لکشدیپ:پرسکون جزیرے میں سیاسی زلزلوں کے جھٹکے

ترقی کے نام پر نئے قوانین سے باشندوں کی زندگی اجیرن بنے گی؟

سید تنویر احمد، بنگلورو

 

ہم جیسے بھی ہیں خوش ہیں ، ہماری تہذیب و کلچر پر حملہ کرنا بند کریں۔ مقامی افراد کا ردعمل
لکشدیپ ایک چھوٹا جزیرہ اور سب سے چھوٹا مرکز کے تحت آنے والا علاقہ (یونین ٹیریٹری) آج ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں خوب سرخیاں بٹور رہا ہے۔ چونکہ اس جزیرے کی 94 فیصد آبادی مسلمان ہے اس لیے بھی وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہندو مسلم یا مسلم مخالف رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھگوا سوشل میڈیا کورونا کی سونامی کی آڑ میں بی جے پی کی گرتی ساکھ کو اس مسئلہ کے ذریعہ سنبھالا دینے کی بھی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ دائیں بازو کی تنظیموں نے ملک میں اب ایک ایسا نفسیاتی ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں اکثریتی طبقہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے اپنی تسکین کا سامان حاصل کرتا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے پرکھوں نے ملک پر ایک ہزار سال حکومت کر کے جو ’’گناہ‘‘ کیا تھا اس کی پاداش میں ان کے وارثین (موجودہ مسلمان) کو یہ سزا ملنی چاہیے۔ یہ تصور ایک خاص نظریے کے تحت پھیلایا گیا ہے۔ چنانچہ لکشدیپ کے باشندوں پر کسا جانے والا ہر شکنجہ بھکتوں کی باچھیں کھول دے گا اور شاید کورونا کے زخم بھی مندمل کرے گا۔ لکشدیپ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اصل ہدف یقیناً یہ نہیں ہے تاہم یہ ایک ذیلی فائدہ برسر اقتدار جماعت غالباً حاصل کرنا چاہتی ہے اور اسے پورا کرنے میں مسلمانوں کے اجتماعی تیور، نعرے، پروگرام اور ’’سبز سوشل میڈیا‘‘ میں جزیرے اور وہاں آباد شہریوں سے یگانگت اور بھرپور تعاون پیش کر رہے ہیں۔
اصل مقاصد کیا ہیں
جزیرے میں گزشتہ جنوری سے جاری تین قوانین (Rules)اور ایک مزید قانون جو عنقریب منظور ہو جائے گا کس مقصد کے تحت جاری کیے جا رہے ہیں؟ ہم نے اوپر کے پیراگراف میں جو مقصد بیان کیا ہے وہ تو بائی پروڈکٹ (ذیلی فائدہ) ہے اہم مقصد جس کا کسی دستاویز میں ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کا تذکرہ جناب وجاہت حبیب اللہ نے کیا ہے۔ ان کی بات کو اس لیے بھی اہمیت دی جا رہی ہے کہ کیونکہ موصوف 1987 سے 1990 تک اس جزیرے کے ایڈمنسٹریٹر رہے۔ جو عہدہ آج پرفل پٹیل سنبھالے ہوئے ہیں۔ جناب حبیب اللہ آئی اے ایس آفیسر تھے۔ انہیں ملک کے پہلے چیف انفارمیشن کمشنر ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ موصوف نے حالیہ دنوں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں بلی کو تھیلے سے باہر نکال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے سے جزیرے پر گجرات کے سیمنٹ کمپنیوں کے مالکان کی نظر ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جزیرے کی زمین سیمنٹ کی فیکٹیروں کے لیے سازگار ہے۔ لیکن اس سے جزیرے کا سارا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا اور سیمنٹ کی فیکٹریوں کے نتیجہ میں یہاں کی مقامی آبادی کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔
جناب وجاہت حبیب اللہ نے ایک بلی کو باہر نکالا ہے جبکہ ایک اور بلی کا پہلے سے کافی تذکرہ چل رہا ہے کہ لکشدیپ کو ایک فائیو اسٹار ٹورسٹ مقام میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ جزیرے کو سیاحتی مرکز بنانے کی بات وہاں کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل نے اپنے عہدے کا چارج لیتے ہی کہ دی تھی۔ ڈسمبر 2020 میں پٹیل صاحب کو دمن دیو کے علاقوں کے علاوہ لکشدیپ کا زائد چارج بھی دیا گیا۔ وہ آئے تو اپنے ساتھ یہ چار قوانین بھی جزیرے کی عوام کے لیے ’’ تحفہ ‘‘ کے طور پر لائے۔ پٹیل صاحب کا سابقہ ریکارڈ متنازعہ رہا ہے۔ ان کا عہدہ سنھبالتے ہیں بعض مبصرین نے بد شگونی کا اظہار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موصوف کارپوریٹ گھرانوں سے قربت رکھتے ہیں اور ان کے مفادات کے تحفظ میں ماہر ہیں۔
کارپوریٹس کا ہے ایک ہی انداز
دنیا بھر میں اور ہمارے ملک میں بڑے تجارتی اداروں، کان کنی کرنے والی کمپنیوں اور تفریح گاہیں بنانے والے تجارتی گھرانوں کی کم وبیش ہر جگہ ایک ہی حکمت عملی رہی ہے۔ جو بھی خطہ اراضی انہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے ان علاقوں میں آباد لوگوں کے لیے دائرہ حیات کم کیا جائے، انہیں اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں۔ آبادیوں کی سیاست Politics of Demography کا یہ ایک اہم سبق ہے۔ یہی سیاست اسرائیل کے ذریعہ بھی کی جارہی ہے اور اس کی جھلکیاں ملک میں آدی باسی علاقوں میں ملتی ہیں۔ جھارکھنڈ ہو کہ چھتیس گڑھ، گجرات ہو کہ اڈیشہ، آدی باسیوں کے ساتھ کارپویشن کی ایما پر حکومتوں کی روش یکساں ہوتی ہے۔ اب تو ان پر ظلم ڈھانے کے لیے نکسلائٹ کا حربہ مل گیا ہے۔ لکشدیپ کا مسئلہ بھی اسی سیاست کا شکار ہے۔ لکشدیپ میں جن تین قوانین کو جاری کیا گیا ہے اور ایک چند دنوں کے بعد نافذ ہوجائے گا کیا ان کے ذریعہ ’’آبادی والی سیاست‘‘ کھیلی جائے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
کہانی کی کرونا لوجی
لگتا ہے اس حکومت کے تمام کام ایک کرونولوجی میں ہوتے ہیں ایسا ہونا بھی چاہیے۔ یہ سلیقہ مندی کی علامت ہے اور اس سے اثر پذیری پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ لکشدیپ میں جن چار قوانین کو جاری کرنے پر بے چینی پیدا ہوئی اس کا آغاز ’’دی لکشدیوپ پریوینشن آف اینٹی سوشل ایکٹی ویٹیز ریگولیشن 2021۔(The Lakshadweep Prevention of Anti-Social Activities Regulation2021)سے ہوا۔ اس قانون کو مرکزی وزارت قانون نے 28 جنوری 2021 کو منظور کیا تھا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اس قانون کے علاوہ مزید تین قوانین جو موجودہ ایڈمنسٹریٹر کے دور اقتدار میں منظور کیے گئے ہیں ان کا مقصد جزیرہ کو ’’جنت نشان‘‘ بنا کر وہاں کی ترقی کو یقینی بنانا ہے اور اس جزیرے کو مالدیپ کے طرز پر سیاحتی مرکز بنانا ہے، جبکہ جزیرے کے باشندوں کے مطالبات کچھ اور ہیں۔ ان کے مطالبات میں سے اہم یہ ہیں کہ وہاں کی تعلیم یافتہ نئی نسل کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، صحت عامہ کی کیفیت میں بہتری لائی جائے، ماحولیات کا تحفظ ہو، مچھلی اور ناریل کے کاروبار کو بہتر کیا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ٹھیرا کہ کارپوریٹ گھرانوں کی حرص کو پورا کرنے اور مالداروں کی عیاشی کی تسکین کے لیے مقامی معصوم باشندوں کی زندگی کو دوبھر کر دیا جائے؟
تھوڑی دیر کے لیے جزیرہ کے کارپوریٹ پرستانہ ترقی کے ماڈل کو مان بھی لیا جائے تو پہلے اوپر بیان کیے گئے انسداد جرائم کے قانون کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لیے کرونولوجی chronology کو سمجھنا ہو گا، بلکہ اب تو ہندوستانی سیاست کرونولوجی پر ہی چل رہی ہے۔ چاہے NRC اور CAA کی بات ہو یا سوامی رام دیو گرو جی کی۔ مذکورہ قانون کا لب لباب یہ ہے کہ جزیرے کے باشندوں کی طرف اٹھنے والی اونچی ہو کہ خفیف دونوں قسم کی آوازوں کو بزور خاموش کر دیا جائے۔ جزیرے میں آباد 70 ہزار کی آبادی، جمہوری مملکت کی شہری نہیں بلکہ مطلق العنان ایڈمنسٹریٹر کی رعایا بلکہ غلام بن کر زندگی گزارے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ مقصد نہیں ہے تو پھر اس قانون کو اب منظور کرنے کا جواز کیا ہے؟ جبکہ پورے ملک میں اور تمام یونین ٹیریٹریز (تحت مرکز علاقہ) کے بنسبت انہیں جزیرے میں جرائم کی تعداد بہت کم ہے لیکن ہاں حکام کو اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ اس قانون کے بعد جن قوانین کا اطلاق اس خطہ کی عوام پر کرنے جا رہے ہیں اس سے یقیناً بے چینی بڑھے گی اور عوام احتجاج اور اور جمہوری انداز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرے گی۔ چنانچہ اس طرح کے کسی بھی سیلاب کو روکنے کے لیے قبل از وقت اس قانون کے ذریعہ اقدام کیا گیا ہے۔
عوامی بیداری کو روکنے کے لیے اس طرح کی حکمت عملی ہر دور میں عوام مخالف حکمرانوں کی رہی ہے چاہے وہ قدیم ہوں کہ ماضی قریب کی سامراجی طاقتیں، سامراجیت اور فسطائیت عوامی تحریکوں کو کچلنے کے معاملہ میں یکساں رہی ہیں۔ اس قانون کے تحت جزیرے میں نام نہاد کارپوریٹ نواز ترقیاتی کاموں میں اگر رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کو دبوچ لیا جائے گا۔
اب آئیے اس قانون کو چوتھے قانون سے جوڑ کر دیکھیں۔ ویسے اس کے درمیان دو اور قوانین پاس کیے گئے ہیں جن کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔ چوتھا قانون جس کے نتیجہ میں یہ چھوٹا جزیرہ دنیا کے نقشہ پر چھا گیا وہ ہے: دی لکشدیپ ٹاون اینڈ کنٹری پلاننگ ریگولیشن
