یومِ آزادی اور مسلمان

پرامن بقائے باہم جشن آزادی تقریبات کا اصل پیام

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو

ہندوستان 15؍اگست 1947کو برطانوی اقتدار سے آزاد ہوا۔ درحقیقت یہ تاریخِ ہند کا ایک یادگار دن ہے۔ 1498 میں پرتگالی سیاح واسکوڈی گاما ہندوستان پہنچااور 1599 میں پہلا انگریز جان ملڈن ہال ہندوستان آیا۔ اس کے بعد انگریز سورت میں 24؍اگست 1606 کو آئے۔ انگریزوں نے 1757میں پلاسی کی جنگ کے بعد ہندوستان پر قبضہ کرنا شروع کردیااور1857 تک انہوں نے تمام ہندوستانی ریاستوں کو اپنے زیرِ تصرف کرلیا۔ یہ بیان کیاجاتاہے کہ ہندوستانی جدوجہد آزادی کا آغاز1857 میں ہوا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی پہلی جدوجہدآزادی کا آغاز 1757 میں ہواجس میں مسلمان نواب سراج الدولہ کی سرپرستی میں لڑے تھے۔ یہ نواب سراج الدولہ ہی تھے جنہوں نے ملک کی خاطرسب سے پہلے اپنی جان کی قربانی دی۔
’’یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ انگریزوں کے قدم جمانے سے قبل مسلمان ہندوستان کے حکمراں تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان میں مغل بادشاہوں کو تخت سے اتار کر اپنی حکومت قائم کی۔ اسی لیے مسلمانوں کے اندر انگریزوں کے خلاف کڑواہٹ پیداہوئی۔ 1857ء کی عظیم بغاوت کے بعد مسلمان انگریزوں کا خاص نشانہ بن گئے۔ حکومت کے دروازے ان کے لیے بند ہوگئے۔ انہوں نے برطانوی حکومت کا اعتماد کھودیا جوانہیں اپنا خطرناک دشمن تصور کرتے تھے۔ انگریزوں نے ہندوؤں کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کے تئیں برطانوی پالیسی کے بارے میں Lord Ettenboroughنے کہاہے :’’مسلم قوم بنیادی طورپر ہماری معاند ہے اورا سی لیے ہماری حقیقی پالیسی ہندوؤں سے مصالحت کرنی ہے‘‘۔ اسی لیے انگریزوں نے مسلمانوں کو کچلنا شروع کردیا کیونکہ وہ انگریزوں کے مخلص نہیں رہے تھے بعدازاں کہ انہوں نے ان کی حکومتیں چھینی تھیں۔
انگریزوں نے مسلمانوں کو معاشرتی اور اقتصادی محاذوں پر بھی کچلنے کی کوشش کی۔انہیں شہری اور فوجی خدمات میں بھرتی نہیں کیاجاتاتھا۔ حکومتی ملازمتیں زیادہ تر ہندوؤں کے لیے مختص تھیں۔ مسلمان غریب اور بے روزگار رہے۔ انگریزوں کی اقتصادی پالیسی نے مسلمانوں کو کنگال کردیا۔ انہیں تجارت، صنعت،کاروبار اورروزگار میں کچھ مواقع حاصل ہوئے۔ زمین داروں نے خواہ ہندوہوں یا مسلمان، انہوں نے برطانوی حکومت کی اپنے ذاتی مفاد کے لیے حمایت کی۔ گاؤں میں ہنرودست کاری کے نقص نے بھی مسلمانوں میں غربت کو بڑھاوادیا۔نتیجتًہ مسلمانوں کی معاشی حالت زبوں حالی کا شکار ہوگئی۔ وہ انگریزوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور انہوں نے ان سے نفرت کرنا شروع کردیا۔اسی سے بغاوت کے احساسات وجود میں آئے۔
انگریزوں نے انگریزی زبان کے واسطے سے مغربی نظامِ تعلیم ، ادب اور سائنس متعارف کرایا۔عدالتوں میں فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی۔مسلمانوں نے مغربی نظامِ تعلیم نہیں اپنایا کیونکہ وہ اپنے ادب اور تہذیب پر فخر کرتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ معاشرتی اور ثقافتی میدانوں میں پسماندہ رہے۔ دوسری طرف، ہندوؤں نے مغربی نظام تعلیم کو اپنایا اور وہ زندگی کے ہرشعبے میں آگے رہے‘‘۔
(History and Civics for Class 10, P. 135 – 136)
جہاں تک 1857ء کی عظیم بغاوت کا تعلق ہے توہندو اور مسلمان دونوں اس میں کندھا سے کندھا ملاکر لڑے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں شکست سے دوچارہوکر ہندوستانی انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے جی جان سے لڑے ۔ اس کے حصول کے لیے متعدد تحریکیں وجود میں آئیں۔ ان قومی تحریکوں کوتین مراحل میں تقسیم کیاجاسکتاہے: پہلا مرحلہ (1885سے 1905)، دوسرا مرحلہ (1905سے 1919) اور تیسرا مرحلہ (1919سے 1947)۔
پہلا مرحلہ معتدل لوگوں کے دور کے طورپر جاناجاتاہے، دوسرا مرحلہ متشددین یا قومی دہشت گردوں کے طورپر جاناجاتاہے اور تیسرا مرحلہ دورِ گاندھی کے طورپر جاناجاتاہے۔
