جموں و کشمیر میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے روابط کے الزام میں ایک پروفیسر سمیت برطرف کیے گئے 3 اہلکار، کشمیر یونیورسٹی میں طلبا نے کیا احتجاجی مظاہرہ

سری نگر، مئی 17: جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے مبینہ عسکریت پسندوں سے تعلق کے الزام میں کیمسٹری کے ایک پروفیسر سمیت تین ملازمین کو برطرف کرنے کے بعد کشمیر یونیورسٹی میں مظاہروں نے ہلچل مچا دی۔

برطرف کیے جانے والوں میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر الطاف حسین پنڈت بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک استاد محمد مقبول حجام اور پولیس کانسٹیبل غلام رسول شامل ہیں۔

سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ پنڈت دہشت گردی کی تربیت کے لیے پاکستان گیا تھا۔ اور دعویٰ کیا کہ وہ 1993 میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے پہلے تین سال تک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کا سرگرم دہشت گرد رہا ہے۔

حکام کے مطابق اس نے 2011 اور 2014 میں دہشت گردوں کی ہلاکت کے خلاف پتھراؤ اور پرتشدد مظاہروں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حکام نے بتایا کہ 2015 میں وہ کشمیر یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا ایک ایگزیکیٹو ممبر بن گیا اور اس نے اس عہدے کا استعمال طلبا میں علاحدگی پسندی کا پرچار کرنے کے لیے کیا۔

حکام نے بتایا کہ محمد مقبول حجام ایک اوور گراؤنڈ ورکر (OGW) تھا جو لوگوں کو بنیاد پرست بناتا تھا۔ وہ اس ہجوم کا حصہ تھا جس نے سوگام میں ایک پولیس اسٹیشن اور دیگر سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا۔

حکام نے بتایا کہ غلام رسول عسکریت پسندوں کے زیر زمین حامی کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ مخبر تھا، جو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں اطلاع دیتا تھا۔ اس نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل پولیس اہلکاروں کے نام بھی لیک کیے۔

حکومتی حکم کے خلاف کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے باہر طلبا نے احتجاج کیا۔ طلبا نے نعرے لگاتے ہوئے پروفیسر کی برطرفی کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ حکومت نے آئین کی دفعہ 311 (2) (c) کے تحت تین عہدیداروں کی خدمات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

دفعہ 311 جموں و کشمیر پر 5 اگست 2019 سے پہلے لاگو نہیں ہوتی تھی، جب مرکز نے دفعہ 370 کو ختم کر دیا تھا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔ دفعہ 311 ’’یونین یا ریاست کے تحت سول صلاحیتوں میں ملازم افراد کی برطرفی یا رینک میں کمی‘‘ سے متعلق ہے۔

گذشتہ ماہ کشمیر لا کالج (KLC) نے ڈاکٹر شیخ شوکت کو مبینہ طور پر دہشت گردانہ روابط کے الزام میں پرنسپل کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

پچھلے سال سے متعدد ملازمین کو مبینہ طور پر عسکریت پسندوں سے تعلق کے الزام میں برطرف کیا جا چکا ہے۔

گزشتہ سال جولائی میں جموں و کشمیر میں اس وقت سیاسی طوفان آیا جب حکومت نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کے دو بیٹوں سمیت 11 ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