!بھارت میں مذہبی آزادی کو خطرات

بامبے ہائی کورٹ کی گوا بنچ کا فیصلہ تاریکی میں امید کی کرن

نور اللہ جاوید

عیسائی جوڑے نے حق وانصاف کے حصول کی راہ دکھائی
استقلال اور یقین محکم کے ذریعہ مذہبی آزادی کا تحفظ ممکن
پارلیمنٹ کی عمارت جمہوریت اور عوام کی شراکت کی  مظہر ہوتی ہے مگر 28مئی 2023  کو ٹی وی چینوں ور اخبارات میں اس کی افتتاحی تقریب کا جو انداز اور طریقہ کا ر دکھایا گیا ہے اس نے بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مستقبل اور اس کی بنیادی روح کی بقا کے تعلق سے خدشات کو مزید گہرا کردیا ہے۔افتتاحی تقریب کے سلسلے میں حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا اور ملک کی بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا ۔مگر سوال سیاسی تنازع کا نہیں ہے اس لیے ہمارے سامنے یہ سوال سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس معاملے میں کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب کے ابتدائی مناظر جو ٹی وی اسکرین پر بار بار دکھائے جارہے تھے کیا وہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے لیے مناسب تھے۔ ایسا ملک جہاں تمام مذاہب اور گروہوں کو یکساں مواقع اور احترام کی ضمانت دی گئی اور جس ریاست کا  اپنا کوئی مذہب نہیں ہے اس کا آئین اس طرح کی تقریب منعقد کرنے کی اجازت دیتا ہے؟کیا اس سے مذہبی آزادی متاثر نہیں ہوگی؟ممکن ہے کہ ان مناظر کے ذریعہ حکمراں جماعت مذہبی پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوجائے اوراس کی بنیاد پر اگلے برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسے  تیسری مرتبہ اقتدار تک پہنچنے میں کامیابی بھی مل جائے لیکن کسی ملک کی جمہوریت اور اس کے سیکولر کردار کی بقا کا انحصار صرف انتخابات پر نہیں ہوتا بلکہ آئین کی روح اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے افتتاحی تقاریب کے مناظر  ملک کے دستور اورآئین کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہیں یا نہیں ؟اس سوال کاجواب ملک کے ہر باشعور شہری کوغور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ گاندھی ، نہرو، امبیڈکراورمولانا آزاد جیسے عظیم لیڈروں کے ملک میں پارلیمنٹ کے افتتاح کےلئے علامتی طور پر جس دن کا انتخاب کیا گیا اور افتتاح کے موقع ساورکی تصویر پر جس انداز میں گل پوشی کی گئی وہ بھارت کی جمہوریت کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے۔ایک طرف گاندھی کے افکار و نظریات ہیں اور دوسری طرف ساورکر اور سنگھ پریوار کے لیڈروں کی سوچ ہے ۔گاندھی جمہوریت کی بقا کےلئے تمام طبقات کی حصہ داری اور مواقع کی وکالت کرتے ہیں تو دوسری طرف ساورکر اور ان کے ہمنوا ہیں جو ملک کی اقلیت کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی وکالت کرتے ہیں ۔اس کے باوجود جمہوریت کی علامت کہی جانے والی عمارت پارلیمنٹ میں گاندھی اور ساورکر کی تصاویر کی ایک ساتھ گل پوشی ہوتی ہے تو پھر اسے تضادات ہی کہاجاسکتا ہے۔بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ساورکر کے نظریات اور فکر کے علمبرداروں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کا تحفظ کریں گے؟ چناں چہ ایک طرف پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہورہا تھا تو دوسری طرف اپنے حقوق اور عزت نفس کی حفاظت کےلئے جدو جہد کرنے والی خواتین ریسلرس پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہورہی تھیں اور اس معاملے کا ملزم  اسی تاریخی عمارت میں بیٹھ کر پورے واقعہ پر مسکرارہا تھا۔جب ہماری جمہوریت اس سطح تک پہنچ جائے اور امریکہ یا کچھ اور غیر سرکاری تنظیمیں بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہیں تو حکومت چراغ پا کیوں ہوجاتی ہے ؟ اور پوری شدت کے ساتھ اس کی تردید میں کیوں لگ جاتی ہے؟
بھارت میں مذہبی آزادی پر امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ
16مئی کو امریکہ کی وزارت خارجہ کے تحت کام کرنے والے ’’بین الاقوامی مذہبی آزادی ‘‘ ادارے کی رپورٹ میں بھارت سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا گیا اور جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی وہ کافی اہم ہیں۔ اگر اس رپورٹ کا زمینی حقائق اور حالیہ واقعات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ بے جااور تعصب پر مبنی نہیں ہیں بلکہ گرد وپیش میں ہونے والے واقعات شہادت دیتےہیں کہ بھارت میں تعصب اور نفرت  نےادارہ جاتی شکل اختیار کرلی ہے  ۔اس رپورٹ کا وہ حصہ سب سے زیادہ تشویش نا ک ہے  کہ جس میں امریکہ ہولوکاسٹ میوزیم کے ایک پروجیکٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ بھارت اس وقت نسل کشی کے سب سے زیادہ خطرے والے 162 ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔اس طرح کے خدشات پہلے بھی ظاہر کئے گئے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کا خدشہ مزید قوی ہوگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان خدشات اور اندیشوں کی بنیاد کیا ہے؟ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت،1.4بلین افراد کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا متنوع تہذیب و کلچر کا حامل اور اسلام، ہندومت،  عیسائیت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مت سمیت بہت سے مختلف مذاہب  کا ملک ہے۔ بھارت کا آئین سیکولراقدار وروایات پر مبنی ہے، مگرحالیہ برسوں میں آئینی ضمانت کےباوجود بھارت میں مذہبی آزادی کو مختلف خطرات لاحق ہیں ۔متعدد ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر امتناع کا قانون نافذ ہے ۔جس کی آڑ میں مذہبی اقلیتوں پرحملےہوتے ہیں۔بالخصوص مسلمان انتظامی طور پرامتیازی سلوک کا شکار ہیں -گئو ذبیحہ مخالف قانون کی وجہ سے اکثر گائے کے نام پرمو ب لنچنگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں اوراقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے گائے کے تاجروں پر حملے ہوتے ہیں۔ بھارت میں ’’غیر انسانی بیان بازی‘‘  اور’’نفرت پر مبنی تشدد‘‘ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے تشدد کی متعدد رپورٹیں موصول ہوئی ہیں، جن میں گجرات میں سادہ لباس پولیس نے اکتوبر میں ایک تہوار کے دوران ہندو عبادت گزاروں کو زخمی کرنے کے الزام میں چار مسلمانوں کو سرعام کوڑے مارے تھے۔ مدھیہ پردیش کی حکومت گزشتہ سال اپریل میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں  پر  بلڈوزر چلا یا تھا ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ستمبر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے مسلم کمیونٹی کے پانچ سرکردہ ارکان سے ملاقات کی تاکہ ان کے تحفظات کو سن کر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔بھاگوت نے مبینہ طور پر مسلم اور ہندو برادریوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے مقصد سے مسلسل ملاقاتیں کرنے کا وعدہ کیا۔ بھاگوت نے آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ عمر احمد الیاسی کے تعاون سے دہلی میں واقع ایک  مدرسے کا بھی دورہ کیا۔ 2021 میں، بھاگوت نے عوامی طور پر کہا تھا کہ ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے اور گائے کے ذبیحہ کے لیے غیر ہندوؤں کو مارنا ہندو مذہب کے خلاف عمل ہے۔تاہم ان بیانات کا زمینی سطح پر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی وزارت خارجہ اور بین الاقوامی حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں نے بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے لگاتار اس طرح کی رپورٹیں آرہی ہیں ۔