مودی جی: جانا تھا جاپان پہنچ گئے پاپوا نیوگنی اور آسٹریلیا

’باس‘ کی موجودگی میں ’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ کی نمائش اور مباحثہ کا انعقاد

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

آسٹریلوی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کو برداشت کرنے کا مظاہرہ بھارتی حکومت کے لیے ایک سبق
دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے جب پہلی بار دلی میں بی جے پی کو پٹخنی دی تو وہ شدید کھانسی میں مبتلا تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کو بنگلورو جاکر آرام کرنے اور علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بار خود وزیر اعظم کا بنگلورو میں چیختے چیختے گلا بیٹھ گیا تو وہ بیرون ملک دورے پر نکل گئے۔ ویسے کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ اگر دوسرے صوبے میں جاسکتا ہے تو ملک کے وزیر اعظم کو تو پردیس جانا ہی چاہیے۔ کرناٹک کی شکست کے بعد اپنا دل بہلانے اور بھکتوں کا غم غلط کرنے کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔ ایک عام گجراتی کی مانند وزیر اعظم بھی سیر وسیاحت کے شوقین ہیں اور سرکاری خرچ پر مفت میں عیش و عشرت کا موقع ملے تو کون اس کو گنوانے کی حماقت کرے گا؟ وزیر اعظم کے شیدائی ان کے دوروں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ رات میں سفر کرکے دن بھر کام کرتے ہیں۔ یہ بھولے بھالے لوگ سمجھتے ہیں کہ مودی جی ریل کے جنرل ڈبے میں بیٹھ کر رات بھر سفر کرنے کے بعد دن بھر مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ وہ اپنے آٹھ ہزار کروڑ روپے کے سرکاری جہاز میں خادموں کی فوج کے ساتھ سفر کرتے ہیں جہاں کا عیش و آرام بڑے بڑے محلوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کا حالیہ دورہ تین ملکوں جاپان، پپوا نیوگنی اور آسٹریلیا پر محیط تھا ۔ جاپان میں G-7 ممالک کے سربراہان کی میٹنگ طے ہوئی تو اس میں شرکت کے لیے جاپان کے وزیر اعظم کشیدا فیومیو نے دوستی یاری میں مودی جی کو بھی دعوت دے دی۔ گروپ آف سیون (G7) ایک بین حکومتی سیاسی فورم ہے جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ یورپی یونین (EU) کو ’غیر رسمی‘ طور پر لیا گیا ہے لیکن بھارت کسی شمار یا قطار میں نہیں ہے پھر بھی مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق اس مہینے کی 19 سے 21 تاریخ کے دوران مودی جی نے جاپان کے ہیروشیما میں تعطیلات گزارنے کا بندو بست کرلیا۔ اس سربراہ کانفرنس میں QUAD ممالک میں سے صرف آسٹریلیا موجود نہیں تھا اس لیے وہاں کے وزیر اعظم کو بلا کر وہ نشست بھی پر کرلی گئی۔ اس طرح آسٹریلیا میں ہونے والی نشست منسوخ ہوگئی۔ جاپان کے وزیر اعظم اپنے ملک میں رہ گئے اور امریکی صدر جو بائیڈن وطن واپس لوٹ گئے اس لیے کہ دونوں کے پاس کام تھا لیکن مودی جی کے پاس چونکہ کسی بھی ریاست میں کوئی انتخابی مہم نہیں تھی اس لیے انہوں نے اپنے دورے میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور آسٹریلیا کا دورہ برقرار رکھا۔
آسٹریلیا جانے سے قبل وزیر اعظم مودی نے 22 تاریخ کو پاپوا نیوگنی جا کر وہاں کے وزیر اعظم جیمس پراپے کے ساتھ بھارت-بحرالکاہل جزائر کے اشتراک سے متعلق فورم کی تیسری سربراہ کانفرنس میں شرکت کی۔ اس فورم میں بھارت کے ساتھ ساتھ بحرالکاہل خطے کے 14 ممالک شامل ہیں۔ اس طرح کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا پاپوا نیوگنی کا یہ پہلا دورہ ہوگیا۔یہ ننھے منے جزائر کالے دھن کی آماجگاہ ہیں اور موڈانی ماڈل میں ان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ غالباً اسی لیے ان ملکوں پر مشتمل فِپک نامی تنظیم کا آغاز 2014 میں وزیر اعظم مودی نے اپنے فیجی دورے کے وقت کیا تھا۔ پاپوانیوگنی کے وزیر اعظم نے ہوائی اڈے پر مودی جی کا استقبال کرنے کے بعد انہیں 19 توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر دے کر خوش کر دیا۔ وزیر اعظم جیمس کو شاید نہیں معلوم کہ بھارت میں کسی کے گھٹنے کو چھونا قدموں میں گرنے کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا ہے اس لیے انہوں نے وہ حرکت کردی اور گودی میڈیا نے یہ شور مچا دیا کہ ایک غیر ملکی سربراہ نے مودی جی کے پیر چھو دیے۔ ویسے اگر جان بوجھ کر بھی کی جائے تو یہ ایک نازیبا حرکت ہے لیکن اس سے مودی بھکت خوش ہوگئے۔ اس طرح وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے کرناٹک میں لگے زخموں پر مرہم رکھ کر اپنے بھکتوں کی دل جوئی کا سامان ہاتھ آ گیا۔
