اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاو

مسلمخواتین اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب

نہال صغیر، ممبئی

ممبئی کے جھوپڑ پٹی علاقے میں بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی قابل ِتقلید کوشش
مسلمانوں پرپسماندگی اور جہالت کا داغ لگایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمان تعلیم کے حصول میں دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کو نہ تو پڑھاتے ہیں اور نہ ترقی کے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اسی طرح سے ایک اور الزام ان پر یہ بھی ہے کہ وہ سماجی خدمات کے میدان میں بھی بہت پیچھے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ تعلیم و ترقی کے میدان میں مسلم بچے ہی نہیں بچیاں اور خواتین بھی اپنی اہمیت منوانے اور تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہیں تو سماجی خدمات کے میدان میں مسلمان کیا کرسکتے ہیں وہ لاک ڈائون میں انہوں نےاپنے حصہ کا کھانا بھی مسافروں اور پردیسیوں کو کھلا کر دکھا دیا ۔
ادھر کئی برسوں سے مسلم بچیوں کے ذریعہ کامیابیوں کی کئی خبریں ذرائع ابلاغ میں آتی رہی ہیں ۔جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اور بھی بہت سی خبریں ہوتی ہیں جو نہیں آپاتیں ۔ ابھی حالیہ دنوں میں ایسی کئی خبروں نے خوشگوار احساس دلایا ۔ جیسے ایک خبر کشمیر کی ایک قبائلی خاتون ڈاکٹر مہرالنسا کوہلی کی آئی جس نے آئی آئی ٹی ممبئی سے ایم فل مکمل کیا اور بایو سائنس و بایو انجینئرنگ پر ایک کتاب بھی تحریر کی ۔اسی طرح سے پونے کے جھونپڑ پٹی کی ایک طالبہ جج کا امتحان پاس کرکے ضلع جج بن گئی ۔ پونے کی شاہنواز پٹھان پہلی مسلم خاتون ہے جو فرسٹ کلاس جج کے عہدہ تک پہنچی ہے ۔ اس کے والد امان خان پٹھان کی پونے کے لوہیا نگر میں ایک چھوٹی سی دکان ہے ۔ ان کی چار بیٹیاں ہیں اور انہوں نے وسائل کی کمی کے باوجود چاروں کو اعلیٰ تعلیم دلائی ہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ مسلمانوں میں کہیں بھی لڑکیوں کے تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے مگر مذکورہ خبر لکھتے ہوئے زی نیوز نے مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی کا رونا روتے ہوئے یہ نکتہ جوڑدیا کہ آج بھی اقلیتی طبقہ میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ لڑکیاں زیادہ تعلیم حاصل نہ کریں ۔یہی زی نیوز کرناٹک میں حجاب کے ایشو پر مسلم بچیوں کو نشان بناتا ہے خود سدھیر چودھری ڈی این اے نامی پروگرام میں زہر اگلتا رہتا ہے۔اسی طرح کی خبریں چھتیس گڑھ اور بہار سے بھی آئی ہیں جہاں باحجاب مسلم لڑکیوں نے جج بننے کا خواب پورا کیا ۔ ایک جانب مسلم لڑکیوں کی کامیابی کا یہ گراف ہے تو دوسری جانب کرناٹک میں باحجاب مسلم لڑکیوں کوڈریس کوڈ کے نام پر تعلیم سے روکنے کی حکومتی سطح پر کوششیں ہورہی ہیں ۔
ایک خبر ممبئی کے میرا روڈ سے ہے جہاں ایک مسلم خاتون گزشتہ دس برسوں سے جھونپڑ پٹی کے بچوں کو فٹ پاتھ پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہی ہے ۔ یاسمین پرویز خان میرا روڈ کے کنکیا علاقہ میں فٹ پاتھ پر بچوں کو پڑھاتی ہیں ۔ ان کے شوہر وپرو میں پروجیکٹ منیجر ہیں ۔ وہ خود ڈی ایڈ ہیں اور گھر پر بھی بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں ۔یاسمین بتاتی ہیں کہ شروع میں تو صرف دو بچوں کو انہوں نے پڑھانا شروع کیا تھا ۔ گھر والوں کو کوئی اعتراض تو نہیں تھا مگر وہ راستہ پر پڑھانے کے سبب تھوڑی سی شکایت کرتے تھے کہ راستہ پر پڑھانا کیسا لگے گا ۔ وہ بتاتی ہیں کہ گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت کی بجائے ان کا رویہ معاونت کا تھا ۔ فی الوقت چالیس سے پینتالیس بچے تعلیم پارہے ہیں ۔