بلاشبہ امریکہ بذات خود حق و صداقت کا معیار نہیں ہے، اس کے ادارے بھی مکمل شفافیت سے کام نہیں کرتے ہیں ، تاہم دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور حقوق انسانی کے حوالے سے امریکہ کی رپورٹ کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں سوال امریکہ سے بھی ہے کہ وہ ان رپورٹوں کے ذریعہ اصلاح اور زیادتی کے شکار کمیونیٹی کے حالات کو بہتر بنانے کےلئے کیا اقدامات کرتا ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو وہ ان رپورٹوں کومذکورہ ممالک کو بلیک میل کرنے کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔چناں چہ 2022کی رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جون میں وزیرا عظم نریندر مودی امریکہ کے دورے پر جائیں گے اور امریکی صدربائیڈن ایوان صدر میں وزیر اعظم کو عشائیہ بھی دیں گے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ وہی امریکہ ہے جس نے گجرات فسادات کے بعد وزیر اعظم مودی پر پابندی عائد کردی تھی۔تضادات کی شکار ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ ایک طرف وہ وزارت خارجہ کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کررے ہیں تو دوسری طرف بائیڈن کے دست شفقت پر گدگدائے ہوئے  بھی ہیں ۔
بھارت میں مذہبی آزادی اور موجودہ حکمرانوں کا رویہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت کے آئین میں مذہب اور ضمیر کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔آرٹیکل 14،آرٹیکل 15،آرٹیکل19،آرٹیکل 19(a)،آرٹیکل 25اور آرٹیکل26جیسے دفعات مذہبی آزادی، یکساں مواقع ، مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے ، مذہب کی تبلیغ کرنے ، مذہبی ادارے قائم  کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔تاہم دنیا کے بیشتر ممالک میں کوئی بھی بنیادی حقوق مطلق نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ امن وامان ، صحت عامہ کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں۔بھارت میں بھی  آزادی رائے مطلق نہیں ہیں ۔تاہم حالیہ برسو ں میں کئی ایسی آئینی ترامیم کی گئی ہیں جس سے مذہبی آزادی، اظہار رائے کی آزادی براہ راست متاثر ہوئی ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال تبدیلی مذہب مخالف قانون ہے۔ہفت روزہ دعوت کے ان ہی صفحات میں ہم نے ’’بھارت میں تبدیلی مذہب‘‘ حقائق اور اس کے خلاف بننے والے قوانین کا تذکرہ کیا تھا۔یہاں اس کے تکرار کی گنجائش نہیں ہے۔مگر تبدیلی مذہب مخالف قانون کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر یہ قانون سازی  لالچ اور مالی حرص کے ذریعہ مذہب تبدیل کروانے والوں کے خلاف کی گئی ہے مگر اس قانون کی آڑ میں گزشتہ چند برسوں کے دوران جو کاروائیاں ہوئی ہیں وہ واضح کرتی ہیں کہ  یہ قوانین صرف اقلیتوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کےلئے بنائے گئے ہیں کیونکہ اسی قانون کی آڑ میں ملک بھر میں عیسائیوں کے اداروں کے خلاف کارروائیاں  بھی ہوئیں  اور اس قانون کی زد میں کئی اہم مسلم شخصیات بھی آئی ہیں جن میں مولانا کلیم صدیقی ایک سال سے زائد عرصے تک جیل کی سلاخوں میں رہے اور حال ہی میں انہیں الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملی ہے، مولانا عمر گوتم ان کے بیٹے اور ساتھی تقریباً دو سال سے جیل کی سلاخوں میں ہیں ۔اور حال یہ ہے کہ پولیس انتظامیہ ان کے خلاف الزمات ثابت کرنے میں ناکام ہے۔گرچہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے معاملات درج ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی دراصل ان کی تبلیغی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔آئین ایک طرف جہاں اقلیتوں کو مذہبی ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے تو دوسری طرف آئین کا حلف لینے والے برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنی ریاست میں مدارس کو بند کرکے ہی  رہیں گے؟آئین کے نام پر حلف لینے والے آسام کے وزیراعلیٰ کے  ان  غیرآئینی بیانات پر نہ میڈیا سوال کرتا ہے اور نہ ہی عدالت سوال کرتی ہے کہ آخر جس چیز کی آئین نے ضمانت دی ہے اس کو چھینے والے یہ  لوگ ہوتے کون ہیں؟
جب اپنے گھر میں بھی نماز پڑھنا جرم بن جائے!
بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں اپنی جگہ مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج بھارت میں اپنے گھر میں نماز پڑھنا جرم  ہو گیا ہے۔اس سال رمضان میں مرادآباد میں پولیس نے بجرنگ دل کی شکایت پر اپنے گھر میں اجتماعی تراویح پڑھنےوالوں کے خلاف امن عامہ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں کارروائی کی۔نماز کو جرم قرار دینے کا آغاز سب سے پہلے ہندوؤں  کی جانب سے  عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کے معاملے  پر اعتراض کرنے سے ہوا۔ گزشتہ سالوں میں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں ۔جون 2022 میں، علی گڑھ کے ایک پروفیسر کو کالج کے لان میں درخت کے نیچے نماز پڑھنے  کی وجہ سے دائیں بازو کی جانب سے اعتراض کے بعد ایک ماہ کی چھٹی پر جبراً بھیج دیا گیا۔ جولائی 2022 میں ایک ویڈیو سامنے آنے کے بعد تنازع کھڑا ہوگیاجس میں دکھایا گیا تھا کہ چند مسلمان مبینہ طور پر یوپی کے پریاگ راج ریلوے اسٹیشن پر نماز ادا کررہے ہیں۔ جولائی 2022 میں ہی لکھنؤ کے ایک مال میں مبینہ طور پر نماز پڑھنے کے الزام میں چند مسلم نوجوانوں کے خلاف کارروائی کی گئی ۔اگست 2022 تک بحث زیادہ تر عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کے مسئلے کے گرد گھومتی رہی۔ 24 اگست 2022 کو، ہندو بنیاد پرستوں نے ایک نیا جرم ایجاد کیا، جس کا بھارت کے فوجداری قانون میں کوئی ذکر نہیں ملتاوہ ’گھر میں نماز پڑھنا‘ ہے۔ایک مقامی شہری چندر پال سنگھ کی شکایت پر اپنے گھر میں اجتماعی نماز پڑھنے والوں کے خلاف غیر قانونی اسمبلی یا پروگرام کرنے پر مراد آباد پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 505(2) کے تحت 26 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔اس کے تحت تین سال تک کی سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔پولیس نے الزام لگایا کہ چھجلیٹ علاقے کے دولہے پور گاؤں میں دو گھروں میں بغیر کسی اطلاع کے سینکڑوں لوگ جمع ہوئے اور نماز ادا کی۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی) مرادآباد سندیپ کمار مینا نے کہا کہ انہوں نے مسلمانوں کو متنبہ کیا تھا  کہ وہ اپنے گھروں میں اس طرح سے نمازیں نہ پڑھیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اپنے گھر پر نماز پڑھانا دوسرے مذہب کے درمیان دشمنی اور نفرت پھیلانے کا ذریعہ ہے؟ کیا یہ لوگ مجرمانہ ارادے سے جمع ہوئے تھے؟ کیا اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے پہلے حکام سے اجازت لینا ضروری ہے؟ کیا کسی کے گھر نماز ادا کرنا فساد کا ذریعہ ہے؟ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے کسی دوسری کمیونٹی کے پڑوسیوں کے اعتراضات ہی کافی ہیں؟۔آئین کا آرٹیکل 25(1) آزادانہ طور پر مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے، یہ ایک بنیادی حق ہے جسے صرف پبلک آرڈر، اخلاقیات، صحت کے علاوہ بعض دیگر بنیادوں پر بھی مشروط کیا جاسکتا ہے؟
ایک طرف کھلے عام بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو دوسری  طرف کچھ ایسے قوانین  بھی ہیں جس کا مسلمانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ دفعہ 295A-  (جان بوجھ کر کسی بھی کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 153-A (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 505( 2) (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات)، 143 (غیر قانونی اسمبلی)، تعزیرات ہند (IPC) کی 124 A-  (غداری)، 1860اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 151 (جرم کو روکنے کے لیے گرفتاری) انسداد دہشت گردی کے قوانین جیسے غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ، 1967 اور قومی سلامتی ایکٹ، 1980، اکثروبیشتر سب سے بڑی اقلیت کے ارکان کے خلاف استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں ضمانت کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
