مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہندوستانی معاشرے میں ’’ستی پرتھا‘‘ جیسی سماجی برائیاں پیدا ہوئیں: آر ایس ایس لیڈر کا دعویٰ

نئی دہلی، ستمبر 4: آر ایس ایس کے ایک سینئر کارکن نے اتوار کو کہا کہ بچپن کی شادی، ’’ستی پرتھا‘‘ اور بیوہ کی دوبارہ شادی پر پابندی جیسی برائیاں ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کے حملے کے سبب پھیلیں اور اسی وجہ سے خواتین کو محکوم بنایا گیا۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سینئر کارکن کرشنا گوپال نے دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ ’’ناری شکتی سنگم‘‘ کے عنوان سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرون وسطیٰ میں خواتین اور لڑکیوں کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

یہ بتاتے ہوئے کہ قرون وسطیٰ کا زمانہ بہت ’’مشکل‘‘ تھا، گوپال نے دعویٰ کیا کہ ’’پورا ملک محکومیت سے نبرد آزما تھا۔ مندر گرائے گئے، بڑی یونیورسٹیاں تباہ ہوئیں اور خواتین خطرے میں تھیں۔ لاکھوں خواتین کو اغوا کیا گیا اور دنیا بھر کے بازاروں میں فروخت کیا گیا۔ .وہ (احمد شاہ) ابدالی ہو، (محمد) غوری ہو، غزنی کا محمود ہو، ان سب نے یہاں سے عورتوں کو اٹھا کر دنیا بھر کے بازاروں میں بیچ دیا، وہ بہت ذلت کا دور تھا۔‘‘

اس نے مزید کہا ’’اس لیے خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے لیے ’ہمارے معاشرے‘ کی طرف سے ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئیں اور اس کے نتیجے میں انھوں نے اسکولوں، گروکلوں میں جانا چھوڑ دیا اور ان پڑھ ہو گئیں۔‘‘

آر ایس ایس لیڈر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بچپن کی شادی کا رواج اس وقت شروع ہوا جب لوگ مسلم حملہ آوروں سے بچانے کے لیے اپنی بیٹیوں کی چھوٹی عمر میں شادی کر دیتے تھے۔

اس نے دعویٰ کیا ’’ہمارے ملک میں ستی پرتھا نہیں تھی، لیکن عورتیں ستی ہونے لگیں۔ بیواؤں کی دوبارہ شادی پر پابندیاں لگائی گئیں، جنگوں میں بڑی تعداد میں مرد مارے گئے، جس کے نتیجے میں مردوں کی کمی ہو گئی۔‘‘

گوپال نے کہا کہ اسلامی حملے سے پہلے خواتین ’’شاسترتھ‘‘ (علمی مباحث) میں حصہ لیتی تھیں اور یہاں تک کہ ویدوں کی تعلیم بھی دیتی تھیں۔