ہندوستانی تاریخ بپن چندراپال، بال گنگادھر تلک، لالہ لاجپت رائے، مہاتماگاندھی ، جواہرلال نہرو، سبھاش چندر بوس وغیرہ کی ملک کی جدوجہد آزادی کے لیے خدمات نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کی قابلِ ذکر خدمات مذکور بالا تینوں مراحل میں نہیں بیان کی گئیں۔ حالانکہ مسلمان ہندوؤں اور دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ ہرمحاذ پرپیش پیش رہے اور کسی موقع پر خود کو غیر مخلص ثابت نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جدوجہدآزادی کے حوالے سے مسلمانوں کی بیش بہا خدمات اور ان کے بے نظیر حصے کونئے نصاب تاریخ اور علم المدن کی کتابوں میں خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی۔
ہم بہ آسانی ان کی بے مثل خدمات کا اندازہ معروف عالمِ دین مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندو ی کے درج ذیل فکرانگیز بیانات سے لگاسکتے ہیں۔ انہوں نے کیا خوب کہاہے:
’’مسلمانوں نے قومی جدوجہد آزادی میں ایک اہم کرداراداکیاہے۔ وہ اس کے ہراول دستے تھے۔ یہ مسلمان ہی تھے جن کے ہاتھوں سے انگریزوں نے اقتدار لیاتھا۔ جب برطانوی سامراج ملک میں اپنا پاؤں پسار رہاتھا اور ایک کے بعد دوسری مملکت ہڑپ رہاتھا، تو پہلا شخص جس نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا وہ شیرِ میسور ٹیپوسلطان تھا۔ انہوں نے واضح طورپر دیکھا کہ اگروقت رہتے حریص دشمنوں کے مذموم منصوبوں کو ناکام کرنے کے لیے فیصلہ کن کوششیں نہ کی گئیں ، تو وہ پورے ہندوستان کو نگل جائیں گے۔اس عزم کے ساتھ انہوں نے اپنی تلوار میان سے باہر نکالی اوربرطانوی لٹیروں کے خلاف زندگی اور موت کی ایک خونریز جدوجہد میں کود پڑے۔
ٹیپو سلطان نے برطانوی غاصبین کے خلاف ہندوستانی شاہوں کو متحد کرنے کا ایک بہادرانہ کام کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ترکی کے سلطان سلیم دوم کو بھی انگریزوں کو نکال بھگانے کے لیے اتحاد کی دعوت دی۔ان کی پوری زندگی جدوجہد میں گزری۔ وہ کامیابی کے قریب پہنچ گئے تھے، انگریز اس سرزمین سے نکل ہی جانے والے تھے ، لیکن انہوں نے اپنی سیاست سے وہ حاصل کرلیا جووہ فوجی کارروائی سے نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے چالاکی سے جنوب کے کچھ حکمرانوں کی حمایت حاصل کرلی اور غداری اور دھوکے بازی کے دیگر طریقہ کار کے استعمال سے انہوں نے میسور کے اس بہادر سپوت کی حب الوطنی کے حوصلوں کو ناکام کردیا۔ٹیپوسلطان آخر کار دوران جنگ 4؍مئی 1799 کو شہید ہوئے۔انہوں نے انگریزوں کی غلامی پر موت کو ترجیح دی۔ ان کے مشہور، تاریخی الفاظ ان کی موت سے پہلے یہ تھے:’’شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صدسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ بیان کیاجاتاہے کہ جب برطانوی کمانڈر، جنرل ہارس کو سلطان کی موت کی خبر ملی اور وہ ان کی لاش کا جائزہ لینے کے لیے گیا ، تووہ خوشی سے چلایا:’’آج سے ہندوستان ہماراہے‘‘۔
ہندوستانی تاریخ ان سے بڑھ کر بہادرمحب وطن اور بیرونی حکومت سے مصالحت نہ کرنے والا کسی اور کو نہیں بتاتی ہے۔انگریزوں کے درمیان وہ سب سے زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اپنی کینہ پروری کو تسکین دینے کے لیے ہندوستان میں انگریز اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ انہوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کردیا۔ایسا انہوں نے ایک لمبے عرصے تک کیا۔
وہ آگے کہتےہیں:’’مولانا ابو الکلام آزاد کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ انہوں کے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے سب سے زیادہ سالوں تک کام کیااور وہ بھی ایسے وقت میںجب ملک کی تاریخ سب سے تشویشناک حالات سے دوچارتھی۔دواہم انگریزی حکومتی مشن: کرپس مشن اور کیبنیٹ مشن نے ان ہی کی حتمی صدارت کے دوران ہندوستانی قائدین کے ساتھ بات کرنے کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا۔ مولانا نے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے بات چیت میں فعال کردار اداکیا۔ وفدکے ممبران بشمول سر اسٹیفرڈ کرپس کے ان کی سیاسی بصیرت اورذکاوت سے کافی متأثر ہوئے۔
