سیرت صحابیات سیریز(۳۴)

ایک بادیہ نشین صحابیہ

جن کی نصیحت پر سارا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوگیا
رحمت عالم ﷺ ایک مرتبہ اپنے جاں نثاروں کی ایک کثیر جمعیت کے ہم راہ سفر میں تھے۔ اثنائے سفر میں آپؐ ایک ایسے علاقے سے گزرے جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اہل لشکر نے پیاس کی شکایت کی تو حضورؐ نے حضرت علی مرتضیؓ اور حضرت عمران بن حصینؓ سے فرمایا: ’’تم دونوں اِدھر اُدھر گشت کرکے پانی کا سراغ لگاو‘‘۔ دونوں حسب ارشاد پانی کی تلاش میں نکلے۔ کچھ دور جاکر انہوں نے ایک بدویہ خاتون کو دیکھا، جو اونٹ پر سوار تھیں اور انہوں نے پاوں پانی کی دو مشکوں پر لٹکا رکھے تھے۔ حضرت علیؓ اور حضرت عمرانؓ نے ان سے دریافت کیا ’’پانی کہاں سے لارہی ہو‘‘۔
انہوں نے جواب دیا ’’پانی یہاں سے بہت دور ہے۔ پانی لاد کر یہاں پہنچنے میں میرے آٹھ پہر گزرچکے ہیں‘‘۔
دونوں صاحبوں نے کہا ’’تم ہمارے ساتھ چلو‘‘
خاتون نے پوچھا ’’کہاں چلوں؟‘‘
انہوں نے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ کے پاس‘‘
بولیں، ’’وہ شخص جسے لوگ صابی (بے دین، معاذ اللہ )کہتے ہیں؟‘‘
انہوں نے کہاں ’’ہاں جن کو مشرکین ایسا سمجھتے ہیں‘‘ (معاذ اللہ)
اب وہ دونوں ان خاتون کو ساتھ لے کر حضورؐ کی خدمت میں پہنچے۔ آپؐ نے خاتون سے فرمایا ’’اگر اجازت دو تو تمہاری مشکوں سے تھوڑا سا پانی لے لیں‘‘
انہوں نے کہا ’’لے لیں لیکن تھوڑا سا لینا۔ میں اسے بہت دور سے لائی ہوں اور یہاں تک پہنچنے میں بڑی مشقت اٹھائی ہے‘‘۔حضور نے پہلے تو مشکوں کے بالائی منہ کھولے اور برتن میں تھوڑا تھوڑا پانی لے کر وہ منہ بند کردیے پھر نیچے کی طرف سے منہ کھول کر تھوڑا تھوڑا پانی نکالا اور حکم دیا کہ تمام لوگ یہاں آکر خود بھی پانی پئیں اور جانوروں کو بھی پلائیں۔ چناں چہ تمام صحابہ نے خود بھی سیر ہو کر پیا اور سواریوں کو بھی خوب پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں اتنی برکت دی کہ کثیر التعداد آدمیوں اور جانوروں کے سیراب ہونے کے باوجود دونوں مشکیں پہلے سے زیادہ لبریز معلوم ہوتی تھیں۔
وہ خاتون یہ منظر دیکھ کر انگشت بدنداں ہوگئیں۔
اب حضور نے حکم دیا کہ اس عورت کے لیے کچھ کھانے کا سامان لاو۔ صحابہ کرام نے فوراً بہت سا خوردنی سامان (کھجوروں ، ستو آٹا وغیرہ ) جمع کیا اور حضورؐ کے ارشاد کے مطابق ایک کپڑے میں باندھ کر خاتون کے اونٹ پر رکھ دیا۔ پھر حضورؐ نے خاتون سے فرمایا ’’تم اب جاو اور یہ چیزیں اپنے گھر والوں کو کھلاو‘‘۔
جب وہ چلنے لگیں تو مزید ارشاد ہوا ’’دیکھ لو تمہاری مشکیں پانی سے بدستور لبریز ہیں لشکر نے جو پانی پیا ہے وہ اسے اللہ نے پلایا ہے۔ وہ خاتون گھر پہنچیں تو گھر والوں نے پوچھا تم نے معمول کے خلاف پانی لانے میں اتنی دیر کیوں کی‘‘
انہوں نے کہا ’’راستے میں مجھے دو آدمی ملے۔ جو مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے مشکوں کا منہ کھول کر جانوروں سمیت اپنے سارے لشکر کو پانی پلایا لیکن میرے پانی میں کوئی کمی نہ آئی۔ خدا کی قسم دنیا میں اس شخص سے بڑھ کر کوئی جادو گر(معاذ اللہ) نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہی ہو جیسا کہ اس کے ساتھی اس کو کہتے ہیں ‘‘ اگرچہ سرور عالمﷺ نے بادیہ نشین خاتون کو ان کے پانی کا صلہ دے دیا تھا تاہم صحابہ کرامﷺ پر ان کے احسا ن کا یہ اثر تھا کہ جب کبھی اس علاقے کے مشرکین سے جنگ آزما ہوتے تو ان (خاتون ) کے قبیلے کو چھوڑدیتے تھے۔ وہ صحابہ کرامؓ کی اس منت پذیری سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے تمام اہل قبیلہ کو جمع کیا اور ان ے سے کہا ’’تم دیکھتے ہو کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ کس قدر رعایت کرتے ہیں یہ محض اس بنا پر ہے کہ میں نے ایک دفعہ ان کو تھوڑا سا پانی پلایا تھا۔ ان کی یہ احسان شناسی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نہایت اچھے لوگ ہیں اور ان کا سردار خدا کا سچا رسول ہے ۔ میری مانو تو ہم سبھی ان میں شامل ہوجائیں اور ان کے رسول پر ایمان لے آئیں‘‘۔
تمام اہل قبیلہ نے ان کی رائے پر صاد کیا اور سب کے سب سعادت اندوز اسلام ہوگئے۔
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکارصحابیاتؓ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022