بحرالکاہل خطے میں چین کی بڑھتی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے پاپوانیوگنی کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس کے تحت امریکی افواج کو اس کے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہے۔ بحرالکاہل میں اس اسٹریٹجک حمایت کے عوض اسے امریکہ سے سفارتی اور مالی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال جزائر سولومن کے ساتھ چین نے خفیہ سیکیورٹی معاہدہ کرکے وہاں فوجی تعینات کرنے کی اجازت حاصل کر لی تھی، اسی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے واشنگٹن نے پاپوانیو گنی میں معاہدے پر دستخط کیے اور وزیر اعظم جیمس سے دفاعی تعاون کے ذریعہ امریکہ کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جا نے کا عہد لیا۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے اسے بیجنگ کی بڑھتی معاشی، سیاسی اور فوجی موجودگی کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں اہم اقدام قرار دیا۔ وزیر اعظم مودی نے بحرالکاہل کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس میں کثیرالجہتی کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آزاد، کھلے اور جامع انڈو پیسیفک کی حمایت کرتے ہیں، ہم تمام ممالک کی خود مختاری اور سالمیت کا احترام کرتے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم ملک کے باہر جس کشادہ دلی کی بات کرتے ہیں اس کا ادنی سا مظاہرہ بھی اندرونِ ملک ان سے نہیں ہو پاتا۔ یہاں تو وہ غیر تو دور اپنوں کا اختلاف برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
وزیر اعظم کے حالیہ دوروں میں سب سے اہم ملک آسٹریلیا تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خود مودی جی نے کہا تھا ’’میں وزیر اعظم البانیز کی دعوت پر آسٹریلیا کے شہر سڈنی کا دورہ کروں گا۔ میں دو طرفہ ملاقات کے دوران باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کا منتظر ہوں۔‘‘ آسٹریلیا میں چونکہ اڈانی کا لمبا چوڑا کاروبار ہے اس لیے وہاں کی کمپنیوں کے سربراہوں اور کاروباری رہنماؤں کے ساتھ بات چیت ایک فطری عمل ہے کیونکہ اڈانی کا بھلا بالواسطہ مودی جی کا اپنا فائدہ ہے۔ سڈنی میں دس لاکھ بھارتی نژاد لوگ رہتے ہیں اس لیے وزیر اعظم ان کے ساتھ کسی خصوصی تقریب میں شرکت نہ کریں یہ ناممکن تھا۔ اپنے لوگوں کے درمیان لچھے دار تقریر کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے جس کا مظاہرہ غیر ملکی دوروں پر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی سال وزیر اعظم مودی نے نومبر 2014 میں آسٹریلیا کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ کسی بھارتی وزیر اعظم کا اٹھائیس سال کے بعد وہ پہلا سفر تھا۔ اس موقع پر مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ اب وہ آتے رہیں گے لیکن اپنے دیگر وعدوں کی طرح انہوں نے اسے بھی بھلا دیا۔ ان کی پہلی مدت کار یونہی گزر گئی اور دوسری مدت کے آخری سال میں ان کو اس کا خیال آیا۔
