جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کی قرار دادیں

1. ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی صورت حال

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ہندوستان کی موجودہ سیاسی، سماجی، معاشی اور امن و امان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

اجلاس محسوس کرتا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں ہمارے ملک میں جس تیزی کے ساتھ غربت و بے روزگاری، مذہبی منافرت، مطلق العنانیت، عدم شفافیت اور لاقانونیت کا اضافہ ہوا ہے وہ ملک کے تمام سنجیدہ شہریوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی صورت حال اس معاملے میں سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔وہاں ایک طرف تو صوبائی حکومت کی نااہلی کے سبب ریاست کے تمام شعبےبدانتظامی اور بدحالی کا شکار ہیں، عوام غربت اور بے روزگاری سے پریشان ہیں اور دوسری جانب سیاسی مخالفین اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھوٹنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ لوگوں پر ملک سے غداری کے مقدمات درج ہورہے ہیں، انکاونٹر کے نام پر سیاسی قتل کا بازار گرم ہے، شکایت کرنے والوں کو جائیدادوں کی ضبطی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، غرض پوری ریاست ایک طرح سے افراتفری کا شکارہوچکی ہے۔ گروہی تشدد اور ماب لنچنگ کے واقعات میں پھر ایک بار اچانک اضافے سے واضح ہوتا ہے کہ ناپاک سیاسی مقاصد کے لیے قتل و غارت گری کے رجحانات پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اس امر پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت نے الیکشن کمیشن، ریزرو بینک، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور سی بی آئی جیسے اہم اور باوقار آئینی اداروں کے علاوہ جمہوریت کے بنیادی ستونوں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرکے ان کی خودمختاری اور سالمیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔

مجلس شوریٰ کا یہ بھی احساس ہے کہ اس صورت حال میں ملکی ذرائع ابلاغ کےبڑے حصے نے بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، عوام کے مسائل کو منظر عام پر لانے، حکومت کی غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرکے ان کی اصلاح کرنے اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے کے بجائےوہ پوری طرح حکومت کی مدح سرائی میں مصروف ہوکر سرکاری ترجمان کی صورت اختیار کررہے ہیں۔

مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ اس وقت ملک کی معیشت اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔قومی پیداوار کی تیزرفتار گراوٹ اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح نے اب انتہائی تشویش ناک رخ اختیار کرلیا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی اپنے شباب پر ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، پٹرول کی قیمت بڑھتے بڑھے سو روپے اورخوردنی تیل کی قیمت دوسو روپئے فی لیٹر سے پار ہوگئی ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے سبب معیشت کی جو کمر ٹوٹی تھی اسے عالمی وبا کے دوران کی بد انتظامیوں، لاک ڈاؤن کی سختیوں، مہاجر مزدوروں اور دیگر تباہ حال لوگوں سے مکمل لاپروائی اور دیگر تباہ کن معاشی و سیاسی پالیسیوں نے پوری طرح تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ فی کس آمدنی میں بنگلہ دیش جیسے ملک سے پچھڑ جانا اور عالمی بھوک کے اشاریے (Global Hunger Index) میں اپنے پڑوسیوں سے بد تر صورت حال کا مظاہرہ ملک کے لیے شرم کا باعث ہے۔

مجلس شوریٰ کا یہ بھی احساس ہے کہ ملک کی سماجی صورت حال تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے۔ کم زور و پس ماندہ طبقات، اقلیتیں اور خواتین پر زیادتیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیاستدان، اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لیے متشدد راشٹرواد، بغض و عناد اور نفرت کے ذریعے عوام کی مذہبی خطوط پر تقسیم اور پولارائزیشن کی جو حکمت عملی اختیار کررہے ہیں وہ ملک کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

