اترپردیش میں مدارس کے سروے پر سیاست گرم

عرفان الٰہی ندوی

اترپردیش میں حکومت کے ذریعہ مدارس کے سروے کے فرمان پر اہل مدارس کے ساتھ مسلمانوں میں بھی تشویش کا ماحول ہے۔انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں یو پی میں بھی آسام کی طرح غیر منظور شدہ مدارس کو بلڈوزر سے منہدم تو نہیں کر دیا جائے گا؟
در اصل یو پی میں بلڈوزر بابا کے نام سے مشہور ہونے والے وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے پورے صوبے میں غیر منظورہ مدارس کا سروے کرانے کا فرمان جا ری کیا ہے۔جس کے مطابق ہر ضلع میں سروے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو بارہ نکات پر مشتمل سروے رپورٹ پچیس اکتوبر تک پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ۔اس میں مدرسے کے قیام کا سال‘نام ‘چلانے والی سوسائٹی یا تنظیم کا نام‘زمین کی تفصیلات‘مدرسے میں دی جانے والی سہولیات‘آمدنی کے ذرائع ‘ مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ اور طلبہ کی تفصیلات کے علاوہ رجسٹریشن یا کسی تنظیم کے ساتھ الحاق کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
سروے پر سیاست
سروے کے فرمان پر یوپی میں سیاسی پارہ بھی چڑھنے لگا ہے۔اے آئی ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے جہاں اسے ’’منی این آر سی ‘‘سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکار مدرسوں کو ہراساں کرنےکے لیے اعداد و شمار جمع کررہی ہے وہیں بی ایس پی کی سربراہ اور یوپی کی سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی نے ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا ہے’’مسلم سماج کے استحصال ‘اندیکھی اور فساد سے متاثر ہو نے کی شکایت تو کانگریس کے زمانے میں عام رہی ہے‘بی جے پی کے ذریعہ تشٹی کرن یعنی منہ بھرائی کی تنگ نظر سیاست کرکے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اب ان کو دبانے اور خوف زدہ کرنے کا کھیل مسلسل جاری ہے‘اسی کڑی کے طورپر اب یو پی میں مدرسوں پر بی جے پی سرکار کی ٹیڑھی نظر ہے‘مدرسہ سروے کے نام پرقوم کے چندے پر چلنے والے نجی مدرسوں میں مداخلت کی کوشش نا مناسب ہے۔سرکار کو سرکاری امداد سے چلنے والے مدرسوں کی بدتر حالت درست کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے‘‘۔
دوسری جانب اترپردیش کے وزیر اقلیتی فلاح و بہبود دھرم سنگھ کا کہنا ہے ’’ریاستی حکومت اقلیتی طبقے کے بچوں اور نوجوانوں کومعیاری اور اچھی تعلیم دلانا چاہتی ہے تاکہ ان کی مکمل نشو و نما کی جا سکے۔ان کے مطابق اقلیتی طبقے کے بچوں کو تکنیک اور ہنر کی تعلیم دے کر سماج کے قومی دھارے میں شامل کرنا سرکار کی ترجیح ہے۔‘‘تاہم مدرسہ تنظیمیں ریاستی وزیر کے اس دعوے پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اترپردیش عربی فارسی مدارس ایسو سی ایشن کے ریاستی صدر سید اقبال حسین عرف پھول میا ں کا کہنا ہے کہ سرکار کو پہلے ان مدرسوں کی فکر کرنی چاہیے جو منظور شدہ ہیں ۔یو پی میں مدرسہ جدید کاری اسکیم کے تحت تعینات ٹیچروں کی اٹھاون ماہ کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں پہلے سرکار اسے جاری کرے‘غیر منظور شدہ مدرسوں کے سروے سے پہلے ان کے رجسٹریشن کی شروعات کرے جو پچھلے پانچ برسوں سے رکی ہوئی ہے۔مدرسہ رجسٹریشن کا پورٹل بھی بند پڑا ہوا ہے۔ان کے مطابق اقلیتی فلاح و بہبود کے بجٹ سے سرکاری اسکولوں میں لاکھوں روپیے کے اسمارٹ کلاسز بنائے جا رہے ہیں جبکہ مدرسوں کی جدید کاری کے لیے سرکار کے پاس دینے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔انہوں نے سب سے پہلے سرکار سے منظوری حاصل کرنے کے خواہش مند مدرسوں کے رجسٹریشن کا عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے مدارس سے اپنی اصلاح کرنے اور معاملات درست کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
ملی تنظیموں کی تشویش
