مولانا مودودیؒ کی تصنیف و تحقیق کےبعض گمنام گوشے

افروز عالم ساحل

ہندومہاسبھا اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی پہلی سوانح حیات لکھنے کا سہرا بانیٔ جماعت اسلامی ، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے سر ہے۔ جب مولانا کی عمر محض 16 برس کی تھی، تب انھوں نے دو کتابیں لکھیں تھیں۔ پہلی کتاب مہاتما گاندھی پر تھی، جبکہ دوسری کتاب پنڈت مدن موہن مالویہ کی مکمل سوانح حیات تھی۔ اس کتاب کا نام ’حالاتِ زندگی: پنڈت مدن موہن مالویہ ‘تھا۔ واضح رہے کہ یہ پنڈت مدن موہن مالویہ کی پہلی سوانح حیات تھی۔

ان دونوں کتابوں کو برطانوی حکومت نے ضبط کرلیا تھا، کیوں کہ حکومت برطانیہ ہندوستان میں اپنا وجود باقی رکھنے کے لیے ہندو وں اور مسلمانوں میں  تفرقہ پردازی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کررہی تھی،  اس کے نزدیک یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتی تھی  کہ مولانا مودودی کی مذکورہ کتابوں کی اشاعت ہو جو ہندو مسلم یکجہتی، قومی اتحاد اور کانگریس پارٹی کی حمایت میں تھیں۔

خود مولانا مودودی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے: ’’1918 میں میرے بھائی اور میں نے ایک ساتھ اخبار ’مدینہ‘ میں کام کیا۔ یہ اخبار بجنور سے نکلتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں سیاسی تحریک کی زبردست ابتدا ہو رہی تھی۔ میں نے ’انجمن عنایت نظربندان اسلام‘ میں بھی کام کرنا شروع کردیا۔ اور پھر 1919 ء میں جب خلافت اور ستیہ گرہ کی تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں بھی حصہ لیا۔ اسی زمانے میں گاندھی جی کی سیرت پر بھی ایک کتاب لکھی، مگر وہ ابھی زیر طبع ہی تھی کہ میرے ایک عزیز نے پولیس سپرنٹنڈنٹ سے اس کی شکایت کی۔ ان کی اس شکایت کے بعد اسے ضبط کرلیا گیا۔ ‘‘

لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی دوسری کتاب ’حالاتِ زندگی: پنڈت مدن موہن مالویہ‘ 1919 ہی میں دفتر ’تاج‘ جبل پور سے شائع ہوئی۔ گاندھی جی کی سوانح کے بارے میں تو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کتاب کہاں ہے، البتہ پنڈت مدن موہن مالویہ کی کتاب آج بھی پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہے۔ خدا بخش لائبریری نے 1992 میں اس کتاب کی ہندی نقل حرفی بھی شائع کی تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک خلافت کے ساتھ ساتھ جب گاندھی  جی نے تحریک عدم تعاون چھیڑی تھی، تو اسی وقت طے ہوا کہ ہندو اور مسلمان لیڈر یا مصنفین دونوں مذاہب کے قومی رہنماؤں کا احترام کریں ، ملک و قوم کو کانگریس کی پالیسیوں سے واقف کرائیں تاکہ قومی اتحاد کو طاقت ملے۔ اگر کسی وجہ سے ہندوؤں اور  مسلمانوں کے مابین کوئی  ناخوش گوار واقعہ رونما ہو جائے،  تو بجائے دوسروں کو الزام دینے کے اپنے لوگوں میں اصلاح کی کوشش کریں۔

ان احساسات کو آگے بڑھانے والوں میں ایک اہم نام نوجوان صحافی سید ابوالاعلی مودودی کا بھی تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں جبل پور سے شائع ہونے والے اخبار  ’تاج ‘، بجنور کے ’مدینہ ‘ اور دیگر اخباروں و رسائل میں کئی مضامین لکھے، اور سب سے اہم یہ کہ گاندھی  جی اور  پنڈت مدن موہن مالویہ کی سوانح عمریاں بھی لکھیں۔  تاہم یہ بات تعجب خیز ہے کہ مولانا پر تحقیق کرنے یا لکھنے والوں میں سے کسی نے ان باتوں کا کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔

مولانا مودودیؒ نے محض 16 سال کی عمر میں کالج کی تعلیم مکمل کر لی تھی، اس کے بعد بقول خود ایک ڈیڑھ سال تک خود کو ملحد سمجھتے رہے۔ البتہ جب انھوں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا تو اسلام کے آغوش میں لوٹ آئے۔

خود مولانا لکھتے ہیں: ’’جب میں نے کالج کی تعلیم مکمل کی تو اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال کی تھی۔ اس کے بعد میں نے آوارہ  خوانی شروع کی۔ جو کچھ ملا وہ پڑھ ڈالا۔ ہر سبجیکٹ اور ہر عنوان پر ہر طرح کی کتابیں پڑھیں۔ اس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلا۔ خدا اور  آخرت پر سے یقین اٹھتا چلا گیا۔ شک و شبہ کی وجہ سے ایمان اور یقین کی بنیاد منہدم ہوگئی۔ خدا کا وجود سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ تمام مذہبی عقائد بے کار اور غیر معقول لگتے تھے۔ ایک ڈیڑھ سال تک یہی صورت حال رہی۔ لیکن الجھنوں اور مخمصوں کی یہ کیفیت زیادہ دن قائم نہیں رہی۔ عربی زبان پر گرفت تھی۔ میں نے قرآن و حدیث کا براہ راست مطالعہ شروع کیا۔ اصلیت اور سچائی کھلتی چلتی گئی۔ عدم اعتماد کی دھند تحلیل ہوتی چلی گئی۔ میں نے دوسرے مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ پہلے سے کر رکھا تھا۔ مذاہب کے تقابلی مطالعے نے مجھے کچھ حد تک اطمینان بخشا۔ در حقیقت، اب میں نے اسلام کو سوچ سمجھ کر قبول کر لیا، مجھے اس کی سچائی پر پکا یقین تھا۔ ‘‘

سید مودودی لکھتے ہیں، ’’میں نے 1903 میں اورنگ آباد نامی ایک جگہ پر اپنی آنکھیں کھولیں، جو ہندوستانی برصغیر میں انگریزی طرز زندگی کو اپنانے میں آگے تھا۔ علی گڑھ کالج کے قیام سے کچھ عرصہ قبل ہی سر سید احمد خان نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ میرےوالد مرحوم اس مدرسے کے سب سے پہلے طالب علموں میں سے تھے۔ وہ فطری طور پر سرسید احمد خان کی مہم سےبہت متاثر تھے۔ لیکن 1901 سے 1903 کے درمیان انھیں احساس ہوا کہ اس مغربی تعلیم نے ان کی زندگی کو اسلام کے راستے سے ہٹا دیا ہے۔ اس احساس نے ان میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔ اب وہ مغربی تہذیب اور اس کی اخلاقی اقدار سے بہت نفرت کرنے لگے تھے۔ ‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں: ’’…. میرے خاندان کے بارے میں دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ سن 1857 کی ہنگامے میں   اس خاندان کو بہت سی پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریزوں کے ظلم و ستم نے اس خاندان کے لوگوں میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت پیدا کردی۔ اس آباد روح کے تحت والد مرحوم کو انگریزی ملازمت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے اس ماحول میں ترقی پذیر ہونے کی وجہ سے میرا دل بھی انگریزی ملازمت کی طرف مائل نہیں ہوا۔ والد مرحوم میری دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ وہ میری زبان اور میرے سلوک کی سطح کو خالص اور پاکیزہ بنائے رکھیں۔ وہ مجھے رات کو نبیوں کی داستانیں، اسلامی اور ہندوستانی تاریخ کے واقعات اور کہانیاں سناتے تھے… میں نے گھر میں عربی کی تعلیم حاصل کی، اسکولوں اور کالجوں میں مختلف سبجیکٹ زیر مطالعہ رہے۔ انگریزی زبان کی اہلیت طالب علمی  کی زندگی کے بعد حاصل کی۔ مجھے طالب علمی کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ یاد نہیں ہے۔ میں ایک اوسط طالب علم تھا اور میرے ذہن نے مستقبل کی کبھی کوئی بھی پلاننگ نہیں بنائی۔ البتہ مجھے اس وقت یہ احساس ضرور ہوگیا تھا کہ مجھ میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘‘ مولانا نے اپنی اس صلاحیت کو نہ صرف پہچانا بلکہ مسلسل پڑھتے لکھتے رہے۔ 

