قرآن میں معاشیات و مالیات

تکوین و تقسیم دولت کے لیے نئی تحریک کی ضرورت

ایچ عبد الرقیب

ارشاد ربانی ہے ’’اے ایمان والو جب تم کسی معین میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جب اللہ نے اسے یہ علم دیا ہے تو اسے لکھنا چاہیے۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہورہا ہو، اور اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (حق) میں کوئی کمی نہ کرے۔ ہاں اگر وہ شخص جس کے ذمے حق واجب ہورہا ہے ناسمجھ یا کمزور ہو یا (کسی اور وجہ سے) تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا سرپرست انصاف کے ساتھ لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، ہاں اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہوجائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ اور جب گواہوں کو (گواہی دینے کے لیے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں، اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے سے اکتاؤ نہیں۔ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑو گے۔ ہاں اگر تمہارے درمیان کوئی نقد لین دین کا سودا ہو تو اس کو نہ لکھنے میں تمہارے لیے کچھ حرج نہیں ہے۔ جب خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو اور نہ لکھنے والے کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے نہ گواہ کو۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہوگی، اور اللہ کا خوف دل میں رکھو، اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘( البقرۃ :282)
قرآن مجید میں چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی آیت، سورہ البقرۃ کی یہی مذکورہ بالا آیت ہے، جسے آیتِ دین بھی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کے معاشی، اقتصادی اور مالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ باہم لین دین کا معاملہ ایک متعین وقت کے لیے ہو تو لکھ لیا کرو۔ آج سے چودہ سو سال پہلے جب کہ سماج میں گنتی کے چند ہی افراد لکھنے اور پڑھنے پر قادر ہوتے تھے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کریں۔ علم اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اس نعمت کا استعمال دوسروں کے لیے کرنا چاہیے۔
دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دستاویز کا املا کون کرے۔ آج کے دور کی طرح قرض دینے والا نہیں بلکہ مقروض جو فریقین میں کم زور ہوتا ہے اور جس پر قرض دینے کا حق ہے وہ اللہ سے ڈر کر معاملہ کے عین مطابق املا کروائے۔
اگر مقروض بیمار ہے، ناسمجھ اور معذور و مجبور ہے تو دوسرے کاتب کی خدمات حاصل کرکے اسے املا کرایا جائے، جو عدل و انصاف سے لکھے۔ کاتب کو لکھنے سے پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اس دستاویز پر دو لوگ گواہی کے لیے بلائے جائیں۔ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لی جائے۔ اس لیے کہ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔
یاد رہے کہ چھوٹے بڑے جزئیات بھی دستاویز کے دفعات میں شامل ہوں۔ تحریر صاف اور شک سے بالا تر ہو۔ (أَلاَّ تَرْتَابُوا) اس بات کا بھی خیال رہے کہ کاتب کو اور شہادت دینے والوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ عرب کے اس سماج میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، انہیں قرض کے لین دین کے معاملات کے ایک اہم مرحلے میں گواہی دینے کا موقع دے کر ان کے مقام و مرتبے کو اونچا اٹھایا گیا ہے۔
گویا قرض لینے والے کم زور سوسائٹی کے فرد کو املا کروانے کا حق دے کر اور خواتین کو قرض کی دستاویز میں گواہ کی حیثیت سے شامل ہونے کا حق دے کر قرآن سماج کے کچلے اور دبے ہوئے حصے کو ایک معتبر اور با عزت مقام عطا کیا ہے۔
آیتِ دین کے علاوہ قرض کے علاوہ چند ارشادات رسول ﷺ بھی ملاحظہ فرمائیں:
٭ جوشخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اس طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے، جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے۔ (بخاری)
٭ قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)
٭اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، مگر قرض معاف نہیں کرتا۔(مسلم)
