’ادھوری کہانی‘ ہر دکھی دل کو امید کی روشنی سے منور کرنے والی کتاب

امّت مسلمہ میں آخرت سے شعوری تعلق پیدا کرنے کی کوشش۔تعمیری ادب کا ایک عمدہ نمونہ

نام کتاب :ادھوری کہانی
مصنف :ابو یحییٰ
صفحات :350
قیمت :200 روپے …
مبصر :سہیل بشیر کار بارہمولہ کشمیر

مولانا صدر الدین اصلاحی لکھتے ہیں:’’جس طرح کسی مکان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ایک بنیاد ہو جس پر اس کی دیواریں اٹھائی جائیں اور پھر ان دیواروں پر اس کی چھت تعمیر کی جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بنیاد اتنی گہری اور مضبوط ہو کہ دیواروں اور چھت کا بار اچھی طرح سنبھال سکے؛ ورنہ وہ ہوا کے کسی ایک بھی تیز جھونکے یا بارش کے کسی ایک بھی تند حملے کی تاب نہ لاسکے گی اور چاہے اس کی دیواریں اور چھتیں اپنی جگہ کتنی ہی ٹھوس اور پائیدار کیوں نہ ہوں؛ اسے ایک کھنڈر کی میں تبدیل ہوجانے سے کوئی شئے بچا نہ سکے گی۔‘‘ (اساس دین کی تعمیر؛ صفحہ 9)
وہ مزید لکھتے ہیں: ’’ایک پاگل ہی ایسا تصور کرسکتا ہے کہ جاتو رہا ہو اہرام مصر کو شرما دینے والی عمارت بنانے اور اس کے لیے بنیاد کھودے انگلیوں اور انچوں سے ناپ کر۔ ‘‘ (صفحہ 10)
اسی کتاب میں موصوف آگے لکھتے ہیں: ’’دین حق کا وہ حسین اور پر جلال ایوان جس کی تعمیر مدنی دور کے آخری لمحوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی، اس کی بنیاد مکہ کی تیرہ برس لمبی مدت میں ہوئی، وہاں وہ اس حقیقت کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ اس بنیاد کی نچلی گہرائیوں میں جو پتھر جمائے گئے تھے ان کی مجموعی تعداد صرف چار تھی:1. اللہ پر ایمان 2.آخرت پر ایمان 3. ذکر 4. صبر. یہی چار چیزیں ہیں جن کی روح اگر داعیان حق کے دلوں میں اچھی طرح اتری ہوئی ہو تو یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ وہ اپنے نصب العین کی راہ میں سست گامی کو کبھی روا نہ رکھیں گے، اور دین حق کا قیام فی الوقت ایک مضبوط چٹان پر ہورہا ہے۔ ‘‘(صفحہ 25)
یہ جو چار بنیادیں ہیں؛ ان میں تین بنیادیں بہرحال کسی نہ کسی صورت میں امت مسلمہ کے ہاں پائی جاتی ہے لیکن جس درجہ کا آخرت پر ایمان تقاضا کرتا ہے وہ موجود نہیں، یہی عقیدہ آخرت ہے جو انسان کے اعمال کو درست کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم عقیدہ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔
انسان کو اس دنیا کی مختصر زندگی کی صورت میں جو مہلت ملی اس میں انسان کی کہانی ادھوری رہ جاتی ہے، اور یہ کہانی اپنے انجام کو ہر صورت میں آخرت میں پہنچے گی، لیکن بندے کے لیے بھی یہی ایک زندگی ہے جس میں اس کو موقع ہے کہ وہ اپنی کہانی اس طرح لکھیں کہ اس کا انجام جنت ہو۔ یہاں کی زندگی میں بہت سے لوگ تکلیفوں سے گزرتے ہیں، بہت سے لوگوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے، اکثر لوگوں کو وہ نہیں ملتا جو بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ انسان کو ملنا چاہیے، انسان کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سبھی سوالات کا جواب ابو یحییٰ نے اپنی کتاب ’’ادھوری کہانی‘‘ میں ناول کی صورت میں دیا ہے۔ ابو یحییٰ مقبول ترین مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی اکثر تحریریں خاص کر ناولز تصور آخرت کے اردگرد گھومتی ہے۔ ناول کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ غیر شعوری طور پر قاری کے عقل اور دل پر اثر ڈالتی ہے۔ ابویحییٰ ایک پاکستانی اسکالراور مصنف ہیں ۔ آپ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں اونرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کیں اور سول سائنسز میں ایم فل کیا۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی اسلامک اسٹیڈیز میں مکمل کیا۔ آپ کی ڈیڑھ درجن سے زیادہ تصانیف ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معروف کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ہے؛ جو اردو زبان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ آپ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ ’’انذار‘‘ کے بانی اور ماہنامہ ’’انذار‘‘ کے مدیر ہیں۔ اس کے علاوہ کئی برس تک درس قرآن دیتے رہے ہیں۔
