اقلیتوں پر حملوں کے اعداد و شمار دستیاب نہیں، مرکز نے راجیہ سبھا کو بتایا

نئی دہلی، جولائی 28: مرکزی اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے بدھ کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ ملک میں اقلیتوں پر حملے کے بارے میں مرکزی حکومت کے پاس کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

ایک سوال کے تحریری جواب میں کہ کیا ہندوستان میں اقلیتوں اور ان کے اداروں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ایرانی نے کہا کہ ریاستی حکومتیں اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے خلاف جرائم کے اندراج، امن و امان اور مقدمہ چلانے کے اعداد و شمار کو برقرار رکھتی ہیں، کیوں کہ پبلک آرڈر اور پولیس آئین میں ریاستی فہرست کے تحت آنے والے مضامین ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کو ریاستی حکومتوں کی درخواست پر امن و امان اور عوامی سکون کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی مدد اور تعاون کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔‘‘

وزیر نے کہا کہ مرکزی حکومت ملک میں داخلی سلامتی اور امن و امان کی صورت حال مرکزی اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے بدھ کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ ملک میں اقلیتوں پر حملے کے بارے میں مرکزی حکومت کے پاس کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔پر نظر رکھتی ہے اور امن، عوامی سکون اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے مشورے جاری کرتی رہتی ہے۔

ایرانی نے مزید کہا ’’وزارت داخلہ، حکومت ہند نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے رہنما خطوط جاری کیے ہیں، جو کہ کسی بھی طرح کے تشدد سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کا تعین کرتے ہیں۔‘‘

اگرچہ مرکز نے کہا ہے کہ اس معاملے پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، تاہم پچھلے کچھ مہینوں میں ملک بھر میں اقلیتوں اور ان کے اداروں پر حملوں کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

جون میں ریاستہائے متحدہ کے محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی پر 2021 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں پر حملے، بشمول قتل اور دھمکیاں، گزشتہ سال بھر ہوئے۔

رپورٹ میں 26 ستمبر کے ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا تھا، جب بہار کے گیا ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک 14 سالہ عیسائی لڑکے کی موت اس وقت ہوئی جب کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر اس پر تیزاب پھینک دیا۔ رپورٹ میں جمشید پور میں دو مسلمان مردوں کے ان الزامات کا بھی حوالہ دیا گیا تھا کہ پولیس نے 26 اگست کو تفتیش کے دوران انھیں برہنہ ہونے پر مجبور کیا اور ان پر تشدد کیا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں نے ہندو اور سکھ اقلیتوں کے شہریوں کو قتل کیا، جس سے ان برادریوں میں ’’بڑے پیمانے پر خوف‘‘ پھیل گیا۔

ملک کے کئی حصوں میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلمانوں کی نسل کشی کے ترغیب دی گئی ہے۔ ہندوتوا شدت پسندوں نے مسلم خواتین کی عصمت دری کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں اور آن لائن ’’نیلامی‘‘ کے لیے ان کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر ڈالی ہیں۔

ان میں سے کئی مقدمات میں ملزمان کو ضمانت بھی مل چکی ہے۔ مگر ان مجرموں، جیسے یتی نرسنگھا نند سرسوتی، نے نفرت انگیز تقریر کے مقدمات میں ضمانت پر باہر ہوتے ہوئے مزید اشتعال انگیز تبصرے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ 5 دسمبر کو جاری ہونے والی ایک حقائق کی تلاش کی رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ گذشتہ سال جنوری سے ستمبر کے درمیان ہندوستان بھر میں عیسائی برادری کے ارکان پر 305 حملے ہوئے تھے۔

دسمبر میں جاری کردہ ایک اور رپورٹ میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے جنوری 2021 سے نومبر 2021 کے درمیان صرف کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 39 واقعات کو درج کیا تھا۔