اپوزیشن نے بجٹ کو ‘عوام مخالف’ قرار دیا، کہا کہ ’’امرت کال پی ایم مودی کے لیے ہے، عوام کے لیے نہیں‘‘

نئی دہلی، فروری 1: کئی اپوزیشن لیڈروں نے بدھ کے روز دوسری میعاد کے لیے اپنے آخری مکمل بجٹ پر بی جے پی حکومت پر تنقید کی اور اسے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کردہ بجٹ قرار دیا۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ پیش کردہ بجٹ میں عام انتخابات سے پہلے مالی طور پر محتاط رہنے اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مرکزی بجٹ کو ’’عوام مخالف‘‘ قرار دیتے ہوئے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ یہ غریبوں کو محروم کرے گا۔ بیر بھوم ضلع کے بولپور میں ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔

ممتا بنرجی نے کہا ’’یہ مرکزی بجٹ مستقبل پر مبنی نہیں، مکمل طور پر موقع پرست، عوام دشمن اور غریب مخالف ہے۔ اس سے صرف ایک طبقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ بجٹ ملک کے بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں دے گا۔ اسے 2024 کے لوک سبھا انتخاب کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا ’’انکم ٹیکس سلیب میں تبدیلی سے کسی کی مدد نہیں ہو گی۔ اس بجٹ میں امید کی کوئی کرن نہیں ہے – یہ ایک سیاہ تاریک بجٹ ہے۔ مجھے آدھا گھنٹہ دیں میں آپ کو دکھا دوں گی کہ غریبوں کے لیے بجٹ کیسے تیار کیا جائے۔‘‘

وہیں ٹی ایم سی لیڈر شتروگھن سنہا نے کہا کہ مرکزی بجٹ میں ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ پر توجہ دی گئی ہے اور اس میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔

شتروگھن سنہا نے مزید کہا ’’لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انھوں نے یہ کس کے لیے کیا ہے۔‘‘

دریں اثنا کانگریس نے کہا کہ اصل اخراجات پچھلے سال کے بجٹ سے کافی کم ہیں۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج کمیونیکیشن جے رام رمیش نے کہا کہ پچھلے سال کے بجٹ میں زراعت، صحت، تعلیم، ایم جی نریگا اور ایس سی کی بہبود کے لیے مختص رقم کی تعریف کی گئی تھی لیکن ’’آج حقیقت عیاں ہے۔‘‘

انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ’’اصل اخراجات بجٹ سے کافی حد تک کم ہیں۔ یہ ہیڈ لائن مینجمنٹ کی مودی کی OPUD حکمت عملی ہے: اوور پرومیس، انڈر ڈیلیور۔‘‘

دریں اثنا کمل ناتھ نے کہا کہ وزیر خزانہ کی بجٹ کی تقریر ’’حکومت کے پرانے وعدوں کو ‘جملوں’ سے چھپانے کی کوشش ہے۔ ہمیں توقع تھی کہ ایف ایم ان اعلانات پر روشنی ڈالیں گی جو 2022 میں مکمل ہونے والے تھے۔‘‘

بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت کے ’’نامکمل وعدوں‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ناتھ نے ٹویٹ کیا ’’کسانوں کی آمدنی کو 2022 تک دوگنا کرنا تھا، 2022 تک ہر غریب کو مکان دستیاب ہونا تھا، ملک میں بلٹ ٹرین چلانی تھی۔ لیکن وزیر خزانہ نے نہ تو ان اعلانات کی عدم تکمیل کی کوئی وجہ بتائی اور نہ ہی ملک کے عوام سے معافی مانگی۔‘‘

عام آدمی پارٹی (اے اے پی) نے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے 2014 سے فی کس آمدنی کے دوگنا ہونے کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ’’امرت کال‘‘ ہے، ملک کے عام لوگوں کے لیے نہیں۔

AAP کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ نے، جو کہ پارٹی کے قومی ترجمان بھی ہیں، کہا کہ ’’نہ فصلوں کی MSP میں اضافہ ہوا اور نہ ہی نوجوانوں کو روزگار ملا۔ لیکن یہ مودی جی کے لیے امرت کال ہے۔ نرملا جی کہہ رہی ہیں کہ فی کس آمدنی دوگنی ہو گئی ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ ’’کس کی آمدنی‘‘ دوگنی ہو گئی۔‘‘

اے اے پی لیڈر نے کہا کہ مرکزی بجٹ برائے 2023-24، جو وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ میں پیش کیا، اس میں ملک کے کسانوں، فوجیوں اور نوجوانوں کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ سنگھ نے کہا ’’بجٹ میں کسی کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔ عام لوگ امرت کال میں امرت کے لیے ترس رہے ہیں۔‘‘

AAP کے راجیہ سبھا ایم پی راگھو چڈھا نے بجٹ کو ’’سب سے زیادہ بے وقعت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ’’کسی بھی کوشش یا سنجیدگی‘‘ سے عاری ہے۔

وہیں سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ 2023-24 کے مرکزی بجٹ نے ملک کے لوگوں کو ’’آشا‘‘ (امید) کے بجائے ’’نراشا‘‘ (مایوسی) دی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بجٹ مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

یادو نے کہا ’’بی جے پی اپنے بجٹ کا ایک دہائی مکمل کر رہی ہے، لیکن جب اس نے پہلے عوام کو کچھ نہیں دیا تو اب کیا دے گی؟‘‘

دریں اثنا بہوجن سماج وادی پارٹی (بی ایس پی) کی سربراہ مایاوتی نے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے مرکزی بجٹ پر کہا کہ بجٹ کسی پارٹی کے لیے ہونے کے بجائے ملک کے لیے ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا ’’جب بھی مرکز کسی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں بات کرتا ہے، تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان تقریباً 130 کروڑ غریب لوگوں، مزدوروں، محروم شہریوں، کسانوں وغیرہ کا ایک وسیع ملک ہے جو اپنے امرت کال کے لیے ترس رہے ہیں۔ بہتر ہو اگر بجٹ پارٹی کے بجائے ملک کے لیے ہو۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی تنگ پالیسیوں کے دیہی ہندوستان سے جڑے لوگوں کی زندگیوں پر سب سے زیادہ مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دیہی ہندوستان کو حقیقی ہندوستان قرار دیتے ہوئے مایاوتی نے کہا کہ حکومت کی ’’تنگ پالیسیوں‘‘ اور ’’غلط سوچ‘‘ کے سب سے زیادہ مضر اثرات کروڑوں غریب کسانوں اور دیہی ہندوستان سے جڑے دیگر محنتی لوگوں کی زندگیوں پر پڑتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ان کی عزت نفس اور خود انحصاری پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عام آدمی کی جیبیں بھریں اور ملک مزید ترقی کر سکے۔