لکشدیپ میں جس طرح مرکزی حکومت کے ایڈمنسٹریٹر کو کلی اختیارات دینے کی کوشش ہورہی ہے اور جس طرح لکشدیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن 2021 کے ذریعے ان جزائر کے عوام سے ان کے تہذیبی، ثقافتی حقوق چھیننے کی کوشش ہورہی ہے اور بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر لوگوں کو ان کی زمینوں سے محروم کرنے کے لیے ظالمانہ قوانین مسلط کیے جارہے ہیں نیز پاسا (Lakshadweep Prevention of Anti-Social Activities Act) جیسے قوانین کے ذریعے یہاں کے لوگوں کے بنیادی شہری حقوق اور اختلاف و احتجاج کے حق کو سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے بھی حکومت کے عوام مخالف اور استبدادی رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔ اجلاس لکشدیپ سے متعلق ان ظالمانہ قوانین کی فوری منسوخی کا مطالبہ کرتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ اس مجموعی صورت حال کو ملکی استحکام و سالمیت، امن و امان کی بقا، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور ملک کی ترقی کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کو تبدیل کرے۔ سیاسی مفادات اور گروہی و فرقہ وارانہ مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کو درپیش حقیقی مسائل پر توجہات کو مرکوز کرے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں، سول سو سائٹی کی تحریکوں اور سماجی تنظیموں و ماہرین کو ساتھ لے کر ایک ایسی قومی پالیسی وضع کرے جس سے ملک میں امن و امان، معاشی آسودگی، فلاح و بہبود اور ایک منصفانہ نظام کی راہ ہم وار ہوسکے۔

اجلاس پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے اور فرضی مقدمات ختم کیے جائیں۔ حکومت کے الزامات سے قطع نظر، سارا ملک جانتا ہے کہ یہ سیاسی قیدی محض حق گوئی اور حکومت کی مخالفت کی پاداش میں جیلوں میں بند کیے گئے ہیں۔ وبا کے زمانے میں انھیں جیل میں بند رکھ کر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا نہایت قابل مذمت حرکت ہے۔

اجلاس متوجہ کرتا ہے کہ وباؤں اور قدرتی آفات کے ذریعے ہمارا خالق و مالک ہم کو اپنی اجتماعی غلطیوں پر متنبہ کرتا ہے۔ وبا کے اذیت ناک اور تشویش ناک حالات میں بھی ظلم و زیادتی اور لوٹ کھسوٹ سے باز نہ آنا نہایت سنگین بات ہے۔

مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس حزب اختلاف کے رول پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ ان حالات میں حزب اختلاف کو جس جراء ت و حوصلے کے ساتھ آگے آنا چاہیے اور عام شہریوں اور مظلوم طبقات کی آواز بن کر حکومت پر دباو ڈالنا چاہیے، واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن قائدین بھی یہ رول ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں امن وامان، عدل و انصاف اور دیانت و شفافیت کے فروغ نیز تمام آزاد جمہوری اداروں اور میڈیا کی آزادی کو بحال کرنے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتیں، سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کوشش کریں۔ مجلس شوریٰ ملک کے سنجیدہ شہریوں سے بھی اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس صورت حال کا سخت نوٹ لیں اوراسے تبدیل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔

 

2. کورونا وبا

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس کوویڈ کی دوسری لہر کے سبب ٹوٹنے والی عظیم مصیبت پر شدید دکھ اور اس سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔کوویڈ کی اس دوسری لہر کے دوران بے شمار لوگ موت کا شکار ہوگئے، اجلاس ان تمام اموات پر گہرےرنج کا اظہار کرتا ہے اور اپنے عزیزوں کو کھودینے والے تمام خاندانوں کے غم میں پوری طرح شریک ہے۔

مجلس شوریٰ کا یہ احساس ہے کہ کوویڈ کی اس وبا نے مادی ترقی کے غرور کو خاک میں ملاکرہم انسانوں کو اپنی اصل حقیقت سے واقف کرایا۔ اس وبا نے ہم کو اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنی حیثیت پر غور کریں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع ہوں۔

مصیبت کی اس گھڑی میں جن ڈاکٹروں، طبی عملے کے ارکان، فلاحی تنظیموں اور سماجی کارکنان نے انسانی جانوں کے تحفظ اور خلق خدا کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کسی مفاد کے بغیرجدوجہد کی اورمذہبی منافرت کے ماحول میں بھی فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور انسانی محبت کا مظاہرہ کیا، اجلاس ان تمام افراد اور اداروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

اجلاس اہل ملک کو متوجہ کرتا ہے کہ اس وبائی صورت حال نےملک میں لوگوں کی اخلاقی صورت حال کو سمجھنے کا بھی موقع فراہم کیا ہے۔وبا کے دوران بعض کارپوریٹ اسپتالوں کے مالکین نے جس طرح مجبور مریضوں کا مالی استحصال کیا، جس طرح دواوں اور طبی وسائل کی تجارت کو فوری کمائی کا ذریعہ بنایا گیا، کالا بازاری کی گئی بلکہ جعلی دواوں کو فروخت کرنے کی کوششیں ہوئیں، سیاست دانوں کی جانب سے تک ہسپتال کے بستروں کی کالابازاری کی کوششیں ہوئیں، یہ سب واقعات نہایت تشویش ناک ہیں اور ملک کی ابتر اخلاقی صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں۔خونی رشتوں سے لاتعلقی اور انسانی لاشوں کی بے حرمتی کے تکلیف دہ مناظر نے بنیادی انسانی اخلاقیات کے حوالے سے ملک کی صورت حال کو جس طرح واشگاف کیا ہے وہ پورے سماج کے لیے لمحہ فکر ہے۔