وزیر اعظم مودی جب اپنے سہ روزہ دورے پر سڈنی پہنچے تو ہندی سفارتخانے کے اعلیٰ عہدیداروں نے ان کا ہوائی اڈے پر استقبال کیا مگر آئی ٹی سیل نے خبر اڑا دی کہ خود آسٹریلوی وزیر اعظم بنفسِ نفیس وہاں موجود تھے۔ آگے چل کر جب وہ جھوٹ کھل گیا تو تردید کردی گئی۔ اس طرح ابتدا ہی جھوٹ سے ہوئی۔ وہاں پر بھارتی نژاد لوگوں سے خطاب کو گارجین جیسے کئی بین الاقوامی اخبارات نے برملا ریاست کرناٹک کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست سے جوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی میڈیا میں بھی مودی جی کی شناخت پردھان منتری کے بجائے پرچار منتری کے طور پر ہوچکی ہے اور لوگ انہیں چناو جیوی کے طور پر جاننے لگے ہیں۔ اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے مودی کے حامیوں کا ’مودی ایئرویز‘ کو ایجاد کرنا اس بات کا اعتراف تھا کہ سڈنی میں کثیر آبادی کے باوجود میدان کو بھرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وزیر اعظم مودی کے آمد کے موقع پر خصوصی پروازوں اور بسوں کے ذریعے بھارتی شہریوں کو ملبورن اور کوئینز لینڈ سے سڈنی لانا پڑا۔ مودی کے جنونی حامیوں نے ملبورن سے لوگوں کو سڈنی لانے کے لیے مقامی ایئرلائن ’کانٹاس‘ کی پرواز کو مختص کرنے کے بعد اس پر ترنگا لہرا دیا اور ’مودی ایئرویز‘ کے نام سے منسوب کرکے خوش ہوگئے۔ اسی طرح کوئینز لینڈ سے سڈنی لانے والی بسوں کو ’مودی ایکسپریس‘ کے نام دیا گیا۔
یہ سارا اہتمام سڈنی کے کڈوس بینک ایرینا میں کسی طرح بیس ہزار لوگوں کو لانے کے لیے کیا گیا مگر پھر بھی کامیابی نہیں ملی کیونکہ وہاں موجود ساری کرسیاں بھر نہیں سکیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پر تین اہم باتیں کہیں، پہلی تو یہ کہ بھارت جمہوریت کی ماں ہے۔ دوسرے ہمارے لیے پوری دنیا ایک خاندان ہے اور تیسری بھارت اور آسٹریلیا کے تعلقات اعتماد اور احترام پر مبنی ہیں۔ یہ دعوے سننے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان کی حقیقت ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔ مودی جی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آسٹریلیا سے اعتماد و احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرلینے سے زیادہ اہم ملک کے باشندوں اور حزب اختلاف کے ساتھ ان بنیادوں پر تعلق قائم کرنا ہے۔ وزیر اعظم اگر اپنے ملک کی صدر و نائب صدر کا احترام کرنے والے ہوتے تو ایوانِ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح میں انہیں نظر انداز نہیں کرتے۔ وزیر اعظم کے لیے ساری دنیا ایک خاندان کی مانند ہوسکتی ہے لیکن اس خاندان میں یشودھا بین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ اگر ہندوستانیوں کو بھی اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تو دارالحکومت دلی میں خاتون پہلوانوں کے ساتھ ایسا سفاکی آمیز ناروا سلوک نہیں کیا جاتا جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔
وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے ’گولی مارو سالوں کو‘ جیسے بیہودہ نعرہ لگانے والوں کو مرکزی وزیر بنا رکھا ہے۔ وہ خود لباس سے پہچان کر مخالفین پر کارروائی کے قائل ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لائبریری کے اندر گھس کر ان کی پولیس نے طلباء کو زد وکوب کیا۔ ان ظالم اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مظلوم طلباء پر فساد میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر انہیں جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ اپنے مخالف نظریہ کے حامل دانشوروں پر یلغار پریشد میں قتل کی سازش رچنے کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا۔ ان کے بجرنگی کارکن گائے کے نام پر مسلم نوجوانوں کو زندہ جلانے سے نہیں چوکتے۔ ان کے مرکزی وزیر کا بیٹا دن دہاڑے کسانوں پر گاڑی چڑھا دیتا ہے اور وزیر کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ ان کی صوبائی سرکاریں غریبوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے اور بے گناہوں کا انکاونٹر کرنے پر فخر کرتی ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ فسادات کے سبق پر ووٹ مانگتے ہیں اور ریاستی سرکار بلقیس بانو کے اہل خانہ کے قاتلوں و زانیوں کی سزا معاف کر دیتی ہے۔ اگر یہی سب کو اپنا خاندان سمجھنا ہے تو کون ایسے خاندان میں رہنا چاہے گا؟