مال کے تعلق سے صحیح اور متوازن تصور
قرآن مجید نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ (النساء:۵)، مال کو خیر (العادیات) اور اللہ کا فضل (الجمعہ:۱۰) قرار دیا ہے۔ مال و دولت انسانی معاشرے کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے معاشرے کی ترقی کے لیے مال و دولت کے
متعلق ایک صحیح اور متوازن فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘(الجمعۃ:۱۰)
’’(حج کے دوران) تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (البقرۃ:۱۹۸)
’’پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو‘‘ (فاطر: ۱۳)
تجارت، زراعت، صناعت اور ہر جائز وسیلے سے مال کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے ہاتھ پاؤں مار کر محنت و مشقت کرکے روزی روٹی حاصل کرنے اور مال کمانے کی ترغیب دی ہے اور یہ مژدہ سنایا ہے:
’’اچھا مال، اچھے انسان کے لیے اچھا ہے۔‘‘(صحیح البخاری، الادب المفرد)
اس کے برخلاف دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے عزلت نشین بننے کے بجائے دنیا میں رہ کر اور دنیا کے لوگوں سے مل کر ان کے ساتھ لین دین کرکے مال کمانے، پھر حاصل شدہ مال کو خود اور اللہ کی راہ میں اور محتاج اور ضرورت مند انسانوں میں خرچ کرکے دنیا میں عزت و شرف اور آخرت میں بھی مقام بلند حاصل کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔
معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہونے پر اسلام کتنا زور دیتا ہے اس کا اندازہ حضرت انسؓ کی ایک مشہور حدیث سے ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’اگر قیامت ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور اگر اس کے بس میں ہو کہ کھڑا نہ ہو جب تک کہ اس کو لگا دے تو چاہیے کہ اس پودے کو لگا دے۔‘‘(مسند احمد)
اسی طرح کی ایک حدیث حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ:
’’ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے، ہمارے پاس ایک پھر تیلا نوجوان گزرا جو غنیمت میں حصے کے طور پر ملے مویشی کو لیے جا رہا تھا۔ تو ہم بول پڑے کہ اگر اس کی جوانی و سرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ ہماری یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپؐنے فرمایا: تم کیا کہہ رہے تھے؟ ہم نے بتایا کہ یہ اور یہ۔ آپؐنے فرمایا: اگر وہ والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لیے بھاگ دوڑ کرے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہو گا اور اگر وہ اہلِ دنیا کے کے لیے تگ و دو کر رہا ہو، تاکہ ان کی کفالت کر سکے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا اور اگر اپنی ذات کے لیے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوگا۔‘‘(بیہقی)
نبی کریم ﷺ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد ہے:
وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَأَغْنَی(الضحیٰ:۸)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھی حضرت ابو بکرؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے ابو بکر کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خادم خاص حضرت انسؓ کے لیے یوں دعا فرمائی:
’’اے اللہ ان کو مال فراواں دے۔‘‘
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مال کمانے میں جائز اور جائز وناجائزکی تمیز نہیں کی جا رہی ہے۔ جھوٹ دھوکہ، رشوت، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی کا عام چلن ہے اور کسبِ معاش میں حرام و حلال کے حدود و قیود کا پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے رسول کے گھر والو! عمدہ اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔‘‘ (المومنون: ۵۱)
یعنی علماء نے تشریح کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل صالح سے پہلے رزق حلال اور طیب چیزوں کے کھانے کا ذکر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اعمال صالحہ کی قبولیت کا دار و مدار رزق حلال پر ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ حلال رزق کے حصول کو دین کی اولین ذمہ داری سمجھے۔ مال کے حصول اور استعمال کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے:
