامیابی میسر آئی تھی تو ممتا بنرجی نے برملا اعتراف کیا تھا کہ ان کی کامیابی میں خواتین اور مسلمانوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ائمہ مساجد کے لیے تنخواہیں جاری کرنے کا کام کیا، پارٹی اور حکومت میں مسلم نمائندگی پر کبھی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن کووڈ لاک ڈاؤن کے زمانے سے ہی بی جے پی مغربی بنگال میں اپنا سیاسی جال بُن رہی تھی۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور سبھاش چندر بوس کو اپنے نظریات کے گھیرے میں لانے کی کوششیں کرتی رہی تھی۔ ان حرکتوں کو ممتا بنرجی نے بر وقت بھانپ لیا چنانچہ اب وہ خود کو ’بنگالی بیٹی‘ کے طور پیش کر کے جذباتی اپیل کرنے لگی ہیں۔
ایک طرف عوام کو چاند تارے توڑ لانے کے وعدے اور دوسری جانب ملک کو آئینہ دکھاتی رپورٹ کہ عالمی بھکمری کے اشاریے میں ہم نیپال، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے چھوٹے اور غریب پڑوسیوں سے بھی پیچھے! گزشتہ اکتوبر کی اس رپورٹ کے مطابق ۱۰۷ ملکوں کی فہرست میں بھارت کا نمبر ۹۴ تک پھِسل گیا ہے۔
بھارت کی ۹۰ کروڑ آبادی راشن کارڈ کے اناج پر جیتی آئی ہے۔ سن ۲۰۰۴ کے ایک خاندانی صحت سروے کے مطابق بھارت میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کی نصف آبادی کو راشن کارڈ تک فراہم نہیں کرائے جا سکے تھے پھر بھلا انہیں اناج کیسے پہنچایا جا سکتا تھا جس کی تلافی کے لیے فوڈ سیکوریٹی ایکٹ لایا گیا؟ لیکن پھر بھی صورتحال یہ ہے کہ پچاس فی صد لوگوں کا معیارِ زندگی پچھلے سالوں میں گرتا ہی جا رہا ہے۔ آئی اے این ایس اور سی ووٹر بجٹ اِنسٹا پول کے ذریعے نرملا سیتا رمن کے بجٹ کے فوری بعد کے ایک جائزے میں 50.7 فی صد لوگوں نے بتایا کہ ان کے زندگی کے مجموعی معیار میں گراوٹ آئی ہے۔ پچھلے سال کے بجٹ میں یہی تعداد 31.3 فی صد تھی جب کہ سن ۲۰۱۹ میں اس رائے کے حاملین کا تناسب 28.7 فی صد تک درج ہوا تھا۔ دوسری جانب بجٹ سے قبل اسی ادارے کے ایک سروے میں 51.5 فی صد یعنی نصف عوام کی توقع ہے کہ ایک اوسط معیارِ زندگی گزارنے کے لیے چار افراد پر مبنی کسی بھی خاندان کے لیے کم از کم ماہانہ بیس ہزار روپوں کی آمدنی ضروری ہے۔ حکومت کے لیبر بیورو کے مطابق سن ۲۰۲۱ کے اخیر تک بھارت میں یومیہ مزدوری 372.33 روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ یعنی تقریبا ۱۱ ہزار روپیے ماہانہ! اس لحاظ سے بھی اوسط گھرانوں کے لیے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا قریب آدھا ہی سامان مہیا ہو پائے گا۔
آتم نِربھر بننے کے لیے عوام کو لاک ڈاؤن میں حکومتوں نے تو بے سہارا چھوڑا ہی تھا اب کورونا کی شکلیں بدلنے اور پلٹ آنے کی خبروں نے مزید ہولناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ دلی اور مہاراشٹر میں تو دہشت کا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس طرح انسانی اور وبائی مار جھیلنے والے باشندوں کی فکر کم اور کارپوریٹ گھرانوں کی فکر زیادہ کرنے والی حکومتوں سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ کم از کم انتخابی ماحول میں لوگوں میں جذباتی موضوعات اچھال کر ہیجان انگیز کیفیت پیدا نہ کی جائے۔ عالمی بازار میں تیل کی قیمتیوں میں بھاری گراوٹ کے باوجود ہم اپنے باشندوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ عوام اپنا پیٹ پالنے کے لیے شدید جد و جہد میں کولہو کے بیل کی مانند مشقت اٹھا رہے ہیں تو دوسری جانب مغربی بنگال میں بی جے پی یوتھ وِنگ کی لیڈر پامیلا گوسوامی کی کار میں قریب ایک سو گرام کوکین ڈرگ کے ساتھ پکڑی گئی۔ این ڈی پی ایس قانون مجریہ 1985 کے تحت اس کو اس کے دو اور ساتھوں کے ساتھ گرفتار کر کے مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ترنمول لیڈر چندرما بھٹاچاریہ نے بی جے پی پر اسی لیے طنز کَسا تھا کہ ’’بنگال بی جے پی کا اصلی چہرہ یہی ہے۔ اس سے قبل ان کے لیڈروں کو بچوں کی اسمگلنگ کے الزامات اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘ کولکاتا میں عدالت کے سامنے پامیلا مرکزی وزیر کیلاش وجیے ورگیہ کے قریبی راکیش سنگھ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔ لیکن اس سابقہ اداکارہ و فیشن ماڈل لیڈر کی پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں شاردا چِٹ فنڈ گھوٹالے کے بڑے بڑے ملزموں کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے۔ ایسے میں ایک ڈرگ مافیا ان کی پارٹی میں اونچے عہدے تک پہنچ جائے تو بھلا کیا تعجب!