ابو یحییٰ کی ناول ’ادھوری کہانی‘ ان کتابوں کا تسلسل ہے جو ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد اس کی دوسری کتاب ’’قسم اس وقت کی‘‘ تیسری کتاب ’’آخری جنگ‘‘ اور چوتھی کتاب ’’خدا بول رہا ہے‘‘ تھی۔ ابو یحییٰ نے ان سب ناولوں میں موت کے بعد کی زندگی کا بیان اتنے دلفریب انداز میں کیا ہے کہ دل بے ساختہ نیک اعمال کرنے کو بے قرار ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اخروی نعمتوں اور آسائشوں کو نہایت خوبصورتی سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ دوزخ اور سزا کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن اس نرم طریقے سے کہ انسان خوفزدہ ہونے کے بجائے اس پہ غور کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہاں ایک آسان فارمولہ ہے۔ اچھے اعمال، اچھا نتیجہ۔ برے اعمال، برا نتیجہ۔ جب ’زندگی شروع ہوگی‘ میں ناول کے پیرایے میں موت کے بعد برزخ اور میدان حشر کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے،یہ کہانی اللہ کے ایک نیک بندے عبداللہ سے شروع ہوتی ہے۔ ’قسم اس وقت کی‘ کا موضوع بھی آخرت ہے لیکن اس کا مرکزی کردار عبداللہ کی بیوی ناعمہ ہے۔ ناعمہ پہلے ملحد لڑکی تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کو دین اسلام کے لیے وقف کیا، ’آخری جنگ‘ میں مسلمانوں کی اخلاقی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ چوتھا ناول ’’خدا بول رہا ہے‘‘ کی کہانی عبداللہ کے والدین کے ارد گرد گھومتی ہے، اور اس میں قرآن کریم کے اثرات پر بات کی گئی ہے۔
دنیا امتحان گاہ ہے یہاں انسان کو ہر چیز نہیں ملتی، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، دنیا کی زندگی میں اکثر انسانوں کے لیے داستان ادھوری رہ جاتی ہے لیکن آخرت میں ان ادھوری کہانیوں کو پورا کیا جائے گا، یہ کتاب ہر دکھی دل کو امید کی روشنی سے منور کرتی ہے، اس میں ہر اس شخص کے لیے امید کا پہلو ہے جو اس دنیا میں دکھی رہا، فکر آخرت پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، ادھوری کہانی ان میں مشکل ترین ہے وہ خود لکھتے ہیں ’’ادھوری کہانی‘‘ میری زندگی کی سب سے مشکل ترین تحریر ہے، اس میں ایک تو وہی مشکل ہے جو ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی تصنیف کے وقت پیش آئی تھی کہ یہ ایسے عالم کی روداد ہے جس کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے، ’’ادھوری کہانی‘‘ میں یہ مشکل دوگنی ہوگئی کہ اس دفعہ مستقبل کے ساتھ ماضی کی ان دیکھی دنیا بھی زیر بحث آگئی۔ ‘‘ (صفحہ 4) مصنف کی خوبی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ناول تو دلچسپ ہو لیکن یہ اصل پیغام پر غالب نہ آجائے، اس ناول میں بھی وہ اس کوشش میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طرف امت مسلمہ بظاہر آخرت پر ایمان کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس عقیدے کے جو اثرات پڑھنے چاہئیں وہ نہ ہی امت مسلمہ کی انفرادی زندگی میں نظر آتے ہیں نہ ہی اجتماعی زندگی میں۔ ابو یحییٰ کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ میں آخرت سے شعوری تعلق پیدا ہو۔ ’ادھوری کہانی‘ اس سلسلے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔
بظاہر اس ناول کا مرکزی کردار یوسف (جوزف) ہے جو ایک نو مسلم ہے، جوزف ایک ارب پتی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، جس کے انگلیوں کے اشارے پر دنیا کی نعمتیں جمع ہو جاتی تھیں، وہ آزاد فضاؤں میں اڑنے والا عقاب تھا اور کنول جو پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے؛ کے ارد گرد گھومتی ہے، کنول کی نہ ماں تھی نہ باپ۔ ان کے علاوہ عبداللہ، ناعمہ کا کردار بھی موجود ہے، یوسف کا باپ یہودیوں کے اس طاقتور گروہ کا خاص ممبر تھا جس کی کوشش تھی کہ دنیا کے سبھی مالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ اور اہم دارالحکومتیں ان کے کنٹرول میں رہیں، یہاں محسوس ہوگا کہ ہر فرد آزاد لگے گا لیکن حقیقت میں سب کچھ ان کی غلامی میں ہونگے، ہر فرد ان کے اصولوں کے مطابق جیے گا، یوسف کا باپ ان کی کمپنیوں کا اہم رکن تھا۔ یوسف کو ورثہ میں زندگی کی ہر آرائش ملی تھی اس کے باپ کو کینسر تھا، اب اس کی جگہ جوزف (یوسف) لینے والا تھا لیکن اسی اثنا میں جوزف کا خطرناک ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، جوزف کے والد اپنے بیٹے کا بہترین علاج کروانا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ ہسپتال سے رابطہ کرتے ہیں وہاں سے انہیں ڈاکٹر کنول کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کنول ایک قابل مسلمان ڈاکٹر ہے۔ وہ جوزف کے گھر شفٹ ہوتی ہے، کنول نہ صرف اپنی خدمات بہتر طریقے سے انجام دیتی ہے بلکہ عبادات میں بھی جوزف کے لیے دعا کرتی ہے، آخر کار جوزف ٹھیک ہوتا ہے، لیکن کنول کی محنت اور لگاو جوزف کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، ساتھ ہی وہ کنول کے دین یعنی اسلام کا مطالعہ بھی کرتا ہے، وہ کنول کو شادی کا آفر کرتا ہے، حادثہ سے قبل اس کی ملاقات اچانک جہاز میں عبداللہ سے ہوتی ہے، وہ ایک ہی ملاقات میں اس سے متاثر ہوتا ہے، کنول سے دلچسپی کے بعد اس نے عبداللہ کی ویب سائٹ پر اسلام کی تعلیمات دیکھنا شروع کیں، اس نے ساتھ ہی قرآن کریم کا مطالعہ بھی کیا، اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہ اسلام قبول کرتا ہے اور جب وہ اپنا فیصلہ کنول کو سناتا ہے تو وہ کہتی ہیں ’’جوزف، مذہب بدلنا ایک سادہ معاملہ نہیں، اس کے سماجی اور تہذیبی نتائج ہوتے ہیں، پھر میں اتنے دن تمہارے گھر میں رہی ہوں، تمہارے والد کو جانتی ہوں، اس پس منظر میں تمہارے لیے یہ کرنا بہت مشکل ہوگا، اگر مجھ سے شادی کے لیے یہ کیا ہے تو پھر اس کام کے نتائج کا سامنا نہیں کرسکو گے، اس لیے جذبات میں آکر کوئی فیصلہ نہ کرو۔‘‘ (صفحہ 133) لیکن جوزف نے شعوری طور فیصلہ کیا تھا، بالآخر وہ شادی کرتے ہیں، قبول اسلام اور مسلمان لڑکے سے شادی؛ وہ بھی وہ شخص جو بہت ہی اہم عہدے پر فائز ہونے والا تھا؛ اس کو وہ کیسے برداشت کرتے۔ بہرحال وہ لوگ کنول کو شہید کرتے ہیں۔ جوزف (یوسف) تنظیم سے بدلہ لینا چاہتا ہے اس نے منصوبہ بھی بنایا، اس سلسلے میں وہ عبداللہ سے ملتا ہے۔ وہ یوسف کو سمجھاتا ہے کہ بدلہ لینے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بہترین انداز میں سمجھاتا ہے کہ کرنے کا کام یہ ہے کہ ’’تنظیم کے مقابلے میں خدا کو اپنے ساتھ ملا لیں، خدا سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ ‘‘ (صفحہ 200)، سورہ یوسف کی عملی تعبیر سے یوسف کو واقف کراتے ہیں، یوسف کے ہر سوال کا بہترین جواب دیتے ہیں ، وہ جب عبداللہ سے کہتا ہے کہ تنظیم مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو عبداللہ جواب دیتا ہے’’ دیکھو، اگر تمہیں مسلمانوں سے حقیقی محبت ہے تو اس محبت کا درست طریقہ یہ ہے کہ انھیں ایمان و اخلاق کے راستے کی طرف بلاؤ ، تنظیم کچھ نہیں ہے، یہ تو خدا کا عذاب ہے جو مسلمانوں کے جرائم کی بنا پر ان پر نازل ہوا ہے۔ ‘‘ ( صفحہ 205) لیکن یوسف کے دل میں انتقام تھا۔ وہ تنظیم کے خلاف منصوبہ بنانے لگا لیکن تنظیم کے پاس وسائل بہت زیادہ تھے لہذا وہ کامیاب نہ ہوا،الٹا تنظیم نے ان کے خلاف کارروائی کی، بہرحال وہ پھر عبداللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ عبداللہ اس کو دعوت دین کے کام میں لگاتا ہے۔ یہ تو ماضی کی کہانی ہے جو ادھوری رہ جاتی ہے۔ مصنف ساتھ ہی اصل زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے؛ اس کا نقشہ بھی کھینچے ہیں کہ کس طرح ان کہانیوں کو آخرت میں پورا کیا گیا، کہانی اس خوبصورتی سے ترتیب دی گئی ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں ناول کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ناول کی خصوصیت ہے کہ اس میں کئی سوالات کے جوابات ہیں جو اکثر انسانوں کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن معاشرہ کے خوف کی وجہ سے وہ یہ سوال پوچھنے سے کتراتا ہے۔ ساتھ ہی جنت کے مختلف مراحل، جہنم کا منظر اور کئی اشکالات کا جواب ہے، یہ کتاب دکھی دلوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ خاص کر آج کل جب امت مسلمہ کی حالت خستہ ہے۔ یہ کتاب عروج کا راستہ بھی دکھاتی ہے، ماضی اور مستقبل کی یہ کہانی معمولی کہانی نہیں، عہدِ الست کے بارے میں مصنف نے خوبصورتی سے سمجھایا ہے اور کئی اشکالات کو دور کیا ہے، عام طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان کو دنیا میں صرف مسائل ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ اس کی زندگی دین دار زندگی تھی، کنول جس کے والدین بھی نہ تھے؛ جس نے انتہائی محنت کی اور جب اس کو ایک سچا پیار کرنے والا یوسف ملا تو اس کو قتل کیا گیا؛ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مصنف عبداللہ کی زبان سے جنت کے مقربین درجہ میں بیٹھی کنول؛ جس کے نیچے اصحاب الیمین کے بہت سے درجات تھے؛ سے مخاطب ہوتے ہوئے سمجھاتے ہیں ’’بے شک تم نے پچھلی دنیا میں بہت دکھ دیکھے تھے مگر تم غور تو کرو انہی محرومیوں، دکھوں، اذیتوں اور تکلیفوں کی بنا پر آج تم خدا کی قربت کے اس مقام پر پہنچی ہو، یہ تمہاری انوسنمنٹ تھی جو تمیں اربوں کھربوں گنا بڑھا کر تمہیں لوٹادی گئی ہے، تم سوچو کہ فانی زندگی کے دکھ ختم ہوگیے، مگر ابدی زندگی کے سکھ تمیں دے دیئے گیے، جنت میں کتنے لوگ ہیں جو پچھلی دنیا میں تم سے کہیں زیادہ نیکیاں کرتے ہیں اور تم اتنے اونچے مقام پر پہنچ گئی ہو۔ تمہیں تمہاری محرومیوں نے یہاں تک پہنچایا ہے۔‘‘(صفحہ 60)
عام طور پر ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ جنت جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی، جہاں موت کبھی نہیں آئے گی وہاں کی زندگی کیا بوریت کی زندگی نہیں ہوگی؟ جب موت ہی ختم ہوگی تو زندگی کا حسن بھی ماند پڑھ جائے گا، جنت میں اہل جنت کیا کیا کریں گے اور زندگی کس قدر خوش گوار ہوگی؛ اس کے بارے میں مصنف نے تمثیلی طور پر قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بظاہر وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے اکثر مسائل خود ان ہی کی غفلت کی وجہ سے ہیں لیکن یہ کہنا کہ باہر کے مسائل ہیں ہی نہیں ایسا بھی درست نہیں مصنف لکھتے ہیں ’’مسلمان کو خارج سے کوئی نقصان نہیں پہچ سکتا، مسلمان دنیا کے سب سے خوش نصیب لوگ ہیں، عالم کے پروردگار نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے، چنانچہ بطور امت وہ محفوظ ہیں، انہیں کوئی ختم نہیں کر سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس خوش نصیبی کو بھول کر اپنے سیاسی اور فرقہ وارانہ نظریات، اپنی خواہشات اور تعصبات میں لگ گئے ۔..‘‘ (صفحہ 266) مسلمان لیڈر شپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’…. ان کے مسائل وہی ہیں جن کے لیے تم پریشان ہو رہے تھے، یعنی غیر مسلموں کی سازش، غیر مسلموں کے غلبے سے نجات پاکر اپنا غلبہ قائم کرنا، جو لوگ یہ نہیں کرتے وہ فرقہ واریت، ظاہر پرستی اور بدعات و توہمات کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں ‘‘(صفحہ 267)-
بہرحال فکر آخرت کو پیدا کرنے کے لیے ابو یحییٰ کی یہ سیریز نہایت ہی اہم ہے، مسلمانوں کو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی یہ کتابیں پڑھانی چاہیے. ہندوستان میں یہ کتاب ’الرحمن فاونڈیشن کرناٹک‘ نے عمدہ طباعت میں چھاپی ہے اور 350 صفحات کی قیمت صرف 200 روپے ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022