’’یہ مال ہرا بھرا اور دل آویز ہے۔ جو شخص اسے جائز طریقے سے حاصل کرے گا اس میں برکت ہوگی اور جو شخص اسے ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی، اور وہ اس شخص کے مانند ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔‘‘
حرمت سود
اللہ فرماتا ہے: اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سودی مطالبات باقی رہ گئے ہیں ان کو اگر تم درحقیقت مومن ہو چھوڑدو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی وارننگ دی جاتی ہے۔ اگر تم توبہ کرو اور سودی معاملات سے باز آجاو تو تمہارے راس المال تمہارے ہیں وہ تم کو ملیں گے۔ نہ تم زیادتی کرو نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے (البقرۃ:۲۷۸۔۲۷۹)
سود کی مذمت اور اس کے اجتناب کی تلقین میں اسلام اس حد تک سخت ہے کہ اس معاملہ میں جو کوئی کسی طرح شریک ہو چاہے اس کا دستاویز لکھنے والا ہو یا اس پر گواہی دینے والا، ان سب پر وہ لعنت بھیجتا ہے۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اس پر گواہی دینے والوں سب پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔
اسلام محنت کی عظمت اور تقدس کو اہمیت دیتا ہے اور اسے ملکیت اور نفع کی اساس قرار دیتا ہے، وہ اس بات کو روا نہیں رکھتاکہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والا فرد مال کا حق دار ٹھہرے یا دولت، دولت پیدا کرے۔ دولت صرف محنت سے پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہ مال حرام قرار پاتا ہے۔
حرمت سود میں ایک اور حکمت مضمر ہے جو آج ہم پر دور جدید میں منکشف ہو رہی ہے اور غالباً اس سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی وہ یہ کہ سود ایک ایسا عامل ہے جو سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ کرتا جاتا ہے۔ یہ اضافہ نہ کسی سعی وجہد کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کسی طرح کی محنت کا ثمرہ۔سود کی یہ صفت ایسی ہے جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ افزائش دولت کے سلسلہ میں تمام تر اسی ایک ذریعہ پر انحصار کر بیٹھیں۔ نتیجہ اس طبقہ میں سستی کاہلی، مسرفانہ عیاشی اور بدکاری پھیل جاتی ہے اور یہ سب کچھ ان محنت کشوں کے بل پر جو دولت کے محتاج ہوتے ہیں اور تنگی کے عالم میں مجبور ہو کر سودی قرض لیتے ہیں۔ اس طرح دو خطرناک اجتماعی امراض سر اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ اور انسانیت کی بلند وپست دو طبقات کے مابین روز افزوں تفریق جو کسی بھی حد پر جا کر رکنے کا نام نہیں لیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کھانا اسلامی تصور زندگی کے اس بنیادی اصول سے ٹکراتا ہے کہ مال اللہ کا ہے جس میں اس نے انسانوں کو نائب بنایا ہے۔ ان شرطوں کے تحت کہ نائب بنانے والے اللہ کا منشا پورا کیا جائے نہ کہ انسان جو چاہے کرے؟
بین الاقوامی مالی ادارے مثلا IMF اور ورلڈ بنک آسان شرطوں پر امداد کے نام پر سودی قرضے فراہم کر کے ترقی پزیر اور کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور ان کے عالمی تعلقات کو اپنے مفاد میں کنٹرول کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی بیشتر آبادی قرضوں کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہی ہے۔ لاطینی امریکہ میں پیدا ہونے والا ہر متنفس۱۶۰۰ ڈالر کے قرضے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ افریقہ جنوبی صحار اSahara کے ممالک میں پیدا ہونے والے ہر بچے پر ۳۳۶ ڈالر کا قرضہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ سود کی شکل میں ان کی آباء واجداد ۵ کھرب اور ۶۷ ارب ڈالر ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ ۲۰۰۰ء تک وہ اصل رقم کا چھ گنادے چکے ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان کے ذمے ۲۰ کھرب ۷۰ ارب ڈالر کا قرض باقی تھا۔ ملک عزیز کے بارے میں تلنگانہ کے وزیر صنعت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راو نے کہا ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں ملک کا قرض ایک سو لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے اور ہر ہندوستانی شہر پر 1.25 لاکھ کا قرض ہے۔
