مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اسکیم پر منڈلاتے خطرات سے امیدواروں کو تشویش

اعلیٰ تعلیم کے لیے مددگار اس اسکیم کے حصول کے لیے حکومت نے بنائے سخت قوانین

افروز عالم ساحل

 

ملک کی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں میں ہائر ایجوکیشن کی کمی دور کرنے کی غرض سے یو پی اے حکومت نے ’مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ‘ اسکیم کی شروعات کی تھی تاکہ اقتصادی حالات سے دوچار اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہو اور اس اسکیم کے سہارے اپنی تعلیم پوری کرکے خود کفیل ہوں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کر سکیں۔ لیکن ان دنوں مرکز کی بی جے پی حکومت نے اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کا خواب دکھانے والی اس اسکیم پر تیشہ چلانا شروع کر دیا ہے۔

حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو ملے اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع کے دنوں میں اس اسکیم کی رفتار دھیمی رہی اگر چہ کہ یو پی اے حکومت کی کوشش میں ایمانداری نظر آ رہی تھی لیکن مرکز میں بی جے پی حکومت کے آتے ہی اس اسکیم کو جھٹکا لگا، مگر اگلے دو سالوں میں وہ تھوڑی سنبھل گئی اور اس کے بجٹ میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔ مگر اب ایک طرف جہاں اس اسکیم کا بجٹ کم ہوتا نظر آرہا ہے تو وہیں اس اسکیم کے لیے شرائط ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ اقلیتی نوجوانوں کو یہ فیلوشپ حاصل کرنا کافی مشکل ہوگیا۔

آر ٹی آئی کے دستاویزات کے مطابق سال 2020-21میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ریسرچ فیلو کو با اختیار بنانے والی اس ’مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ‘ اسکیم کے لیے 175 کروڑ روپے کا بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 100 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور 31 دسمبر 2020 تک محض 58.50 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ سال 2019-20میں اس اسکیم کے لیے 155 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 130 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور جب خرچ کی بات آئی تو اس رقم میں سے صرف 100 کروڑروپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ 2018-19کا معاملہ مختلف ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 153 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 153 کروڑ روپے جاری بھی کیے گئے لیکن جب خرچ کی باری آئی تو صرف 97.85 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ سال 2017-18 میں تھوڑی بہتر نظر آئی جس میں اس اسکیم کے لیے 100 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، لیکن جاری 150 کروڑ روپے کیے گئے اور 124.87 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ اس سال 2021-22 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں گھٹا کر صرف 99 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے اقلیتی طبقوں کے طلباء کی مالی امداد کے طور پر فیلوشپ مہیا کرانے والی اس اسکیم کی شروعات جب سال 2009-10میں کی گئی تھی، تب پوسٹ گریجویٹ سطح پر کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل کرنا ایک ضروری شرط تھی لیکن اب سال 2020 میں اس اسکیم کے لیے جو نئی گائیڈ لائنس جاری کی گئیں اس سے طلباء کافی پریشان نظر آ رہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم طلباء جو اعلیٰ تعلیم کی طرف جانا چاہتے ہیں ان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔

اس نئی گائیڈ لائنس کے تحت اب یہ فیلوشپ ان ریسرچ اسکالرکو نہیں مل پائے گی جنہوں نے نیٹ کوالیفائی نہیں کیا ہے۔ یعنی اس فیلوشپ کو پانے کے لیے یو جی سی نیٹ یا سی ایس آئی آر نیٹ کوالیفائی کرنا پہلی شرط ہے۔ ساتھ ہی پوسٹ گریجویٹ سطح پر کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

نئی گائیڈ لائنس کے مطابق سائنس، ہیومینٹیز، سوشل سائنس اور اسی طرح انجینئرنگ و ٹکنالوجی کے سبجیکٹ کے لیے فیلوشپ پہلے دو سالوں کے لیے 31 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ آگے بچے ہوئے سال کے لیے 35 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے۔ اس فیلوشپ کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نوڈل ایجنسی ہے۔ اس فیلوشپ کی 30 فیصد نشستیں لڑکیوں کے لیے اور تین فیصد معذور طلباء کے لیے مختص ہے۔ وہیں اس فیلوشپ کا فائدہ انہی طلباء کو ملے گا جن کے والدین یا سرپرست کی سالانہ آمدنی 6 لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو۔ اب اس فیلوشپ کے لیے ہر سال کل 1000 ریسرچ اسکالروں کا انتخاب ملکی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل 2018-19تک یہ تعداد 756 تھی۔ یہ انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے ’مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ‘ پانے والے متعدد ریسرچ اسکالروں سے بات چیت کی جس میں زیادہ تر طلباء نے بتایا کہ دو سال قبل تک فیلوشپ ملنے میں کافی تاخیر ہو رہی تھی جس سے طلباء کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن اب یہ فیلوشپ وقت پر مل رہی ہے۔ حالانکہ ایک طالب علم کی شکایت ہے کہ انہیں نومبر کے بعد سے فیلوشپ کی رقم نہیں ملی ہے۔ اکثر طلباء کا کہنا ہے کہ اس فیلوشپ کو لے کر جو نئی گائیڈ لائنس جولائی 2020 میں جاری کی گئی ہیں اس سے خاص طور پر مسلم طلباء متاثر ہوں گے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ نئی گائیڈ لائنس انتہائی غیر منصفانہ و جابرانہ ہیں جو اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو فیلوشپ سے محروم رکھنے کی ایک سازش ہے۔ کیونکہ ہر سال جتنے طلباء یو جی سی نیٹ کے لیے فارم بھرتے ہیں ان میں 6 فیصد طلباء یا امیدواروں کو ہی کامیاب ہونے دیا جاتا ہے اور ان میں مسلم طلباء کی تعداد کافی کم ہوتی ہے۔

وزارت اقلیتی امور میں کام کر چکے ایک ریسرچ اسکالر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فیلوشپ کی رقم وزارت سے وقت پر جاری کر دی جاتی ہے لیکن اسے بینکوں میں روک کر رکھا جاتا ہے تاکہ ان پیسوں پر ملنے والا سود حاصل کیا جا سکے۔ اس کام میں بینک ملازمین کے ساتھ ساتھ وزارت کے کچھ افسران بھی شامل ہوتے ہیں۔
واضح ہو کہ وقت پر فیلوشپ نہ ملنے کے معاملے پر لوک سبھا میں بھی سوال پوچھا جا چکا ہے۔ وہیں اس فیلوشپ اور وزارت اقلیتی امور کی مختلف اسکیموں کو لے کر سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر کی گئی ہے جس میں خاص طور پر مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ جیسی اسکیموں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق عدالت اس معاملے میں حکومت ہند کو ایک نوٹس بھی جاری کر چکی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021