اجلاس کا یہ احساس ہے کہ اس وبا کے دوران مذہبی میلوں کے انعقاد اور سیاسی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے احتیاطی تدابیر کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اور احتیاطی تدابیر کو بھی جس طرح سیاسی و فرقہ وارانہ ایجنڈے کا جز بنانے کی کوشش کی گئی، اس نے اس وبا کو تیزی سے پھیلنے اور بے شمار افراد کو ہلاکت سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اجلاس اس طرح کے غیرذمہ دارانہ رویے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کر ان واقعات کی سنجیدہ تحقیق کرائی جائے، خاطیوں کو سزا دی جائے اور آئندہ اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے صحت عامہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو مستحکم کرنے اور انھیں کسی سیاسی مداخلت کے بغیر اپنے اصول وضوابط طے کرنے اور انہین نافذ کرنے کامکمل اختیار دیاجائے۔

اجلاس محسوس کرتا ہے کہ وبا کے دوران کئی ریاستوں میں جس طرح سے مناسب توجہ اور منصوبہ بندی کا فقدان، اسپتالوں کی کمی، موجود اسپتالوں میں ضروری طبی سہولتوں کا فقدان، دواوں کی کمی، آکسیجن کی قلت کا بحران وغیرہ دیکھنے میں آیا اس سے ہمارا نہایت کم زور نظام صحت پھر ایک بار بےنقاب ہوا ہے نجی اسپتالوں کی لوٹ کھسوٹ، ضروری دواوں اور آکسیجن کی کالا بازاری کو روکنے میں ناکامی سے نظام صحت میں مناسب ضوابط (regulations) کی کمی کا احساس بھی ہوا۔ یہ اجلاس مرکزی و ریاستی حکومتو ں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ترجیحی طور پر نظام صحت اور طب و صحت سے متعلق انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے فوری اور تیز رفتاراقدامات کریں۔

اجلاس کا یہ احساس ہے کہ اس وبائی صورت حال نے ملکی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے، وبا پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں اور غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن نےمعیشت کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مرکزی حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے سبب ملکی معیشت پہلے ہی سے شدید بحران کی شکار تھی اوراس لاک ڈاؤن نے تو اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ درمیانی اور چھوٹے پیمانے کی ہزاروں صنعتیں دم توڑ چکی ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملکی معیشت، خاص طور پر درمیانی و چھوٹے پیمانے کی صنعتوں اور تجارتوں کو دوبارہ مستحکم ہونے اوراپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے بلاسودی قرضوں کی فراہمی جیسے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور اس دوران بے روزگار ہونے والوں کو حکومت کم از کم ایک سال ماہانہ وظائف جاری کرے۔ اجلاس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ وبا سے مرنے والوں کی بیواوں اور یتیموں کی ذمہ داری حکومت اپنے سر لے، یتیم بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام کرے اور خاندان کے کسی فرد کو روزگار فراہم کیا جائے۔

کوویڈ کی تیسری لہر کا بھی انتباہ دیا جارہا ہے۔ اجلاس کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس تیسری لہر سے نمٹنے کی قبل از وقت مناسب اور ضروری تیاری کرے تاکہ عوام کو کسی بڑی مصیبت سے بچایا جاسکےاور زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کی حفاظت ہوسکے۔ اس کے علاوہ مرض سے بچاؤ کے لیے حکومت تمام شہریوں کو مفت ویکسین فراہم کرے، ویکسین کی قلت کے مسئلے پر قابو پائے اور ایسے اقدامات کرے کہ سب کو ویکسین کی فراہمی ممکن ہوسکے۔

یہ اجلاس عوام سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ویکسین کے بشمول تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے اہل خاندان کو اس وبائی مرض سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور خوف و دہشت کا شکار ہوئے بغیر دوسرے انسانوں کی خدمت اور انسانی جانوں کی حفاظت میں اپنا رول ادا کریں۔

 