شروع شروع میں جھونپڑ پٹی کے بچے پڑھنے پر توجہ ہی نہیں دیتے تھے ، مگر مسلسل کوششوں سے ان میں بھی تعلیم کے تئیں دلچسپی پیدا ہوئی ۔ وہ بچوں کو ابتدائی تیاری کے بعد کسی اسکول میں داخل کرادیتی ہیں ۔اب تک وہ کئی بچوں کا داخلہ سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں کراچکی ہیں ۔ بے حد غریب بچوں کی فیس کے لیے وہ کسی کو کہتی ہیں تو وہ شخص بچوں کی فیس ادا کردیتا ہے ۔ ہفتہ میں ایک دن وہ بچوں کو کھانا بھی دیتی ہیں ۔ کسی باحجاب خاتون کے ذریعہ یہ اپنی طرز کا شاید پہلا کام ہے ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آخر اس طرح کا خیال کیسے آیا کہ بچوں کو پڑھایا جائے ؟ یاسمین کہتی ہیں کہ مجھے ان کی مدد کرنے کا خیال آیا تو میں نے غور کیا کہ ان کی کیا مدد کی جائے؟ میں نے کافی غور و فکر کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں کوئی بھی دوسری چیز دینے سے وہ ایک وقت کے بعد ختم ہوجائے گی ، اس لئے انہیں ایسی چیز دی جائے جو ختم نہ ہو اور ان کی زندگی کو روشن و تابناک بنادے اوروہ چیز تعلیم سے بہتر کیا ہوسکتی ہے ؟
یاسمین اس سلسلے میں کسی سے کوئی عطیہ نہیں لیتی، حالانکہ اس طرح سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر پڑھاتا دیکھ کر لوگ ان کو پوچھتے ہیں کہ اگرکسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیں ۔ انہیں صرف کتابیں کاپیاں اور پنسلوں کی ضرورت پڑتی ہے جسے وہ وہاں چسپاں بورڈ پر لکھ دیتی ہیں اور آدھے ایک گھنٹے کے بعد کوئی نہ کوئی شخص یہ سامان لاکر دے دیتا ہے ۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے یوں سڑک کے کنارے پڑھانے کا سلسلہ یہی یہ سوچ کر کیا کہ جو بھی ضرورت ہوگی وہ فوری طور سے پوری ہوجائے گی۔اس کام میں افراد خانہ کی معاونت کے علاوہ مقامی لوگوں اور تنظیموں کا تعاون بھی انہیں حاصل ہے ۔ ان کے اس کام کو سراہتے ہوئے انہیں مقامی تنظیموں کی جانب سے اب تک چالیس ایوارڈ دیے جاچکے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سب سے زیادہ تعاون انہیں صحافیوں کی طرف سے ملا ۔
یاسمین کا یہ کام واقعی قابل تعریف ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت ان بچوں کیلئے دے رہی ہیں جن کے والدین یا تو تعلیم دلانے کیلئے وسائل نہیں رکھتے یا پھر وہ تعلیم کی اہمیت سے ہی واقف نہیں ہیں ۔ وہ چاہتیں تو انہی اوقات میں وہ مزید ٹیوشن کرکے پیسے کماسکتی تھیں ۔ لیکن وہ سماج و معاشرے کے تئیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھتی ہیں۔ اسی احساس نے انہیں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بچوں کو پڑھانے پر مجبور کیا جہاں ان کی کل کائنات کچھ چٹائیاں اور ایک بورڈ ہے ۔یاسمین کی طرح اور دوسرے لوگ بھی اگر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو معاشرے سے غربت اور پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔مگر یہاں صرف باتیں کی جاتی ہیں ۔بقول احمد فراز ؎
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
یاسمین نے ظلمت کا رونا رونے کےبجائے اپنی حصہ کی شمع روشن کردی ہے۔ اب مزید لوگوں کو بھی آگے آکر اسی طرح غربت و پسماندگی کے لیے اپنا وقت دینا چاہیے۔ پونے کی شاہنواز پٹھان کا جج بننا اور میرا روڈ کی یاسمین پرویز خان کا فٹ پاتھ پر جھونپڑ پٹی کے بچوں کو پڑھانا یہ احساس دلاتا ہے کہ غربت ، پسماندگی اور وسائل کی کمی کا رونا رونے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ اس کیلئے کچھ عملی اقدام اٹھانے پڑتے ہیں ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022