اقلیتوں کے خلاف جبرادارہ جاتی شکل اختیا کرتا جارہا ہے
ملک بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف حالیہ واقعات اقلیتوں کے خلاف تعصب کی پیداوار ہیں، جس کی حوصلہ افزائی سیاست دانوں نے کی ہے۔ بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے سربراہوں کے بیانات اور کارروائیاں نہ صرف ہجوم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مسلمانوں کے خلاف متحرک کردیتی ہیں۔ادارہ جاتی تعصب کا ہی نتیجہ تھا کہ 11 ستمبر 2022 کو ہندو انتہا پسندوں نے یوپی کی ایک سڑک پر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کے گروپ کے ساتھ بدسلوکی کی اور انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔مسلمانوں کو ایک گروپ کی شکل میں لے جانے پر ڈرائیور کے خلاف کارروائی  کی گئی اور نماز پڑھنے کےلئے تحریری معافی نامہ دینا پڑا۔ ’’آن ہیومن رائٹس پریکٹسز‘‘ کی 2021 رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمان فرقہ وارانہ تشدد، امتیازی سلوک، پولیس اور جیل کے اہلکاروں کی طرف سے ذلت آمیز سلوک یا سزا اور زبردستی نقل مکانی کے شکار ہیں۔ اور حکومت کی طرف سے من مانی گرفتاریاں اور نظربندیاں کی جارہی ہیں ۔ایک غیر سرکاری تنظیم، کامن کاز کی 2019 کے ایک سروے میں شامل نصف پولیس اہلکاروں نے مسلم مخالف تعصب کا مظاہرہ کیا۔ اس کی وجہ سے جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔فروری 2020 میں دہلی فسادات کے دوران جب مسلمانوں نے مدد طلب کی تو پولیس اہلکاروں نے منھ پھیر لیا اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئے ۔اپریل 2022 کے جہانگیرپوری فسادات کے دوران بھی پولیس کی ملی بھگت سامنے آئی۔ایک طرف نماز کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کے اجتماعات کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےدوسری طرف حکومت کی طرف سے کنوڑ یاترا  کے لیے ایک علاحدہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار میں ہیلی کاپٹر سے کنواڑیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں ۔گجرات میں 15 اگست 2022 کو بلقیس بانو کیس میں عصمت دری اور قتل کے 11 مجرموں کی سزا معاف ہونے پر ان کا شاندار استقبال اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ کس طرح خصوصی سلوک کیا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن، جو معافی دینے والے بورڈ میں شامل تھے، نے کہاکہ فسادات کے دوران عصمت دری کرنے والے برہمن ہیں۔
بامبے ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ۔تاریکی میں امید کی کرن
ایک ایسے وقت  جب عدالتیں ادارہ جاتی تعصب اور جبر کی شکار ہورہی ہیں ،کئی معاملات میں عدالتی کارروائیاں اور تبصرے مایوس کن ہوتے  جارہے ہیں،  20مئی کو ممبئی ہائی کورٹ کی گوا بنچ کے جسٹس مہیش سوناک اور والمیکی مینیزصاحبان کا فیصلہ تاریکی میں امید کی کرن لے کر آیا ہے۔ان دونوں جج صاحبان نے واضح کردیا کہ سی آر پی سی کے سیکشن 144 کےنفاذ کے باوجود اپنی جائیداد پر کسی بھی قسم کی مذہبی سرگرمیاں کرنے سے روکنا بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے جو بھارت کے آئین کے آرٹیکل 19(1)، آرٹیکل 25 اور 26 کے منافی ہیں۔عدالت نے کہا کہ درخواست گزار اور اس کے شوہر اگر قانون کے دائرے میں رہ کراپنے مذہب کی تشہیر  کریں تو انہیں اس  کا حق حاصل ہے اسی طرح  جب وہ ذاتی مکانات میں یہ کام  کرتے ہیں تو ان کا حق مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔جج صاحبان نے کہا کہ ہماری رائے ہے کہ دفعہ 144 کے تحت دائرہ اختیار استعمال کرنے کا دعویٰ کرنا اور درخواست گزار کو سائولیم میں اپنی جائیداد میں کسی قسم کی مذہبی سرگرمیاں کرنے سے منع کرنا آرٹیکل 19(1) میں درج ان کے بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ ) آئین کے آرٹیکل 25 اور 26، جیسا کہ یہ ان دونوں کو ان کی تقریر اور اظہار کی آزادی اور ان کے ضمیر کی آزادی اور آزادانہ طور پر اپنے مذہب کا دعوی کرنے، اس پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے یا مذہبی ادارے بنانے کے حق سے انکار کے مترادف ہے۔