آسام میں مدرسوں کے خلاف جاری کارروائی کا اثر یو پی میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ملی تنظیموں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں سرکار آسام کی طرح یو پی میں بھی غیر منظور شدہ مدارس کو بلڈوزر سے منہدم کرنا شروع نہ کردے؟جمعیت علماء ہند نے معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے دہلی میں مدارس کی ذمہ داروں کا اجلاس طلب کیا ۔اس میں یو پی کے بڑے مدارس دارلعلوم دیوبند‘ندوۃ العلماء اور مظاہر العلوم سمیت مختلف مدارس سے آئے تقریبا دو سو مہتمموں اور نمایندوں نے شرکت کی۔اس میں مدرسوں کے تعاون کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔اجلاس میں جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ امن و امان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے لیکن فرقہ پرست ہمارے وجود کو ختم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں جسے ہم ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔اجلاس کے کنوینر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ مدارس بہت اہم اثاثہ ہیں۔ہمارے بزرگوں نے جو یہ نظام دیا ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ہے اس لئے ہر قیمت پر اس کی حفاظت کی جائے گی۔اجلاس میں باہمی مشاورت سے تین تجاویز مظور کی گئیں۔ان میں سب سے پہلے مدراس میں اندرونی نظام کے اعتبار سے قانونی خامیاں دور کرنے ‘مدارس کے لیے ہیلپ لائن شروع کرنے اور مدارس کا ریکارڈ درست کرانے میں تعاون کے لیے ایک ٹیم بنانے کی تجاویز شامل ہیں۔
یو پی کے مختلف اضلاع میں ملی تنظیمیں مدارس کے تعاون کے لیے سر گرم ہو گئی ہیں۔دیوبند اور بریلی میں اس مسئلے پر میٹنگیں ہو چکی ہیں۔بریلی میں ملی فورم کے نام سے تشکیل دیے گئے گروپ نے مدارس کے تعاون پر صلاح مشورے کے بعد قانونی اور مالیاتی امور پر مدد کے لئے ایک سب کمیٹی تشکیل دی ہے۔ فورم میں جماعت اسلامی مغربی اترپردیش کے امیر حلقہ احمد عزیز خان نے کہاکہ اس معاملے میں ملی اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کو درپیش چیلنجز کا متحد ہوکر مقابلہ کیا جا سکے۔میٹنگ میں شامل پروفیسر طاہر بیگ نے کہا کہ جس طرح انگریزوں نے فارسی تعلیم کو بند اور اوقاف کی جائدادیں ضبط کرکے مدرسوں کو ختم کرنے کی سازش کی تھی اسی طرح موجودہ حکومت بھی مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے نام پر سازش کر رہی ہے لیکن اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
بی جے پی اقلیتی مورچہ سروے کا دفاع کرنےکے لیے سماجی سطح پر سر گرم
دوسری جانب حکومت اترپردیش مدارس کے سروے پر ہونے والے اعتراضات اور اٹھنے والے سوالات کا جواب دینےکے لیے سماجی سطح پر سرگرم ہو گئی ہے۔پارٹی کے اقلیتی مورچہ نے اس سلسلے میں مختلف اضلاع میں اہل مدارس کی میٹنگس کرکے غلط فہمیوں کو دور کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔پارٹی کے اقلیتی مورچہ کے صدر کنور باسط علی کے مطابق پورے صوبے میں مدرسہ کانفرنسیں کی جائیں گی اور انہیں بتایا جائے گا کہ ان کی طلبہ کی بھلائی کے لیے یہ سروے کرایا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں پہلی کانفرنس بجنور میںہونے والی ہے ۔مملکتی وزیر برائے اقلیتی فلاح و بہبود دانش آزاد انصاری نے لکھنئو میں اسلامک سنٹر آف انڈیا کے ڈائریکٹر مولانا خالد رشیدفرنگی محلی سے ملاقات کرکے حکومت کا موقف پیش کیا۔حالانکہ میٹنگ کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن مولانا خالد رشید نے میٹنگ کا فوٹو جاری کرتے ہوئے مدارس کے سروے پر مثبت بات چیت کا ذکر کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاستی حکومت چائلڈ رائٹس پروٹیکشن ایکٹ کی اوٹ میں یہ سروے کرا رہی ہے۔تاہم مدارس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی اپنے ارادوں میں سچی ہے تو اسے مدارس کے ساتھ آشرم میں چلنے والی پاٹھ شالاوں اور سرسوتی ششو مندروں کا بھی سروے کرانا چاہیے تاکہ مدرسوں کو ںصرف انہیں ٹارگیٹ بنانے کی شکایت نہ رہے۔واضح رہے کہ یو پی میں تقریباً ساڑھے سولہ ہزار رجسٹرڈ مدارس ہیں۔ان میں صرف پانچ سو کے قریب مدارس سرکار سے امداد پاتے ہیں ۔باقی تمام مدارس قوم کے چندے اور باہمی تعاون سے چلتے ہیں ۔سرکار کو سب سے پہلے رجسٹرڈ مدارس کی حالت سدھارنے کے لیے بجٹ کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ دیگر مدارس بھیِ سرکار کی منظوری حاصل کرنے کی تحریک حاصل کریں۔کووڈ کے دور میں بہت سے مدارس مالی مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں ۔سرکار کو ان کی مددکے لیے آگے آنا چاہیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022