تمہاری ریوڑی اور میری سبسیڈی! حقیقت کیا ہے؟

رائے دہندوں کو متاثر کرنے کے لیے ٹیکس کی آمدنی کا استعمال!

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ریوڑی کلچر معیشت کے لیے خطرناک۔سپریم کورٹ کی تشویش بجا
کیا سیاست داں سیاسی فائدوں پر معاشی استحکام کو ترجیح دیں گے؟
ہمارا ملک خیراتی بننے کی طرف گامزن ہے۔ الیکشن جیتنے کی خاطر سیاسی پارٹیاں عوام کو راغب کرنے کے لیے لبھانے والے وعدے (Freebies) کو اپنا ہتھیار بنارہی ہیں۔ اس طرح کے کھوکھلے وعدوں کو لگام لگانے کے لیے سپریم کورٹ نے ضروری دخل اندازی کی ہے اور انتخابی ریوڑیوں کی تقسیم کے اعلانات پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے حکومت، نیتی آیوگ، مالیاتی کمیشن، آربی آئی اور دیگر سبھی فریقوں کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور و خوض کرکے اپنا مشورہ دینے کے لیے کہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت یہ کہہ کر اپنا پلہ نہیں جھاڑ سکتی ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ محض انتخابی ریوڑیوں پر تشویش کے اظہار سے کیا ہوگا؟ چیف جسٹس این وی رمنا، کرشن مراری اور ہیما کوہلی کی بنچ نے اس مسئلہ کو احسن طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت کوماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کا مشورہ دیا تاکہ اتفاق رائے سے فری بیز پر لگام لگائی جاسکے۔ عدالت نے اس مسئلہ پر کسی طرح کی ہدایت (آرڈر) جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس میں تمام فریقین اور متعلقین کے مشوروں کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سالسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اصولی طور سے وہ ریوڑی کلچر پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے وعدوں کے دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ ووٹرس کے فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں اور دوم معیشت پر دباو بڑھتا ہے۔ اس پر مشورہ کے لیے دوبارہ الیکشن کمیشن کے پاس بھیجا جانا چاہیے۔ بنچ نے عدالت میں موجود سینئر وکیل اور رکن پارلیمنٹ کپل سبل سے کہا کہ وہ ایک تجربہ کار پارلیمنٹیرین ہیں اپنی رائے بتائیں تو کپل سبل نے اسے معاشی اور سیاسی معاملہ بتایا اور کہا کہ اس مسئلہ سے الیکشن کمیشن کو علیحدہ ہی رکھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے مشورہ پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس مسئلہ پر بحث ہوگی؟ آج سبھی مفت ریوڑیاں چاہتے ہیں کیونکہ عوام محسوس کرتے ہیں کہ جو روپیہ وہ دے رہے ہیں وہ ترقی پر خرچ نہیں ہورہا ہے۔
ریوڑی کلچر کی شروعات تامل ناڈو سے ہوئی ۔ سبرامنیم بالا جی بمقابلہ تامل ناڈو حکومت 2013کے کیس میں عدالت ان تمام امور پر متعلقہ قانونی اور پالیسی کی وضاحت کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں خواتین، کسان اور غریب عوام کو ٹیلی ویژن اور کنزیومر اشیا کا دیا جانا دستور کے رہنما اصولوں کو سامنے لاتا ہے۔ اس طرح کی تقسیم کو غیر قانونی قرار دینا نا مناسب ہے اور نہ ہی ایسے وعدوں کو بدعنوانی (کرپشن) کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ الیکشن کمیشن، پارٹی کے ذریعہ اپنے انتخابی منشور کے وعدوں کو وفا کرنے کو لازمی قرار دیتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ایسے لوازمات ہوں جن سے فلاحی کام کا وعدہ قبل از انتخاب ذمہ دارانہ طریقہ سے ہو۔ اس لیے سیاست داں متفقہ طور پر باہمی مشاورت سے فری بیز کی ہمت افزائی ہی نہ کریں بلکہ اس پر قانون سازی سے بھی گریز نہ کریں۔ بہتر ہے کہ اس مسئلہ کو عوامی نمائندوں اور رائے دہندگان پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ معاشی معاملات کو سیاسی خواہشات پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ اس لیے مفت ریوڑی کی تقسیم نہ کرکے ٹیکس کے رقم کو روڈ ، ریل، اسکولس اور ہاسپٹلس کی تعمیر پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ اسی کو ترجیحات میں رکھ کر بی جے پی پر شدید حملہ کرتے ہوئے دلی کے چیف منسٹر کجریوال نے کہا کہ پارٹی اپنے خاندان کی مدد کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کرتی ہے اور کچھ اپنے دوستوں کا قرض معاف کرتی ہے۔ تیسرا متبادل یہ ہے کہ سرکاری رقم کو بہترین بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر پر صرف کیا جائے تاکہ اچھے اسکولس، معیاری ہاسپٹلس اور بہتر روڈوں کا جال بچھے۔ اور عام لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔ انہوں نے وزیراعظم کا نام لیے بغیر کہا کہ مفت کی سہولتوں سے ملک و قوم کا نقصان ہوگا حالانکہ سبسیڈی کے نام پر مودی نے خوب خوب ریوڑیاں تقسیم کیں۔ 