آئین ہند کے آرٹیکل 226 کے تحت دائر کی گئی ایک عرضی میں  مسکرینہاس ای ڈی سوزا نے 28 دسمبر 2022 کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (نارتھ) کے ذریعہ جاری کردہ اس حکم کو منسوخ کرنے کی استدعاکی کہ اس کے اپنے ہی گھر میں مذہبی سرگرمیاں انجام دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مجسٹریٹ نے اس حکم کو یہ کہتے ہوئے درست قرار دیا کہ یہ لالچ یا دھوکہ دہی کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے کیا گیا ۔ اس سے شہریوں کے مذہب اور ضمیر کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ڈی سوزا نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ گزشتہ 23 سالوں سے مذہبی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، اور مقدس بائبل کی مقدس تعلیمات کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ یہ دونوں یسوع مسیح کے پیروکار ہیں اور آئین ہند کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت ان کے بنیادی حقوق کا استعمال  کررہے ہیں، انہوں نے اپنے مذہب اور عقیدے کی تبلیغ کے لیے ایک گروپ بنایا تھا۔درخواست گزار کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے، بنچ نے کہا کہ اسے ڈی سوزا کے خلاف ایسی کوئی شکایت نہیں ملی کہ انہوں نے کسی کو مذہب کی تبدیلی زبردستی سے یا دھوکہ دہی کے ذریعہ کروائی  ہو۔
ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے تناظر میں اگر اترپردیش اور آسام میں نماز پڑھنے اورمن پسند کھانا کھانے پر ہونے والی کارروائیوں اورحکومتی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سارے اقدامات غیر قانونی اور ماورائے آئین نظر آتے  ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ حکومتی جبر اور اس کی غیر قانونی سرگرمیوں کا مقابلہ کیسے کیاجائے ؟ گوا کے اس عیسائی جوڑے نے  ہمیں بتایا ہے کہ اگر حکومتی جبرکامقابلہ  استقلال کے ساتھ عدالتی پلیٹ فارم پر کیا جائے تو انصاف کی راہیں کھل  سکتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتیں عدالتی فرمان کی پرواہ نہیں کررہی ہیں  مگر عدالت کا فیصلہ اخلاقی فتح کا جواز فراہم کرتا ہے ۔اس لئے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔
ایک طرف گاندھی جی  جمہوریت کی بقا کےلئے تمام طبقات کی حصہ داری اور مواقع کی وکالت کرتے ہیں تو دوسری طرف ساورکر اور ان کے ہمنوا ہیں جو ملک کی اقلیت کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی وکالت کرتے ہیں ۔اس کے باوجود جمہوریت کی علامت کہی جانے والی عمارت ’پارلیمنٹ ‘میں گاندھی اور ساورکر کی تصاویر کی ایک ساتھ گل پوشی ہوتی ہے تو پھر اسے تضادات ہی کہاجاسکتا ہے۔
ایک ایسے وقت  جب عدالتیں ادارہ جاتی تعصب اور جبر کی شکار ہورہی ہیں ،کئی معاملات میں عدالتی کارروائیاں اور تبصرے مایوس کن ہوتے ہیں،  20مئی کو ممبئی ہائی کورٹ کی گوا بنچ کے جسٹس مہیش سوناک اور والمیکی مینیزصاحبان کا فیصلہ تاریکی میں امید کی کرن لے کر آیا ہے۔ان دونوں جج صاحبان نے واضح کردیا کہ سی آر پی سی کے سیکشن 144 کےنفاذ کے باوجود اپنی جائیداد پر کسی بھی قسم کی مذہبی سرگرمیاں کرنے سے روکنا بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی ہے جو بھارت کے آئین کے آرٹیکل 19(1)، آرٹیکل 25 اور 26 کے منافی ہیں۔عدالت نے کہا کہ درخواست گزار اور اس کے شوہر اگر قانون کے دائرے میں رہ کراپنے مذہب کی تشہیر  کرتے ہیں تو انہیں اس  کا حق حاصل ہے ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023