یہ مولانا کی صدارت کے دوران ہی ہوا کہ ہندوستان آزاد ہوا۔ ان کی یادداشتیں جو ان کی وفات کے معًابعد ہی شائع ہوئی ہیںوہ دکھاتی ہیں کہ ان کی دانش مندی کا کردار کانگریس میں بطور ایک روشن دماغ کے تھا۔ دانشمندی اورسیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ ایک عالمی مقام رکھتے تھے۔آزادی کے لیے ان کا کردار جتنا گہرا تھا اتنا کسی کا نہیں‘‘۔
(Muslims in India)
اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان رقمطراز ہیں:’’ان دولاکھ لوگوں میں جنہوں نے 1857کے انقلاب میں اپنی جانیں دیں، اکیاون ہزار علماء تھے۔ صرف دہلی میں انگریزی ذرائع کے مطابق پانچ سو علماء کو انقلاب کی ناکامی کے بعد سولی پر چڑھایاگیا‘‘۔
ایک معاصر مؤرخ لکھتاہے:
’’ہر ایک انگریز کا یہ شیوہ ہوگیاتھا کہ وہ ہرمسلمان کو باغی سمجھتاتھا۔ ہرایک سے پوچھتا کہ تو ہندوہے یا مسلمان ؟ جواب میں مسلمان سنتے ہی گولی ماردیتا‘‘۔
ایک معاصر لکھتاہے:
’’ستائیس ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی اورسات دن برابر قتل عام ہوتا رہا، اموات کا کوئی حساب نہیں۔ بچوں تک کو مارڈالاگیا۔ عورتوں سے جوسلوک کیاگیا بیان سے باہر ہے جس کے تصور سے دل دہل جاتاہے‘‘۔
غالبؔ کی ایک ماتمی نظمؔ ’’شہرآشوب‘‘ کے اشعار میں بھی اس کا تذکرہ ہے ع
بسکہ فعّال ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستان کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انسان کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے زندان کا
شہر دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلمان کا
غالبؔ نے جو کچھ دیکھاتھا ، دلّی میں دیکھاتھا ، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ان اشعار میں درحقیقت ملک کے اکثر حصوں کی تصویر کھنچ آئی ہے۔ غالبؔ کے مجموعۂ خطوط’’اردوئے معلی‘‘میں ان کی یہ عبارت بھی ہے کہ ’’واللہ ڈھونڈھے سے مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا‘‘۔ (تاریخ ندوۃ العلماحصہ اول، ص: 34 35-)
ملک 15؍اگست 2022 کو اپنا پچہترواں یومِ آزادی منارہاہے۔ آزادی کی سات دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت خودکو نظرانداز محسوس کرتی ہے۔ ہندوستانی تاریخ ملک کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی خدمات اور ان کے کارنامے کبھی نظرانداز نہیں کرسکتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود مسلمانوں کو بہت سے مسائل اور پریشانیوں کا سامناہے۔ انہیں غلط طریقے سے دہشت گردی کے معاملات میں ملوث کیاجاتاہے۔ ان حالات میں ملکی تقریبات کے خوشی اور مسرت کے مواقع ان کے لیے کوئی معنینہیں رکھتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہ مسلمان جوملک کی تقسیم کے بعد بھی یہیں رہے ان کے اندر اپنے مادرِ وطن کے لیے محبت اورلگاؤ ہے۔ یہاں ان کا رہنا ان کی حب الوطنی اور ملک سے حقیقی محبت کا مظہرہے۔یہاں ہم مولانا محمد علی جوہر کے فکر انگیز الفاظ یادکرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاتھا:’’جہاں تک خداکا حکم ہے تو میں پہلے مسلمان ہوں، دوسرے بھی مسلمان ہوں، اور آخرمیں بھی مسلمان ہوں، اور مسلمان کے سواکچھ نہیں ہو…لیکن جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو میں پہلے ہندوستانی ہوں، دوسرے بھی ہندوستانی ہوں، آخر میں بھی ہندوستانی ہوں، اور سوائے ہندوستانی کے کچھ نہیں ہوں‘‘۔
(Khilafat to Partition, P76)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے سبھی ہندوستانیوں نے جدوجہد کی۔ہم سب ہندوستانی ہیں۔ جیساکہ معروف شاعر راحت اندوری نے کہاتھا:
’’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں‘‘
ہمارا آئین سبھی کو مساوی حقوق، مراعات اور آزادی فراہم کرتاہے۔ہمارے آئین کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہم سبھی یہاں ایک ساتھ امن اور بھائی چارہ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔سا لمیت اور امن ہماری مشترکہ ثقافت اور تہذیب کا امتیاز اور جوہر ہے۔ہندوستان کو بچانے کے لیے ہمیں ان کی حفاظت کرنی ہوگی۔ عظیم شاعر علامہ اقبال نے کہاتھا:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اندر ’’جیواور جینے دو‘‘ کا اصول استوار کریں۔ درحقیقت ہماری یوم آزادی تقریبات کا یہی حقیقی پیغام ہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022