وزیر اعظم نے آسٹریلیا میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا کہ بھارت کے پاس طاقت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی اور نوجوانوں کے ٹیلنٹ کی فیکٹری ہے۔ یہ بات درست ہے تو پھر ملک کے باصلاحیت نوجوان بھارت چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ سنگین ہوگیا ہے۔ غریب مسکین کے علاوہ خوشحال لوگ بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ایک زمانے میں وزیر اعظم ان کو واپس لانے کی بات کرتے تھے لیکن اب نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ صدا بہ صحرا ثابت ہوگی۔ اب وہ بھارتی نژاد لوگوں کو بیرون ملک رہتے ہوئے اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کی تلقین پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ وہاں بھارت کے سفیر ہیں‘‘۔ وزیر اعظم اگر یہ نہ کہتے تو اچھا تھا کیونکہ ایک ماہ قبل آسٹریلیا میں اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی کے سابق سربراہ بلیش دھنکھر کو سڈنی میں پانچ کوریائی خواتین کو نشہ آور شے پلا کر ریپ کرنے کا مجرم پایا گیا۔ اس کو گزشتہ چند سالوں میں شہر کی تاریخ کا بدترین عصمت دری سانحہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ شخص اگر اپنی جڑوں سے جڑا نہ ہوتا تو اس سے یہ حرکت سرزد نہ ہوتی اور اگر اس کو بھارت کا سفیر سمجھ لیا جائے تو اس میں پوری قوم کی بدنامی ہے۔ ویسے مودی جی کے گزشتہ دورے کو کامیاب بنانے میں اس نے بڑی محنت کی تھی اور ان کے ساتھ تصاویر بھی کھچوائی تھیں اس لیے اسے ان کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے آسٹریلیا میں بسنے والوں کو بھارت آتے وقت اپنے آسٹریلوی خاندانوں کو ساتھ لانے کی تلقین کی تاکہ انہیں بھارت کی ثقافت کو سمجھنے کا موقع ملے‘‘ وزیر اعظم کے مشورے پر اگر ان لوگوں نے عمل کیا تو انہیں خاصی مایوسی ہوگی کیونکہ یہاں تو گئو موتر سے بھی کینسر اور کورونا کا علاج کیا جاتا ہے۔ پی ایم مودی نے تقریر میں بتایا کہ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ایک دوسرے کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے طلباء کو فائدہ ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی تعداد میں بھارتی طلبا پڑھنے کے لیے آسٹریلیا جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو کون سی مجبوری وہاں لے جاتی ہے؟ اول تو یہ کہ وہاں کا معیار تعلیم اچھا ہے اور اس کے باوجود بھارت سے سستا ہے۔ وہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں۔ کیا وزیر اعظم کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے؟ وزیر اعظم کے لوٹتے ہی آسٹریلیائی حکومت نے بھارت کے سات صوبوں سے آنے والے طلباء کے دستاویزات کی کڑی جانچ کا حکم دے دیا کیونکہ ان میں فراڈ ہوتا ہے۔ ایسی ریاستوں میں وزیر اعظم کے حلقہ انتخاب والا یو پی بھی شامل ہے۔ اس فیصلے سے وزیر اعظم کے دورے کی ناکامی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کے دورے میں تکلفاً وہاں کے پی ایم البانیز نے ان کی تعریف کرتے ہوئے ’مودی باس ہے‘ کہہ دیا تو مودی بھکت پھول کر گول گپا ہو گئے۔ حالانکہ انگریزی زبان میں یہ لفظ آقا کے علاوہ دوستوں کے لیے بھی مستعمل ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ پی ایم مودی ان کے اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے جمہوری اقدار کی بنیاد پر تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا۔ وزیر اعظم تو بھارت کو جمہوریت کی ماں کہہ چکے ہیں حالانکہ یہاں اپنی اصلی ماں کے علاوہ بھارت ماتا اور گئو ماتا کا بھی خوب چلن ہے لیکن جمہوریت کو انہوں نے بھارت کی بیٹی بنا دیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جن اقدار کو جمہوریت سے منسوب کرتے ہیں ان پر خود مودی جی کو غور کرنا چاہیے اور اس کے عملی مظاہر کا مشاہدہ کرلینا چاہیے۔ اس کی ایک مثال تو یہ تھی کہ اجتماع گاہ میں دونوں وزرائے اعظم خطاب کررہے تھے اور باہر خالصتانیوں سمیت کئی حقوق انسانی کی تنظیمیں احتجاج کر رہی تھیں۔ کیا مودی جی کے نئے بھارت میں یہ ممکن ہے؟ آسٹریلیا میں حزب اختلاف کو اپنا دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھا جاتا لیکن افسوس کہ وزیر اعظم مودی کے پاس اس کا تصور تک نہیں ہے۔