2021۔The Lakshadweep Town and Country Planning Regulation 2021دراصل یہ قانون 28اپریل کو عوام کے درمیان ان کے اعتراضات اور مشورے حاصل کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔ اس قانون پر عوام کو رائے دینے کی اجازت 19 مئی تک تھی۔ اسی قانون پر باشندگان جزیرہ لکشدیپ کے کئی خدشات ہیں۔ اگر یہ ریگولیشن منظور ہو جاتا ہے تو ایڈمنسٹریٹر کو ترقیاتی پروجیکٹ، کان کنی اور دیگر منصوبوں کے لیے زمینات کو تحویل میں لینا حکومت کے لیے آسان ہو جائے گا۔ اس سے وہاں کے عوام کو ان کے مکانات ومقامات سے بے دخل کر دینا آسان ہو جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ اس قانون میں زمینات کا معقول معاوضہ دینے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اکثر یہ معاوضہ مارکیٹ کی قیمت سے کتنا کم ہوتا ہے اور اس کے حصول میں کتنی دشواری ہوتی ہے اس امر سے ہر کسی کو واقفیت حاصل ہے۔ مان لیجیے معاوضہ معقول بھی دیا جا رہا ہے تو اس سے وہاں کی آبادی نقل مکانی کا شکار ہو گی۔ معقول رقم ملنے پر لوگ سوچیں گے کہ اپنی جائیداد کو فروخت کر کے کیرالا کا رخ کیا جائے۔ اس عمل سے جزیرے کی آبادی متاثر ہو گی اور وہاں کارپوریٹ کھلاڑیوں کے لیے میدان ہموار ہو جائے گا۔ اتنا ہی نہیں جیسا کہ کہا گیا اگر وہاں سیمنٹ فیکٹریاں لگتی ہیں تو سارا ماحولیاتی و قدرتی نظام چوپٹ ہو جائے گا۔اس قانون کو منظور کیے جانے سے پہلے جب عوام کی رائے کے لیے عام کیا گیا تو احتجاج کا سلسلہ پھوٹ پڑا۔ لکشدیپ کے باسیوں کو اس قانون میں دو اور خطرات نظر آ رہے ہیں۔ اول یہ کہ وہاں کی کثیر آبادی جن زمینات پر قابض ہے ان کے باضابطہ ملکیت کے کاغذات اور دستاویزات ان کے پاس نہیں ہیں۔ ملک کے اکثر آدی باسی علاقوں میں یہی مسئلہ ہے۔ جب ان کے پاس ملکیت کے دستایزات ہی نہیں ہیں تو پھر مذکورہ قانون کے مطابق حکومت کا عوام سے زمینات کو حاصل کرنا آسان ہوگا۔ حالانکہ لکشدیپ کی بڑی اکثریت کو حکومت ہند نے درج فہرست قبائل کے زمرے میں شامل کیا ہے جنہیں sheduled tribe (ST) کہا جاتا ہے ۔
ملک میں درج فہرست قبائل کے علیحدہ قوانین ہیں جنہیں فارسٹ رائٹ ایکٹ (FRA) 2006 کہا جاتا ہے۔ ان قوانین کے تحت قبائلی علاقے میں جو شخص جس زمین پر زندگی گزار رہا ہے وہ اس کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کا لکشدیپ میں پاس ولحاظ کیا جائے گا؟ شاید نہیں۔ اس لیے وہاں کے افراد اب اپنی زمینات کے دستاویزات کو ٹھیک کرنے میں جٹ گئے ہیں۔
دوسرا خطرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ لکشدیپ میں اوقافی جائیدادیں بڑی تعداد میں ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ ان جائیداوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لے۔ لکشدیپ میں اوقافی جائیدادیں یا وہاں بھی مغلوں اور نظام کی حکومت تھی؟ نہیں بلکہ وہاں ٹیپو سلطان کی حکومت قائم تھی۔ یہ جزیرہ مالابار علاقہ کا حصہ تھا، جب ٹیپو نے مالابار کو فتح کیا تو لکشدیپ بھی سلطنتِ خدا داد کا حصہ بن گیا اور اس طرح لکشدیپ انگریزوں کے ذریعہ ٹیپو کی شکست تک ٹیپو کی سرحد میں شامل تھا اس لیے وہاں کافی جائیدادیں وقف میں شامل ہیں۔