باضابطہ طور پر مولانا کی صحافتی زندگی کی شروعات جمیعت علما ے ہند کے ’اخبار الجمیعت‘ کی ادارت سے ہوئی، اس وقت آپ کی عمر صرف 18 برس تھی۔ مولانا 1928 تک الجمیعت سے جڑے رہیں۔ لیکن 1929 میں الجمیعت سے الگ ہوکر لکھنے پڑھنے اور تحقیق کے لیے حیدرآباد چلے گئے، جہاں آصفیہ حکومت کی تاریخ لکھی۔ پھر 1933 میں آپ نے حیدرآباد سے ایک ماہنامہ رسالہ ’ترجمان القرآن ‘جاری کیا، جو اب لاہور سے شائع ہوتاہے۔ 

کے ایس کرشنا راؤ اپنی ترمیم شدہ کتاب Global Encyclopaedia of the Brahmana Ethnography  کی جلد 2 میں لکھتے ہیںـ ’’1920 کے قریب مودودی نے بھی سیاست میں کچھ دل چسپی لینی شروع کردی۔ انھوں نے تحریک خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ اس کے بعد تحریک ہجرت سے وابستہ ہوئے، جو ہندوستان میں انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف تحریک تھی،  اور اس ملک کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ بڑے پیمانے پر افغانستان میں ہجرت کریں۔ حالانکہ مودودی نے تحریک کی قیادت سے خود کو یہ کہتے ہوئے الگ کرلیا کہ اس تحریک کے مقاصد اور حکمت عملی کو حقیقت پسندانہ اور منصوبہ بند ہونا چاہیے۔

کے ایس کرشنا راؤ کے مطابق 1920-28 کے دوران مولانا مودودی نے چار مختلف کتابوں کا ترجمہ بھی کیا، ایک کتاب عربی سے ترجمہ کی گئی اور باقی انگریزی سے تھیں۔ یہی نہیں،  مولانا مودودی نے اس دوران میں مشہور شاعر و فلسفی علامہ اقبال اور تحریک خلافت کے مشہور رہنما مولانا محمد علی جوہر دونوں کو خوب سراہا۔

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ 1930 کے بعد مولانا نے کانگریس یا ملک کی آزادی میں دل چسپی لینا بند کر دیا۔ لیکن راقم الحروف نے خود اپنی تحقیق کے دوران مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے کئی مضامین کو دیکھا ہے جن کا براہ راست تعلق ملک کی آزادی سے تھا۔ ایسا ہی ایک مضمون راقم الحروف کے پاس ’’فرقہ نسواں اور آزادی کی جدوجہد: ایک مصری ادیب کے تازہ خیالات‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ مولانا کا یہ مضمون  25 اگست، 1935 کے مدینہ اخبار میں شائع ہوا تھا۔ یہی نہیں، مولانا موصوف نے تحریک خلافت کی ناکامی کے اسباب پر بھی کئی مضمون لکھے۔ یہ تمام 1937 میں لکھے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد ایک شکست خوردہ اور منتشر فوج کے مانند تھے جس کے باقی ماندہ عناصر کو ہندوسامراج، متحدہ قومیت اور آزادی وطن کے نام پر اچک لینے میں مصروف تھا۔ 

آگے چل کر مودودی، مولانا سید ابوالاعلی مودودی بن چکے تھے اور 1941 میں انھوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔ آزادی کے بعد یہ تنظیم دو ممالک میں تقسیم ہوگئی۔ ہندوستان میں اب اسے جماعت اسلامی ہند کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مولانا کی زندگی کے کئی پہلوؤ ں پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ جہاں بانی تحریک نے حکومت آصفیہ کی تاریخ لکھی، اور جو آسمان تحقیق کا روشن ستارہ بن کر چمکے، وہاں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان کی قائم کردہ تحریک علم و تحقیق سے کتنا شغف رکھتی ہے؟ ہمیں اس سلسلے میں اچھی امیدیں ہیں کہ جماعت میں نئی قیادت اور نیا خون آیا ہے—اور حسن اتفاق کہ اس قیادت کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے جہاں مولانا مودودی کی پیدائش ہوئی تھی—توقع ہے کہ یہ قیادت تاریخ و تحقیق کے میدانوں پر خصوصی توجہ دے گی۔