گیانواپی مسجد، مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

لکھنؤ، مئی 17: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے وارانسی میں گیانواپی مسجد کے سروے کے بعد وضو خانہ کو سیل کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔

پرسنل لا بورڈ نے سروے کی رپورٹ پر عدالت کی جانب سے مسجد کے وضو خانہ کو سیل کرنے کے حکم کو مسلمانوں کے ساتھ سنگین ناانصافی قرار دیا ہے۔

بورڈ نے پیر کو جاری اپنے بیان میں کہا ’’گیانواپی مسجد سے متعلق موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لیے پوری طرح سے ناقابل قبول ہے اور گیانواپی مسجد ایک مسجد تھی اور آخر تک مسجد رہے گی۔‘‘

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’گیانواپی مسجد، بنار؛ ایک مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی، اسے مندر بنانے کی کوشش فرقہ وارنہ نفرت پیدا کرنے کی سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تاریخی حقائق اور قانون کے خلاف ہے۔‘‘

انھوں نے کہا ’’1937 میں دین محمد بنام سیکرٹری آف اسٹیٹ کے معاملے میں عدالت نے زبانی گواہی اور دستاویزات کی روشنی میں یہ طے کیا کہ پورا کمپلیکس ایک مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ متنازعہ زمین میں سے کتنی مسجد کی ہے اور کتنی مندر کی۔ اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، پھر 1991ء میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1947 میں مذہبی مقامات جس حالت میں تھے انھیں اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا۔

گیانواپی مسجد کا انتظام دیکھنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے وکیل رئیس احمد انصاری نے مسجد میں پائے جانے والے شیولنگ کے بارے میں درخواست گزاروں کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ انصاری نے بتایا کہ مسجد کے وضو خانہ میں صرف ایک فوارہ ہے۔

اتر پردیش کے وارانسی کی ایک عدالت نے اس جگہ کو سیل کرنے کا حکم دیا ہے جہاں شیولنگ کے پائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ایسا دعویٰ ہندو درخواست گزاروں نے کیا ہے۔

وارانسی عدالت کا حکم ایک وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر مبنی تھا جس نے دعویٰ کیا تھا کہ کچھ ٹھوس شواہد ہیں جنھیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے گیانواپی مسجد کے سروے اور ویڈیو گرافی کی اجازت دی تھی۔

ہندو فریق کے وکیل مدن موہن یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ شیولنگ نندی کے سامنے ہے اور اس کا قطر 12 فٹ 8 انچ ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’عدالت کے اس اقدام سے انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد فوری طور پر روکے اور الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ 1991 کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تمام مذہبی مقامات کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر اس طرح کے خیالی دلائل کی بنیاد پر مذہبی مقامات کی حیثیت تبدیل کی گئی تو پورے ملک میں انتشار پھیلے گا۔‘‘