ان دو قوانین کے درمیان ایک ’’پنچایت ریگولیشن 2021ہے جو وزارت داخلہ کی جانب سے تدوین کیا گیا ہے۔ اسے عوامی رائے حاصل کرنے کے لیے 25فروری کو منظر عام پر لایا گیا۔ اس قانون کی قابل اعتراض شق وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ فرد جس کے دو سے زیادہ بچے ہوں وہ الیکشن میں حصہ لے نہیں سکتا۔ اس پر ماہرین نے کہا کہ اس طرح کا قانون ملک کے کسی بھی حصہ میں نہیں ملتا۔ دوم جزیرے میں آبادی کا مسئلہ ہی نہیں ہے کہ اسے گھٹایا جائے۔ اعداد وشمار کہتے ہیں کہ 2001 میں آبادی کی شرح اضافہ 17.19 فیصد تھی۔ 2011 میں اس میں زبردست گراوٹ آئی اور یہ شرح گھٹ کر 6.3 فیصد ہو گئی ہے۔ یہ شرح قومی شرح سے بھی بہت کم ہے۔ پھر اس قانون کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس سے ’’بھگوا رنگ‘‘ کی بو آرہی ہے۔ قارئین اسے بھی سونگھ لیں اور چوتھا قانون جس کا عنوان ہے ’’دی لکشدویپ اینیمل پری زرویشن ریگولیشن 2021 اسے بھی سونگھ لیں۔ ان دونوں قوانین کے ذریعہ جزیرے کی ترقی کیسے ہو گی؟ اس کے لیے گودی میڈیا سے گیان حاصل کرنا ہو گا۔ اس قانون کے تحت گائے اور اس کی نسل کے تمام جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پابندی اس چھوٹے جزیرے پر جہاں پروٹین حاصل کرنے کے لیے دو اہم غذائیں مچھلی اور بیف ہیں۔ بیف پر پابندی کا مطلب سستی پروٹین سے عوام کو محروم کر دیا جائے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے جاری غذا کے اس اہم حصہ پر پابندی لگا کر شہریوں کے بینادی حقوق کی پامالی کیا جا رہی ہے۔ مبصرین نے سوال اٹھایا کہ یہ پابندی گوا میں کیوں نہیں ہے؟ اس کا مقصد جہاں گائے سے اپنی محبت کا اظہار ہے وہیں بیف کھانے والوں سے نفرت کا۔ بلکہ دوسرا مقصد بھکتوں کو مسرور کرنا چاہے گائے کا جو بھی حال ہو۔لکشدیپ، پتہ نہیں کتنے ہزارہا سالوں سے سمندر سے گھرا ہے لیکن ابھی جس سیاست کے بھنور میں یہ پھنس گیا ہے اس کا علاج تو پہلے درجے میں سیاست ہی ہے۔ مرکزی حکومت کی تبدیلی ہی اسے بھنور سے نکال سکتی ہے۔ بقیہ احتجاجات کا کیا حشر ہو گا اسے دہلی کے ٹیکری اور سینگور بارڈر پر جا کر دیکھ لیں۔ یادداشت مدد کرے تو شاہین باغ کو بھی یاد کر لیں۔ بس اتنا ضرور خیال رکھیں کہ اسےہندو مسلم نہ بننے دیں، یہ جزیرے کے باشندوں اور وہاں کی ماحولیات کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہاں مظلوموں کے ساتھ حق کی لڑائی کمزور پڑ جائے تو لکشدیپ ہی نہیں پوری دنیا رہنے کے قابل نہیں ہو گی۔ حکومت کی نیت حقیقی معنوں میں جزیرے کی ترقی ہے تو ہم اس فیصلے کا استقبال کرتے ہیں لیکن یہ ترقی مقامی باشندوں کی رضامندی سے ہو، وہاں کی کلچر ثفاقت اور ماحولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہو اور وہاں کے عوام غلامانہ زندگی کی بجائے آزاد اور با وقار طریقے پر زندگی گزاریں۔

(سید تنویر احمد، بنگلورو ایک ماہر تعلیم، سیاسی تجزیہ نگار اور
مرکز جماعت اسلامی ہند میں میڈیا شعبے کے سیکریٹری ہیں۔ 9844158731)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021