آسٹریلیا میں اختلاف کو کس طرح انگیز کیا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں 24 مئی کو دارالحکومت کینبرا میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں گجرات فسادات سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ کی نمائش اور ایک مباحثہ کا انعقاد تھا۔ اس پروگرام میں بعض قانون ساز ارکان اور انسانی حقوق کے لوگ شریک تھے۔ ہندوستانی حکومت نے اس فلم پر پابندی عائد کر دی اسی لیے اس کو وہاں ببانگِ دہل دکھایا گیا۔ ایک ایسی فلم کا جسے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے پروپیگنڈہ کا حصہ اور جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا قرار دیا ہو اس میں تعصب کی کارفرمائی اور غیر جانب داری کی کمی کا الزام لگایا گیا ہو آسٹریلوی ایوانِ پارلیمنٹ میں مودی جی کی موجودگی میں دکھایا جانا جہاں ایک طرف ان کی توہین ہے وہیں دوسری طرف آسٹریلیا میں اختلاف کو برداشت کرنے والے اقدار کا مظہر بھی ہے۔ اس کے بعد منعقد ہونے والے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے گجرات کے سابق آئی پی ایس اور جیل میں بند سنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ نے کہا کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ بہت کم ہے۔ گجرات مہینوں تک جلتا رہا اور مسلمانوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔ میسی یونیورسٹی کے موہن دتا نے کہا کہ ہندوتوا نے ہمارے خطے میں جمہوریت کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس صورتِ حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔مباحثے کے ایک پینلسٹ ڈیوڈ شوبریج نے کہا کہ ’بھارت میں سچ بولنا جرم ہو سکتا ہے۔‘ ان کے بقول بہت سے بھارتی تارکین وطن نے ان سے کہا کہ کچھ بولنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے اہلِ خانہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ جب ہم یہاں سے واپس جائیں گے تو ہمارے لیے بھی مشکلیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آکاشی بھٹ نے صرف ایک جملہ کہا لیکن وہ قانون کی حکمرانی کے تعلق سے تشویش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت تھی کہ ہمارے وزیر اعظم کچھ بولتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے ملیں اور ان کے سامنے یہ مسئلہ نہ رکھیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اگر ان بیانات سے کچھ سیکھا تو ان کے دورے میں کچھ معنویت پیدا ہوگی ورنہ یہ بھی ایک انتخابی مہم کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ ویسے اقتدار کے جانے کا خوف وزیر اعظم مودی کو اس قدر پریشان کررہا ہے کہ اب انہیں انتخابی مہم کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 آسٹریلیا کے دورے میں تکلفاً وہاں کے پی ایم البانیز نے ان کی تعریف کرتے ہوئے ’مودی باس ہے‘ کہہ دیا تو مودی بھکت پھول کر گول گپا ہو گئے۔ حالانکہ انگریزی زبان میں یہ لفظ آقا کے علاوہ دوستوں کے لیے بھی مستعمل ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ پی ایم مودی ان کے اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے جمہوری اقدار کی بنیاد پر تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا۔ وزیر اعظم تو بھارت کو جمہوریت کی ماں کہہ چکے ہیں حالانکہ یہاں اپنی اصلی ماں کے علاوہ بھارت ماتا اور گئو ماتا کا بھی خوب چلن ہے لیکن جمہوریت کو انہوں نے بھارت کی بیٹی بنا دیا۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جن اقدار کو جمہوریت سے منسوب کرتے ہیں ان پر خود مودی جی کو غور کرنا چاہیے اور اس کے عملی مظاہر کا مشاہدہ کرلینا چاہیے۔ اس کی ایک مثال تو یہ تھی کہ اجتماع گاہ میں دونوں وزرائے اعظم خطاب کررہے تھے اور باہر خالصتانیوں سمیت کئی حقوق انسانی کی تنظیمیں احتجاج کر رہی تھیں۔ کیا مودی جی کے نئے بھارت میں یہ ممکن ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023