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست داں خود کو ہمیشہ سے قانون سے بالاتر سمجھتے آئے ہیں۔ بلکہ سیاسی پارٹیوں میں اور بالخصوص حکمراں جماعتوں میں شامل ہونے کا ایک اہم مقصد یہ بنتا جا رہا ہے کہ ان کے مجرمانہ ریکارڈ پر پردہ پڑا رہے یا پھر اپنے کالے کرتوتوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں۔ دلی کے سکھ مخالف فسادات کے متعدد ملزموں کو وزیر تک بنا دیا گیا۔ رام جنم بھومی تحریک میں شریک افراد اور فساد و تشدد کے درجنوں ملزموں کو قانون ساز ایوانوں میں نہ صرف نمائندگی دی گئی بلکہ وزیر، گورنر اور کیا کچھ نہیں بنا دیا گیا؟ شمالی ہند کی ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ نے تو خود پر قائم اقدامِ قتل اور فساد جیسے سنگین جرائم کے مقدمے خود سے واپس لینے کا فرمان جاری کرالیا۔ درجنوں سادھو بھیس میں مرد و خواتین ایم پی اور ایم ایل اے بن کر اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کر چکے ہیں تبھی تو جمہوریت اشاریے میں بھارت کی ساکھ سال بہ سال پھسلتی جا رہی ہے۔ وِشو گرو بن کر عالمی رہنمائی کا خواب دکھانے والے اگر اپنے گھر کی گندگی کو صاف کرنے پر بھی اکتفا کرلیں تو شاید اسی کو ایک مثبت اقدام مانا جا سکتا ہے۔ سیاسی اور اخلاقی دونوں میدانوں میں پارٹی کی ’چال‘ بگڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ سن ۲۰۱۸ کی عالمی مہم ’’می ٹو‘‘ کے دوران مرکزی وزیر ایم جے اکبر کی کرسی چلی گئی تھی اور اب تو ان کے خلاف آواز اٹھانے والی پریہ رَمانی پر اپنی بدنامی کرنے کے لیے ایم جے اکبر پہ جو توہین کا کیس داخل کیا تھا وہ بھی ان کے خلاف چلا گیا لیکن بی جے پی نے اب تک ان کو برخواست تک نہیں کیا ہے۔ یہ کیسا چَرِتر ہے؟
آر ایس ایس آج بھی بی جے پی کی ایسی ٹیڑھی چال، بگڑے چرتر کے ساتھ سمجھوتہ کیے ہوئے چل رہی ہے۔ کیا سنگھ نے بھی اپنا ’چہرہ‘ بدل دیا ہے یا اقتدار سے ملنے والے فائدوں سے چمٹے رہنے کی خاطر وہ بی جے پی کی اخلاقی گراوٹ کو انگیز کرتا جا رہا ہے؟ اگر یہی بات ہے تو مضبوط اجتماعیت کی بنا پر معاشرہ اور ملک کی تعمیر کا ان کا مُعلِنہ خواب محض ایک سراب ہی ثابت ہوگا۔ لیکن تب تک آسمانی ہدایت کے حاملین ہاتھ پر ہاتھ دَھرے نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں تو ’بہار ہو کہ خزاں‘ ہر حال میں اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرتے رہنا ہے۔ ہمیں اب ایک مضبوط خاندان بنانے سے لے کر معاشرہ کی تعمیر اور پھر ریاست کی تشکیل تک طویل، صبر آزما اور اَن تَھک جدوجہد کے لیے برادرانِ ملت اور وطنی بھائیوں کے ساتھ مل کر کمر کس لینا ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021