نظم زکوٰۃ اور سورۃ التوبہ
سورہ توبہ کی آیت ۱۰۳ میں فرمایا گیا ہے:
‏اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو۔
پھر آیت ۶۰ میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ زکوٰۃ کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت فرمائی کہ حاصل شدہ زکوٰہ کے خرچ کرنے کے مدات کیا ہیں؟
’’صدقات (یعنی زکوٰۃ) اللہ کی طرف سے فرض ہے فقراء کے لیے، مساکین کے لیے، گردن چھڑانے کے لیے، قرض داروں کے لیے، راہ خدا اور مسافروں کے لیے۔ اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (آیت:۶۰)
در اصل زکوٰۃ صرف انفرادی طور پر صدقات اور خیرات کو تقسیم کرنے کا نام نہیں ہے اور نہ اس کی تقسیم کو امیروں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور فلاحی ادارہ ہے، جس کی نگرانی حکومت وقت کرے گی اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے عوامی ادارہ حکومت یا کسی منظم مجمع کے تحت وجود میں آئے گی۔
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ان کے مالوں میں سے صدقہ حاصل کرو اور انہیں پاک کرو اور ان کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو بڑھاؤ۔ اس میں خذ (حاصل کرو) کا خطاب نبی ﷺ سے ہے بہ حیثیت سربراہ مملکت، اور اس پر عمل خلیفہ نے بہ حیثیت خلیفہ رسول کیا ہے۔ علماء و فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ’خذ‘ کا اطلاق اولا نبی کریم ﷺ پر تھا اور آپ کے بعد ہر شخص جو ملت کا ذمہ دار ہے یا وہ معتبر ادارہ جس پر ملت کا بھر پور اعتماد ہو۔
زکوٰۃ اسلام کا تیسرا اہم ستون ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے مالوں، حکومت اور معاشرہ کے ذمہ داریوں میں فقراء و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی۔ آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو الحمد للہ، کلمہ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لیے محنت ہو رہی ہے، نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے، نہ صرف فرائض بلکہ نوافل میں چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح اور تہجد پر زور دیا جا رہا ہے۔ رمضان کے روزوں کے رکھنے حتیٰ کہ شوال کے چھ روزے اور عاشورہ کا روزہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہے اور عمرہ کا بھی خوب اہتمام ہو رہا ہے، لیکن ایتائے زکوٰۃ جو پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے در اصل امت کے فقراء و مساکین کا بھی حق ہے، اس کی طرف توجہ کی کمی ہے۔ حال یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور ان آٹھ مدات میں جہاں اس رقم کو خرچ ہونا ہے، اس سے امت کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔
چند سال پہلے ممبئی کے مؤقر ادارہ (AMP) نے ملک گیر سروے کر کے زکوٰۃ کی صورتِ حال معلوم کرنے کی کوشش کی تو چونکا دینے والے اعداد و شمار منظر عام پر آئے:
30% مسلمانوں کو معلوم ہی نہیں کہ زکوٰۃ کیا ہے۔ 40% لوگوں کو نہیں معلوم کہ اپنے مال اور اثاثہ میں سے زکوٰۃ کا اندازہ کیسے کرنا ہے۔ 60% لوگ ایسے ہیں جنہیں ہر سال، افراد، ادارے اور خاندان کے لوگ زکوٰۃ دیتے آرہے ہیں، جو برسوں سے زکوٰۃ کی رقم حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ 70% افراد کی خواہش ہے کہ زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کر کے بہتر انداز سے اس کی تقسیم سارے ہی مدات میں خرچ کی جائے۔
ہمیں اس کی بھی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اجتماعی نظم زکوۃ کس طرح کامیابی کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔ ملایشیا میں غریبوں کو زکوۃ سے فائدہ اٹھانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں پیدا واری غریب (Productive Poor) اور اور غیر پیداواری غریب ( Non Productive) کا نام دیا گیا ہے۔ غیر پیداواری غریب سے مراد عمر رسیدہ، بوڑھے، اپاہج، دائم المریض وغیرہ ہوتے ہیں جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے۔ ان کی مستقل اور مسلسل مدد کی جاتی ہے۔ ان پر زکوۃ کا 20-25 فیصد صرف ہوتا ہے، البتہ باقی 75-80 فیصد پیداواری غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں ایسے مرد و خواتین ہوتے ہیں جو سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اپنا کاروبار نہیں کر سکتے۔ بعض ایسے ہیں جن کو اگر ہنر سکھایا جائے اور اس کے لئے مدد کی جائے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کچھ ایسے طبقہ بھی ہوتے ہیں جنہیں مشین یا آلہ و اوزار فراہم کیے جائیں تو وہ خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ ان کی مدد مسلسل اور مستقل نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کی درخواستوں اور ضرورتوں کے پیش نظر بڑی رقم یکمشت یا قسط وار زکوۃ کی رقم سے دی جاتی ہے ۔ اس طرح Entrepareneur ship کے فروغ کے ذریعہ انہیں بہت جلد کفیل بنا کر مستحق (زکوٰۃ لینے والے) کو مزکی (زکوہٰ دینے والا) بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔
جنوبی افریقہ کے اجتماعی نظم زکوۃ کی تنظیم SANZAF کو دو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با صلاحیت خواتین فیروزہ محمد اور یاسمین فرانیک چلاتی ہیں اور اس ادارہ میں 52 فیصد کارکنان خواتین ہیں اور دنیا کے مشہور کیمبرج انسٹی ٹیوٹ کا ( 3a) Glade Good Governance بھی اس ادارہ نے حاصل کیا ہے جو ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ زراعت کے ذریعہ سے جو آمدنی ہو سکتی ہے اس کے بارے میں عشر اور اس کو Calculate کر کے اسے بھی صحیح طریقہ سے مختلف مدات پر خرچ کرنے کی طرف مسلم عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرآن میں پیغمبروں کے واقعات اور معاشی میدان میں سرگرمیاں
٭ حضرت شعیب علیہ السلام مدین شہر کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ مدین تجارتی قافلوں کے سفر کے درمیان ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ وہاں انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ اے میری قوم، اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ میں تمہیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں اور تم پر گھرنے والے دن کے عذاب کا خوف بھی۔
اے میری قوم، ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کرو کہ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ پھیلاؤ ۔ اللہ کا حلال کیا ہوا اور جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان دار ہو۔
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب کیا تیری صلوۃ (نماز) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں
(ھود 85-87)
اللہ کی عبادت نماز اور ناپ تول میں کمی بیشی کے درمیان کیا تعلق ہے اس کو واضح کیا جا رہا ہے۔ عبادات کو معاملات اور خاص طور پر مالی معاملات سے علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو قرآن ’احسن القصص‘ قرار دیتا ہے اور تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے کہ مصر میں قحط کی وجہ سے پریشان حال قوم کے سامنے یوسف علیہ السلام کی صلاحیتوں کا علم حاکم کو ہوا تو اس نے کہا : اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لیے مقرر کروں۔ پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگے کہ آپ ہمارے یہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہا، آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں (اجعلنی علی خزائن الارض، انی حفیظ علیم) اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک کا قبضہ دے دیا (و کذلک مکنا لیوسف فی الارض) یہ واقعہ قرآن مجید میں ایک جلیل القدر پیغمبر کے ملک کے Food Crisis کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے میں انبیائی مشن کو نمایاں طور پر پیش کرتا ہے۔
حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ سورہ کہف میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے جو قابل غور ہے۔ دونوں دوران سفر ایک گاؤں پہنچے اور وہاں اپنے لیے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی سے صاف انکار کر دیا۔ وہاں ایک گھر میں ایک دیوار کو دیکھا جو گرا چاہتی ہے۔ اسے ٹھیک اور درست کیا۔ قصہ یہ تھا کہ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ (کنز) دفن تھا جسے ایک صالح باپ نے اپنے دو یتیم بچوں کو بڑے ہونے کے بعد اپنی زندگی میں استعمال کرنے کے لیے چھپا رکھا تھا۔ حضرت خضرؑ نے موسیؑ کو بتایا کہ یہ کام انہوں نے اللہ کا حکم سے کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بوڑھے باپ نے آئندہ کے لیے اپنے دو یتیم بچوں کی آئندہ کی بہتر زندگی کے لیے پوشیدہ رکھا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ شخص صالح تھا اور یہ خزانہ اللہ کی نعمت تھی۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ’’ نعم المال الصالح للرجل الصالح ‘‘ ( اچھا مال اچھے انسان کے لیے اچھی چیز ہے : احمد ) اچھے مال کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ حضرت خضر جیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھیجتا ہے اور حضرت موسی تک مال کے تعلق سے صحیح تصور اور اس کی حفاظت اور آئندہ کے استعمال کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
سورہ قریش اور تجارت
عرب قوم ایک تجارت پیشہ قوم کی حیثیت سے مشہور تھی، سورۃ قریش میں اس کی تفصیلات آتی ہیں۔ قریش مکہ سال میں دو تجارتی سفر کرتے تھے یعنی موسم سرما میں یمن کا سفر اور گرما میں شام کا تجارتی سفر۔ قرآن نے سورہ قریش میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انہی اسفار کی وجہ سے ہاشم اور خاندان قریش کو معاشی خوش حالی نصیب ہوئی اور ان کی دینی سیادت کو بھی تقویت ملی۔
قریش کی عورتیں بھی تجارت میں پیش پیش تھیں۔ حضرت خدیجہ ؓ مکہ کی مشہور تاجر تھیں۔ خود نبی کریمؐ ان کا مال تجارت ملک شام میں بصری کی سوق میں فروخت کر کے آئے اور جس دیانت داری اور خوش اسلوبی سے کاروبار کیا، وہ حضرت خدیجہ کو اس قدر پسند آیا کہ وہ آپ کو اپنا رفیقہ حیات بنانے کی سعادت عظمی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو گئیں۔ ابو جہل کی ماں عطار تھی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ شام کے قبیلہ قلب میں اپنا تجارتی سامان فروخت کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک بار حضرت عمر سے بیت المال سے چار ہزار قرض لیا اور اس سے مال تجارت خرید کر بلاد کلب گئیں تاکہ تجارت کرکے نفع کمائیں۔ ابو سفیان کہا کرتے تھے ’’مکہ کا کوئی قریش مرد اور عورت ایسا نہیں تھا جس کے پاس نصف اوقیہ یا زیادہ مال رہا ہو اور اس نے ہمارے ساتھ نہ روانہ کردیا ہو۔ (نبی کریم کی معاشی تعلیمات ؛ ڈاکٹر نور محمد غفاری)
’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام۔‘‘(البقرۃ:۲۷۵)
تجارت کے بارے میں سورۂ قریش میں اس دور کی تجارتی سفر کی تفصیلات بتائی گئی ہے۔ مدینہ آںے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے یہودیوں کے معاشی استحصال اور احتکار کا مقابلہ کرنے کے لیے ’سوق المدینۃ‘ قائم کی، جو سیرتِ رسول ﷺ کا ایک تاب ناک باب ہے۔ آپؐنے ارشاد فرمایا: الجالب الیٰ سوقنا کا لمجاھد فی سبیل اللہ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، بلاذری) ’’جو ہمارے اس بازار میں مال لے کر آئے گا وہ اسی طرح کے اجر کا مستحق ہو گا جس طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ وہ مدینہ مارکیٹ کا جائزہ لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے تھے۔ ایک بار آپؐ ایک تاجر کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپؐنے غلہ کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اندر کا حصہ گیلا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: ’یہ کیا ہے؟‘ اس نے کہا: حضور، بارش کی وجہ سے بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’پھر اسے اوپر کیوں رکھا؟ ‘اور ارشاد فرمایا: من غشنا فلیس منا۔(مسلم)’’جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
مدیجہ مارکیٹ میں جہاں مردوں کا نام آتا ہے، وہی خواتین کا بھی ذکر ہے۔ مثلاً اسماء بن محربہؓ، خولہ بنت صویبؓ، ملیکہ ام سائب اور قبلہ النماریہ۔(ابن ماجہ، کتاب التجارۃ)
