!مہاراشٹر: مذہبی جنون اور فساد کے دہانے پر

2009 فساد جیسی صورتحال پیدا کرنے کی سازش سے خبرداررہیں

شیوراج کاٹکر،( ترون بھارت )

مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں مذہبی مقامات کے تقدس کی پامالی، مورتیوں کی بے حرمتی، پوسٹروں کو نقصان پہنچانا، رات کو کھلی جگہوں پر مورتیوں کو کھڑا کرنا، جلوسوں کے دوران جھگڑے جیسے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے آکولہ میں ایک شخص کی موت ہوگئی اور شیوگاؤں میں آتشزدگی کی وارداتیں ہوئیں۔ ترمبکیشور میں ماحول گرم ہو گیا۔ مہاراشٹر فسادات کے دہانے پر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ موجودہ ماحول میں نوجوانوں کو اپنے گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے دو بار سوچنا چاہیے۔
2009 کے بعد مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے واقعات میں کمی آرہی تھی۔ 2009 میں مہاراشٹرا کے علاقہ میراج میں فسادات کے بعد، اس کے اثرات پورے مہاراشٹر میں پڑنے لگے۔ اس وقت ہونے والے فسادات میں نوجوانوں اور معصوموں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ فسادات میں ملوث پائے جانے والے ہر طرف کے سیاسی رہنما بری ہو گئے۔ جو فائدے انہیں ملنے تھے وہ بھی ختم ہوگئے۔ لیکن وہ نوجوان جو ہنگاموں، نعروں، ہجوم کا حصہ بننے اور گمراہ کن تشدد کا مشاہدہ کرنے کے لیے اس میں گھس پڑے تھے انہوں نے ایک طرح سے14 سال کا ’بن باس‘ گزارا۔ بہت سے لوگ سرکاری نوکریوں کی تلاش میں تھے تاہم، فسادات کے ملزمین ملازمت کے لیے درخواست نہیں دے سکے کیونکہ مقدمات زیرالتوا تھے اورعمر کے 13 سال اسی میں گزر گئے۔ اور اب عدم ثبوتوں کی بنا پر بری ہونے کے بعد بھی ایک طرح سے عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں! متاثرہ افراد میں بہت سے لوگ شادی شدہ نہیں ہیں۔جن کی شادی ہوگئی ان کی زندگی بھی سازشوں کے سبب دشوارہوگئی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہنگامے کے ایک ایک لمحے کو یاد کیاجائے۔ فسادات میں حصہ لینے والے یہ سوچ کر حصہ لیے تھے کہ وہ اپنے مذہب اور ذات کے لیے لڑرہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی ان کی ضمانت دے کر ان کو بچانے نہیں آیا۔ ڈیڑھ سے دو ماہ جیل میں رہنے کے بعد اہل خانہ ضمانت کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ باہر آنے کے بعد نہ کوئی ان کی مدد کرنے والا تھا، نہ مقدمہ چلانے والا!
آٹھ دس نوجوان اکٹھے ہو جاتے اور وکیل فراہم کر کے تاریخ پر حاضر ہو جاتے۔ ہر کیس میں چونکہ 100، 700 ملزمان ہیں، سب کے سب حاضر نہیں ہوتے، اس لیے جج اگلی تاریخ دیتے۔ پرائیویٹ ملازمت پر13 سال کی چھٹی لے کر دی گئی تاریخوں پر حاضری دینا اور ہر تاریخ کو وکیل کے ہاتھ میں 200-500 کا نوٹ رکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ ان کی خوش قسمتی سمجھئے کہ امن قائم کرنے کے لیے پولیس نے تمام جرائم کے الزماات لگاتے ہوئے مقدمات درج کردئیے!
ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر مختلف جرائم میں کیسے ملوث ہو سکتا ہے؟ 14 سال سے ملزم کہلانے کی توہین، عدالت کی بے عزتی، ہر تہوار پر نوٹس۔ یہ سب ایک بڑی سزا ثابت ہوئی۔ زندگی کے سفر میں یہ عذاب کا مزہ بھی چکھنا پڑا!
اتنی تفصیل سے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ گزرے ہوئے مہینے کے واقعات کا محض تصور کرتے ہوئے ان کا ذکر کیے بغیر 14 سال بعد پھر وہی صورت حال سامنے ہے۔ کیا اس طرح کے فسادات مہاراشٹر کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں اور کیا ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے نوجوان اسی طرح مشتعل ہوں گے؟ اس طرح کے شکوک و شبہات کے لیے ماحول کافی سنجیدہ ہے۔
مہاراشٹر کے چھوٹے گاؤں میں مندروں اور مساجد کی بے حرمتی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر جلوسوں کے ساتھ اکسانے والے گانے اور رقص اور جواب میں پتھراؤ کیا جاتا ہے۔ 2020 میں جلگاؤں کے راور میں اس وقت بھی ہنگامہ ہوا جب کورونا کے دوران عوامی کرفیو کے لیے دفعہ 144 نافذ تھی۔ دہلی اور تریپورہ میں فسادات امراوتی، ناندیڑ، مالیگاؤں، یوتمال کے پوسد، واشیم کے کارنجا میں ہوئے۔ حال ہی میں ممبئی کے اورنگ آبادکے مالوانی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اکولا، شیوگاؤں کے واقعات ان کے لیے تازہ ہیں۔
واٹس ایپ یونیورسٹی کی من گھڑت کہانیوں، تحریف شدہ ویڈیوز، اور اب کیا ہونے والا ہے جانیے۔۔ اس طرح کے عنوان اب سبھی کے موبائل اور سروں پر قبضہ کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں پولیس کے متحرک ہونے کی توقع ظاہر کی ہے لیکن یہ ایک توقع ہی ہے۔ کچھ جگہوں پر فسادات کے دوران پولیس افسران کے لاپتہ ہونے کے الزامات ہیں۔ یہ سب باتیں امن کے لیے نہایت خوفناک ہے۔
معاشرے کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو اس سب کے پیچھے سماجی مسائل سے ناواقف ہو۔ نہ صرف افراد اور ادارے بلکہ سیاسی جماعتیں بھی سیاسی فائدے کے لیے دونوں طرف کام کر رہی ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کے خلاف سرگرمی دکھانا چاہتے تھے وہ خاموش ہیں۔ نتیجتاً مذہبی جنون کو فروغ دینے والے اب نفرت کو بڑھا کر اپنے پیچھے گمراہ نوجوانوں کی بھیڑ بڑھانا چاہتے ہیں۔
( بشکریہ ترون بھارت۔ مراٹھی سے ترجمہ: ڈاکٹر کلیم محی الدین )
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023