مدھیہ پردیش: آدھار کارڈ نہ دکھانے پر مسلم ہاکر کو شدت پسند عناصر نے تشدد کا نشانہ بنایا

نئی دہلی، اگست 28: انڈیا ٹوڈے نے جمعہ کو پولیس کے حوالے سے بتایا کہ مدھیہ پردیش کے ضلع دیواس میں ایک مسلمان ہاکر کو مبینہ طور پر دو نامعلوم افراد نے زد و کوب کیا۔

یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں اتوار کے روز ایک ’’ہندو علاقے‘‘ میں چوڑیاں بیچنے پر ایک مسلمان شخص پر حملے کے چند دن بعد ہی سامنے آیا ہے۔

پولیس نے بتایا کہ متاثرہ 45 سالہ زاہد خان ایک مزدور ہے جو بسکٹ بیچنے کے لیے اسٹریٹ وینڈر کا کام بھی کرتا ہے۔

خان پر ہٹپپلیہ پولیس اسٹیشن کے دائرہ کار میں واقع بورلی گاؤں میں حملہ کیا گیا، جہاں دو افراد نے انھیں روکا اور ان سے ان کا آدھار کارڈ مانگا۔

پولیس نے بتایا کہ جب ہاکر آدھار کارڈ دکھانے میں ناکام رہا تو انھوں نے اس پر حملہ کیا۔ خان کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے حملہ آوروں کی شناخت کر سکتے ہیں۔

خان نے پولیس کو بتایا ’’دونوں بورلی گاؤں کے رہائشی ہیں اور میں نے انھیں پہلے بھی گاؤں میں دیکھا ہے۔‘‘

خان نے نیوز کلک کو بتایا کہ ان پر ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے حملہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ میں ہندو اکثریتی علاقے میں کھانے پینے کی اشیا فروخت کر رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے 900 روپیے نقدی بھی لوٹ لی۔

خان نے الزام لگایا کہ ان لوگوں نے مذہبی گالیاں دیں اور ان پر بیلٹ اور لاٹھیوں سے حملہ کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق انھوں نے مزید بتایا کہ ’’وہ مجھے پیٹ رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ تیری ہمت کیسے ہوئی میرے گاؤں میں گھسنے کی، اور مجھے اس وقت مارتے رہے جب تک میں بے ہوش نہیں ہوگیا اور گاؤں والوں نے مداخلت نہیں کی۔ انھوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں گاؤں میں دوبارہ داخل ہوا تو مجھے جان سے مار دیں گے۔‘‘

پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعات 323 (رضاکارانہ طور پر تکلیف پہنچانا)، 294 (فحش زبان استعمال کرنا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

خان نے اپنی شکایت میں کہا کہ گاؤں کے کئی مکین اس واقعہ کے دوران موقع پر آئے تھے اور گواہ تھے۔ تاہم پولیس نے کہا کہ وہ خان کے دعووں کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ دیہاتیوں نے کہا کہ وہ اس واقعے سے واقف نہیں ہیں۔

ہٹپپلیہ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر سجین سنگھ مکاتی نے نیوز کلک کو بتایا کہ ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا تعلق اندور سے ہے اور وہ گاؤں میں اپنے سسرال والوں سے ملنے آئے تھے۔ مزید تفصیلات حاصل کرنے اور انھیں گرفتار کرنے کے لیے ایک ٹیم ان کے گھر بھیجی گئی ہے۔