آج مدینہ ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے اور تجارت و صنعت و حرفت نئے طرز اور جدید صورتوں میں نمایاں طور پر ابھر رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان سرمایہ کار اور تکوین دولت کی طرف متوجہ ہوں۔ آج دنیا کی ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر ہی نہیں بلکہ انسان کی فکرکاروباری و فنی ندرت (Business and Technical skils) ہنر مندی (Skill Devolopment) اور کاروباری ندرت (Entrepreneurship) پر منحصر ہے۔ اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کے مدینہ مارکیٹ کے قیام سے سماج کی خوش حالی کے لیے تجارت کے لیے اہم اقدام اس دور میں کیے گئے اور آج ہم کیا کر سکتے ہیں، اس کی طرف ملتِ اسلامیہ کو متوجہ کرایا جانا چاہیے۔
آپؐ کے فرمان: تسعۃ اعشار الرزق فی التجارۃ (رزق کے دس حصوں میں سے نو تجارت میں ہیں اور من صنع منکم شیئاً فلیحسنہ (تم جو چیز بھی تیار کرو، وہ بہترین ہو اور دوسری اشیاء سے ممتاز ہو) سے امت مسلمہ نے دنیا بھر میں تجارت کو فروغ دیا۔ عشرۂ مبشرہ میں سے چار اصحاب: حضرت عثمانؓ، عبد الرحمن بن عوفؓ، زبیر بن العوامؓ اور طلحہ بن عبید اللہ ؓ جہاں ایک طرف میدان کے مجاہد تھے تو دوسری طرف کاروباری دنیا کے نامور ستارے تھے۔ وہ آج کے ارب پتیوں سے زیادہ صاحبِ ثروت تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام تجارت میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے، بلکہ انہوں نے تجارت کو نئے انداز میں اور بڑے پیمانے پر منظم کرکے بین الاقوامی سطح پر فروغ دیا۔ ان کی کارپوریٹ تجارت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمان تاجر دنیا بھر میں پھیل گئے۔ وہاں انہوں نے اسلام کے تبلیغ بھی کی اور رزق حلال کے طریقے دنیا کو سکھائے اور معاشی ترقی میں بھی بھر پور حصہ لیا۔
آج کی دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ اسلامک بینکننگ اور بلا سودی سرمایہ کاری پر غور 2008ء میں امریکہ میں حاشیہ پر زندگی گزارنے والے غریب عوام کے مکانوں کے لیے قرض اور پھر ان کی رہن سہن کی ادائیگی میں ناکامی کے پیچیدہ عمل نے بڑے بڑے مالی اداروں اور جدید بینکوں کو دیوالیہ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ جیسے Sub Prime Mortagage کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس بحران نے ایک طرف جدید معاشی و مالیاتی نظام کے منفی اثرات اور مضر نتائج کو دنیا کے سامنے ابھار کر پیش کر دیا ہے اور دوسری طرف اس نے اسلام کے نظام معیشت و مالیات کی طرف پوری دنیا کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا ہے۔
جدید سرمایہ کاری جو سود اور سٹہ بازی پر مشتمل آزادانہ معیشت کی بنیادوں پر قائم ہے، اس کے پیش نظر پیداوار کے ان اقسام کو بڑھانا ہوتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی معیشت و بینکنگ کا بلا سودی نظام نفع کو بھی پیش نظر رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ حقیقی پیداوار (Real Economy Growth) کو اہمیت دیتا ہے اور انسانی اور اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں حالیہ مالیاتی کساد بازاری (Financial meltdown) اور بحرانی کیفیت سے بڑی حد تک نہ صرف غیر متاثر (Unscathed) رہا، بلکہ اس کی شرح نمو پندرہ فی صد سے بھی زیادہ ہے اور اب حال یہ ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ترقی یافتہ، صنعتی اور سیکولر ممالک نے بھی اپنے سرمایہ اور بینکاری قوانین میں تبدیلی یا ترمیم کرکے اس کا عملی تجربہ شروع کر دیا ہے اور الحمد للہ بلا سودی اسلامی معیشت و مالیات پوری دنیا میں ایک متبادل (Alternate) کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔
لندن پریس، نیویارک، ہانگ کانگ اور سوئٹزر لینڈ اسلامی مالیات و بنکاری کے مراکز بن رہے ہیں تو بمبئی اور کوچین کیوں نہیں؟
الحمد للہ انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF) نئی دلی نے جو ۲۰۰۸ء میں قائم ہوا ہے، مرکزی وزرات خزانہ اور ریزرو بینک آف انڈیا سے تبادلہ خیال کر کے اور مروجہ روایتی بینکوں میں بلا سودی دریچوں (Intrest free Windows) کے قائم کرنے کا تفصیلی منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ اب سیاسی فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا ہے۔ اس کے لیے عوامی بیداری اور اس کے تمام انسانوں کے لیے یکساں نفع بخش ہونا اور ملک کے شان دار معاشی مستقبل کے لیے ضروری ہونے کی طرف مہم چلانے کی ضرورت ہے اور رب کائنات سے اس کے اجرا کے لیے خصوصی استعانت بھی۔