80کروڑ لوگوں کو مفت راشن کی تقسیم کا خوب ڈھنڈورا پیٹا اور الیکشن جیتا۔ اب وہ سبسیڈی ریوڑی ہوگئی کیونکہ اب اس سبسیڈی سے مودی جی کو پنجاب الیکشن کے بعد الکٹورل فائدہ ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اروند کجریوال نے خم ٹھونکتے ہوئے کہا کہ اگر مرکز چاہے تو اس مسئلہ پر ملک گیر ریفرنڈم ہوجائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ٹیکس دہندگان کے 10لاکھ کروڑ روپے اپنے دوستوں کو دے کر قرض کی معافی مرکز نے نہیں کی جو ٹیکس دہندگان اور ملک کے لوگوں کے ساتھ بڑا دھوکہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قرض معافی اور ٹیکس کی بڑی چھوٹ کی وجہ سے دودھ ، دہی پر بھی جی ایس ٹی لگایا جاتا ہے۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ عوام سے پوچھا جائے کہ سرکاری پیسہ چند دوستوں کے لیے استعمال ہونا چاہیے یا ایک خاندان کے لیے یا وہ رقم عام لوگوں کے لیے اسکول، اسپتال یا سڑکیںبنانے کے لیے ہونا چاہیے؟۔ ملک میں اب ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ عوام الناس کوسہولیات دینے سے ملک کو بہت نقصان ہوگا۔ اگر حکومتیں مذکورہ کام نہیں کریں گی تو حکومت کا کیا کام ہے؟
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کے ذریعہ ایک کمیٹی بنائے جانے کے مشورہ کو خوش آمدید کہا۔ مگر کمیشن اس کمیٹی کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہے کیونکہ کمیشن ایک دستوری ادارہ ہونے کی وجہ سے ماہرین کی کمیٹی میں شمولیت مناسب نہیں ہے۔ خصوصاً جب کمیٹی میں وزارت یا سرکاری ادارے شامل ہوں۔ کمیشن نے مزید کہا کہ ماہرین کی کمیٹی میں سرکاری و غیر سرکاری ادارے سیاسی پارٹیاں ، نیتی آیوگ، مالیات، بینکنگ اور سماجی انصاف وغیرہ کے نمائندوں کی نمائندگی ہو۔ ماہرین کی کمیٹی سے کمیشنکو فائدہ ہوگا اور انتخابی سرگرمیوں کو شفاف رکھنے کے لیے موجودہ رہنمائی (گائیڈ لائنس) سے مضبوطی فراہم ہوگی۔ مفت ریوڑی کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے حلف نامہ میں یہ بھی کہا کہ ابھی مفت ریوڑیوں کی کوئی تعریف نہیں ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کسے بےمعنی ریوڑیاں کہا جائے اور کسے نہیں۔ اس مسئلہ پر کھل کر کھلے دل سے سبھوں سے مشورہ لینا ضروری ہے۔ مفت ریوڑیاں حالات کے مطابق سماج، معیشت اور مساوات پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں مثلاً آفت یا آسمانی قہر کے وقت زندگی کو بچانے والی دوائیاں ، غذائیں، پیسے وغیرہ دینا لوگوں کی زندگی اور معاشی مدد کے لیے ضروری ہوجاتا ہے لیکن عام حالات میں اسے مفت ریوڑیاں ہی کہا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ریوڑی کلچر کی شروعات تامل ناڈو سے ہوئی پھر پورے ملک میں پھیل گئی۔ آج تمام پارٹیاں انتخاب کے موقع پر لوگوں کو راغب کرنے کے لیے دلکش اعلانات کرتی ہیں۔ اس کا بھی خیال نہیں رکھتیں کہ آیا معاشی صورتحال ان وعدوں کی متحمل ہے بھی یا نہیں۔ فی الحال اکثر جماعتیں آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ پر عمل پیرا ہیں۔ ٹیکس کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے ریوڑی کلچر کو آگے بڑھانا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس کی تازہ مثال سری لنکا ہے۔ کیونکہ وہ اس لیے تباہ ہوا کہ اس نے اپنی خستہ حالی اور معاشی بدحالی کے باوجود عوام کو رعایت اور راحت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ افسوس کی بات ہے کہ سری لنکا کی طرح ہماری چند ریاستیں ایسا کرنے لگی ہیں تاکہ الیکشن جیت سکیں۔ یہ ریوڑی کلچر اور مفت خوری معاشی مسائل کو بڑھاتی ہیں۔ ایسے کسی منصوبے کو فلاحی منصوبہ نہیں کہا جاسکتا ہے جس سے لوگ مفت خوری کو اپنا روزگار بنائیں۔ بعض اوقات ایسی کوششیں لوگوں کے ووٹ کی خریداری کے طور پر دیکھی جاتی ہیں۔

 

***

 ٹیکس کی آمدنی کو دیکھتے ہوئے ریوڑی کلچر کو آگے بڑھانا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس کی تازہ مثال سری لنکا ہے۔ کیونکہ وہ اس لیے تباہ ہوا کہ اس نے اپنی خستہ حالی اور معاشی بدحالی کے باوجود عوام کو رعایت اور راحت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ افسوس کی بات ہے کہ سری لنکا کی طرح ہماری چند ریاستیں ایسا کرنے لگی ہیں تاکہ الیکشن جیت سکیں۔ یہ ریوڑی کلچر اور مفت خوری معاشی مسائل کو بڑھاتی ہیں۔ ایسے کسی منصوبے کو فلاحی منصوبہ نہیں کہا جاسکتا ہے جس سے لوگ مفت خوری کو اپنا روزگار بنائیں۔ بعض اوقات ایسی کوششیں لوگوں کے ووٹ کی خریداری کے طور پر دیکھی جاتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022