19.3 فیصد اقلیتوں کے لیے مرکزی بجٹ میں صرف 0.23 فیصد رقم مختص: ایم سی سی

نئی دہلی، فروری 7: احمد آباد میں قائم اقلیتی رابطہ کمیٹی (ایم سی سی) مرکزی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے مختلف اسکیموں میں تجویز کردہ بھاری کمی کے خلاف سختی سے سامنے آئی ہے۔

یکم فروری کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے پیش کردہ 2022-23 کے بجٹ کو ’’امتیازی‘‘ اور ’’مایوس کن‘‘ قرار دیتے ہوئے ایم سی سی کے کنوینر مجاہد نفیس نے ایک بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ اقلیتی امور کی وزارت کے لیے کم از کم ایک لاکھ کروڑ روپے مختص کیے جائیں۔ نفیس کا مطالبہ ہے کہ ’’یہ رقم اقلیتی معاشرے کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے اور اسے پس ماندہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی فراہمی کے طور پر مختص کیا جانا چاہیے۔‘‘

بجٹ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ نے کل بجٹ کا صرف 0.23 فیصد اقلیتوں کے لیے مختص کیا جو ملک کی کل آبادی کا 19.3 فیصد ہیں۔ اس سال کا بجٹ 22,04,422 کروڑ روپے پر مشتمل ہے جو پچھلے سال کے مقابلے تقریباً 23 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وزارت اقلیتی امور کا بجٹ صرف 5020.50 کروڑ روپے ہے، جو کل بجٹ کا تقریباً 0.23 فیصد ہے۔

اس بجٹ میں وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں صرف 4 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال 2021-22 میں اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ 4810.77 کروڑ روپے تھا اور 2022-23 کے لیے 5020.50 کروڑ روپے تجویز کیا گیا ہے۔

انھوں نے وزیر خزانہ کی طرف سے مختلف اہم اسکیموں میں کمی کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا ’’گذشتہ سال کے مقابلے 209.73 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ کل اضافے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘‘

وزیر خزانہ نے اقلیتوں کے لیے خصوصی پروگرام کے بجٹ میں 8.58 کروڑ روپے کی کمی، قومی وقف بورڈ پروگریسو اسکیم کے بجٹ میں 1 کروڑ روپے کی کمی، اسکل ڈیولپمنٹ انیشیٹو اسکیم میں 41 کروڑ روپے کی کمی کی سفارش کی ہے۔

مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا بجٹ مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور صرف ایک لاکھ روپے کا انتظام کیا گیا ہے۔

اسی طرح اقلیتوں اور مدارس کے لیے تعلیمی اسکیم میں 14 کروڑ روپے کی کمی ہے۔

ایسی ہی کئی دیگر اسکیموں کی کہانی ہے جیسے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اسکیم، تعلیمی قرض کی سود پر سبسڈی اسکیم، مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کی اسکیم، یو پی ایس سی اور دیگر مسابقتی امتحانات کی تیاری کی اسکیم وغیرہ۔

مجاہد نفیس کہتے ہیں ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’حکومت نہیں چاہتی کہ ہندوستان کا اقلیتی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔‘‘