3.اسرائیل کی تازہ جارحیت اور مسئلہ فلسطین

جماعت اسلامی ھند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ مشرقی یروشلم اور غزہ پٹی پر تازہ اسرائیلی جارحیت نے ایک بار پھر دنیا کو مسئلہ فلسطین اور اس کے مستقل و پائیدار حل کی ضرورت کی طرف متوجہ کردیا ہے۔ امن عالم اور مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلانے کا اولین تقاضا ہے کہ دہائیوں پر محیط اس پیچیدہ مسئلہ کا جلد از جلد پائیدار و منصفانہ حل نکالا جائے۔

مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرےمیں مسجد اقصی میں عبادت میں مصروف نہتے فلسطینی مرد و خواتین کو اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے جارحیت کا نشانہ بنانا، شیخ جراح اورمشرقی یروشلم و مغربی کنارے کی فلسطینی بستیوں کو جبراً خالی کراکر نئی یہودی بستیاں آباد کرنا اور اس پر احتجاج کرنے والوں کو زدوکوب کا نشانہ بنانا وہ عوامل تھے جس نے حماس کو جوابی کارروائی پر مجبور کیا۔

مجلس شوریٰ کا احساس ہے کے 11 دنوں کی اسرائیلی جارحیت نے اس پیچیدہ مسئلے کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ ایک بار پھر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم، فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضہ اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی آبادکاری، مشرقی یروشلم اور مسجد اقصی کی موجود کیفیت ( status quo) کو تبدیل کرنے کی لگاتار غیر قانونی کوششیں بے نقاب ہوکر دنیا کے سامنے آگئیں۔ ہم یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس صورت حال نے عالمی رائے عامہ پر گہرا اثر ڈالا ہے اور دنیا میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف اور فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کے حقوق کے حق میں تیزی سے رائے عامہ بدل رہی ہے۔

ایک خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے اکثریتی قرار داد کے ذریعے اسرائیلی جنگی جرائم کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ یہ کمیشن ہر قسم کے دباو سے آزاد ہوکر اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیق کرے اور اسرائیلی سیاستدانوں اور فوجی قائدین پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرے۔

شوریٰ کا احساس ہے کہ فلسطینیوں کی جراءت مندانہ دفاعی کارروائی نے نہ صرف اسرائیل کے ناپاک عزائم کو لگام دی ہے بلکہ اس احساس کو بھی پاش پاش کردیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے۔ ہم اہل فلسطین کو اس پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حالیہ واقعات ان کی آزادی کی منزل کو قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

مرکزی مجلس شوریٰ اس پورے مسئلہ میں اکثر اسلامی و عرب ممالک کی خاموشی اور بے عملی کو بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ نہ صرف غزہ کی تعمیر نو میں دل کھول کر حصہ لیں بلکہ اس مسئلہ کے منصافہ حل کے لیے اسرائیل اور بین الاقوامی اداروں و ممالک پر دباؤ بھی بنائیں۔

مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اپنے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کرتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے وقتی جنگ بندیاں اور مذمتی قراردادیں کافی نہیں ہیں بلکہ اقوام عالم کو متحد ہوکر فلسطین کی آزاد، خود مختار ریاست کو بحال کرنے اور اسے صیہونیوں کی ہر قسم کی مداخلت سے محفوط رکھنے کا مستقل انتظام کرنا چاہیے، فلسطینی مہاجروں اور پناہ گزینوں کو وطن واپسی اور چھینی گئی زمینوں کو حاصل کرنے کا بنیادی حق دلانا چاہیے اوراس مقصد کے لیے اسرائیل کے خلاف وہ ساری کاروائیاں ہونی چاہیے جن کی اقوام متحدہ کا چارٹر ظالم اور قانون شکن ملکوں کے خلاف اجازت دیتا ہے۔

اس واقعہ کا ایک خوش گوار پہلو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے ملک نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لیے مکمل تائید کا اعلان کیا، اس مسئلہ کے پائیدار و منصفانہ حل کی تائید بھی کی نیز یہ انتباہ بھی دیا کہ علاقہ کی حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرکے عدم توازن نہ پیدا کیا جائے۔ ہم اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارا ملک ھندوستان مسئلے کے پائیدار حل کے لیے سرگرم رول ادا کرے گا اور استعمار، غلامی و استحصال کے خلاف اپنے دیرینہ موقف کا لحاظ رکھتے ہوئے فلسطین کے مظلوم عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لیے اپنے عالمی اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کرے گا۔

مرکزی مجلس شوریٰ اپنے ملک کے ارباب حل و عقد اور سول سوسائٹی کو بھی آواز دیتی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