خبرونظر

پرواز رحمانی

کرناٹک کے بعد
کرناٹک اسمبلی کی شکست کے بعد مرکز کی حکمراں پارٹی بد حواس ہوگئی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آئندہ سال لوک سبھا کے الیکشن جیتنے کے لیے کیا جتن کرے۔ ویسے یہ بات پہلے سے کہی جارہی تھی کہ لوک سبھا 2024 کے انتخابات بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہوں گے۔ اگر بی جے پی ہار گئی تو کمزور ہوکر ختم ہو جائے گی اور اگر کانگریس ہار گئی تو کہیں کی نہیں رہے گی، اس لیے الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی نے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرلیے۔ بجرنگ بلی کی صورت میں ہندوتوا کا حربہ بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا مگر کوئی ہتھکنڈا کامیاب نہیں ہوا۔ کانگریس نے بھی جم کر مقابلہ کیا، ورنہ 2014 سے وہ برائے نام مقابلہ کرتی آ رہی تھی۔ کرناٹک میں کانگریسی جیت اور خوب جیتی، بی جے پی کے لیے لوٹس آپریشن کی کوئی گنجائش نہ چھوڑا۔ دیوے گوڑا کا جنتادل سیکولر بے دم ہو گیا۔ ویسے بھی وزیر اعظم کی حیثیت سے دیوے گوڑا کو ہٹنے کے بعد جے ڈی ایس کا کوئی اعتبار نہیں رہ گیا تھا، وہ صرف جوڑ توڑ کی سیاست کر رہی تھی۔ جو مسلمان اس کے حمایتی تھے اس بار وہ بھی دور ہوگئے تھے۔ اب وہ کانگریس کا حصہ ہیں۔ کابینہ میں ایک مسلم کو لے کر اور ایک مسلم کو اسپیکر بناکر کانگریس نے دور اندیشی کا کام کیا ہے۔

سوشل میڈیا
ریاستی اسمبلی کرناٹک کے انتخابات کے بعد ملک کے میڈیا اور سوشل حلقوں میں مسلم شہریوں کا تذکرہ بھی برابر ہو رہا ہے، بالخصوص سوشل میڈیا میں کسی نہ کسی چینل پر آئے دن یہ تذکرہ ہوتا ہے۔ کرناٹک الیکشن کے دوران آر ایس ایس اور اس کے جھنجھنوں کی طرف سے زبردست اشتعال انگیزی کے باوجود مسلمانوں کے ضبط و تحمل کو اس میڈیا نے نوٹ کیا ہے۔ ہر چند کہ کوئی بڑی پارٹی مسلم شہریوں کا کسی طرح ذکر نہیں کرتی لیکن سوشل میڈیا چینلوں پر ان کا ذکر مستقل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی یہ بات بھی بہرحال درست ہے کہ کرناٹک کے بعد دیگر ریاستوں اور شمالی ہند میں بھی مسلمانوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ جن ریاستوں میں یا ریاستوں کے حصوں میں خاطر خواہ مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں بھی انتخابات کے اعداد و شمار پر بات ہوتی ہے۔ اس حوالے سے 2024 کے انتخابات کا حساب ابھی سے لگایا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم شہریوں کو اب بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایاوتی کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے وہ بی جے پی کے لیے کام کرتی ہیں اور اسی کی مدد سے ایک بار پھر یو پی کی وزیر اعلیٰ بننا چاہتی ہیں۔

ذمہ دار شہری موجود ہیں
یہ جو آج کل ایک مخصوص حلقہ مسلمانوں اور کچھ دوسرے طبقات کے خلاف لگاتار شرارتیں کر رہا ہے، جس سے کہ ماحول خواب ہو رہا ہے، سوشل میڈیا عام طور سے اس پر تنقید کرتا ہے۔ بعض اینکرس تو اس کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہندوتوا کے خلاف بھی بہت بولتے ہیں، حکومت اور حکمراں پارٹی نیز پرائم منسٹر کی ہر غلط بات کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ دیپک شرما، ابھیسار شرما، سنجے شرما شمبھو سنگھ، آشوتوش، راجیو رنجن، اشوک وان کھیڑے شرد پردھان اور ان جیسے درجنوں اینکرز ہیں جو حالات کا جائزہ بہت گہرائی کے ساتھ کرتے ہیں اور بے لاگ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے درجنوں پینلسٹس ہیں جو ہر بات کا جائزہ غیر جانب داری کے ساتھ لیتے ہیں۔ ان چینلوں اور اخباروں کو مسترد کرتے ہیں جو صرف حکومت اور حکمراں پارٹی کی یکطرفہ ستائش کرتے ہیں، اس میڈیا کو یہ اینکرس ’’گودی‘‘ میڈیا کہتے ہیں۔ بہرحال اطمینان کی بات ہے کہ میڈیا کا ایک مضبوط حصہ مسلم شہریوں کے بارے میں مثبت باتیں کہتا اور لکھتا ہے۔ گودی میڈیا کے چینلس اور اخبارات اسی لیے بہت زیادہ بے لگام نہیں ہو پاتے۔