تقسیم دولت اور تصریف دولت
اسلامی نظام معیشت کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مادی (Equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (Equitable) تقسیم چاہتا ہے اور سماج کے محروم طبقہ کا خاص خیال رکھتا ہے۔ اہلِ ایمان کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والوں اور معاشی زندگی سے پیچھے رہ جانے والوں کا) الذاریات: ۱۹)
’’جن کے مال میں حصہ مقرر ہے سائل اور محروم کا‘‘) المعارج: ۲۴۔۲۵)
’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچ کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘(الفرقان:۶۷)
اس سلسلے میں مسلم سوسائٹی میں شادیوں میں جس طرح اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اسے سادہ اور سنت کے مطابق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرہ میں ہم نے اپنے آپ پر دوسرے معاشروں کی پیروی میں بندشیں باندھ لی ہیں اور بوجھ لاد لیا ہے، جو قابلِ مذمت بھی ہے اور اس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔
اس دنیا میں تمام ممالک کے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تحفظ و ترقی کے اجزا مشترک ہیں، جن کے ذریعے غربت کا مکمل خاتمہ، صحت مند انسانی زندگی، بھکمری سے آزادی، صاف ستھرے پانی کی فراہمی اور توانائی کی دست یابی ہو سکے گی۔
دنیا کے مسلم ممالک، انڈونیشیا، ملایشیا، ترکی اور سعودی عرب نے اقوام متحدہ کے ذیلی تنظیم UNDP کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی ہے کہ وہ کس طرح زکوٰۃ اور اسلامی بنکاری اس تاریخی SDG کے اہداف کی تکمیل کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اس میں حصہ دار بن کر اس پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات
معروف اسلامی اسکالر اور بین الاقوامی انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی یہ بات خصوصی توجہ کی طالب ہے جو تکوین دولت (Creation of Wealth) کے بارے میں کہی ہے:
’’تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا ہو کہ محنت کرو، دولت پیدا کرو، کماؤ اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافہ کی کوشش کرو۔‘‘
ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملت کو معاشی قوت کی اہمیت جیسا کہ معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔ عرصہ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جد وجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسوی صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور اشتراکی نظام کو رد کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کا عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیم دولت پر رہا ہے۔
(معاش، اسلام اور مسلمان:ص ۳۶)
وقت آگیا ہے کہ منصفانہ تقسیم دولت کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے تکوین ثروت (Creation of wealth) کے لیے ایک طاقت ور ملک گیر تحریک چلائی جائے تاکہ امت مسلمہ ہند اس ملک میں معاشی طور پر مضبوط ہو اور ملک کو کچھ دینے والے بنیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
مضمون نگار انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس کے جنرل سکریٹری ہیں۔
[email protected]
+91-9444075501
***

 

***

 اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر مستقبل کے لیے
ضروری ہے کہ مسلمان سرمایہ کار اور تکوین دولت کی طرف متوجہ ہوں۔ آج دنیا کی ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر ہی نہیں بلکہ انسان کی فکرکاروباری و فنی ندرت (Business and Technical skils) ہنر مندی (Skill Devolopment) اور کاروباری ندرت (Entrepreneurship) پر منحصر ہے۔ اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کے مدینہ مارکیٹ کے قیام سے سماج کی خوش حالی کے لیے تجارت کے لیے اہم اقدام اس دور میں کیے گئے اور آج ہم کیا کر سکتے ہیں، اس کی طرف ملتِ اسلامیہ کو
متوجہ کرایا جانا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022