مغربی بنگال میں الامین مشن کا کارنامہ

دعوت نیوز نیٹ ورک

مغربی بنگال کا مشہور تعلیمی ادارہ الامین مشن گزشتہ کئی سالوں سے اپنے طلبا کی کامیابی کی وجہ سے مسلمانوں میں مقبول ادارہ بن گیا ہے۔ ہر سال اس ادارے سے سیکڑوں طلبا میڈیکل انٹرنس ٹسٹ (NEET)میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ تازہ نتائج کے مطابق الامین مشن کے مختلف برانچوں سے وابستہ 500 طلبا نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس میں 200 طلبا ایسے جنہوں نے 600سے زائد نمبر حاصل کیے ہیں جو اپنے آپ میں ایک تاریخی کامیابی ہے۔
پیشہ وارانہ اداروں کے برعکس ملی الامین مشن طلبا سے مناسب فیس لیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں غیر مسلم طلبا کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔
الامین مشن کے سکریٹری ایم نورالاسلام نے بتایا کہ تقریباً 36 سال قبل 1987 میں الامین مشن نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت ہمارا مقصد یہ تھا کہ بنگال میں تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہو اور دیہی علاقوں میں رہنے والے طلبا کی تربیت ہو اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 36 سالوں میں ہر سال ہمارے کامیابی کی نئی منزلیں طے ہوتی ہیں مگر اس سال ہماری کامیابی گزشتہ کامیابیوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال امتحان میں شریک ہونے والے دو سو طلبا نے 600سے زائد نمبر حاصل کیے ہیں جبکہ کوالیفائی کرنے والے طلبا کی تعداد 500 ہے، ان میں سے زیادہ تر طلبا کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔
نور الاسلام نے یہ بتایا کہ پانچویں سے بارہویں جماعت تک الامین مشن کے تقریباً 72 کیمپس ہیں۔ کیمپس سے طلبا بارہویں جماعت میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ اس امتحان میں شریک ہوتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ الامین مشن کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اس سال الامین مشن سے کامیابی حاصل کرنے والے طلبا میں کشن کور بھومک نے سب سے زیادہ نمبر 686 نمبر حاصل کیے ہیں۔ پورے ہندوستان میں یہ 427واں رینک ہے۔ تاہم مشن کے رہائشی طلباء میں دیوچرائی گاؤں (کوچ بہار) کے رہنے والے کسان عبدالسبحان کے بیٹے عرفان حبیب نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔ عرفان حبیب نے 685 نمبر اسکور کیے، ان کا رینک پورے ملک میں 594واں ہے۔ ضلع بیربھوم کے مورائی تھانے کی رہنے والی اختری بیگم الامین مشن کے خلت پور کیمپس میں 2015 سے ساتویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ اختری نے بتایا کہ اس نے سیکنڈری میں 96 فیصد اور ہائر سیکنڈری میں 98 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ اسے نیٹ میں صرف 480 نمبر ملے کیونکہ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر پر تیاری نہیں کر سکی تھی۔ لیکن اس سال اس نے الامین مشن کی مدد سے 653 نمبر حاصل کیے ہیں جو کہ آل انڈیا میں 3915واں رینک ہے۔ اس نے بتایا کہ نورالاسلام کی صاحبزادی نے اس کیمپس میں پڑھنے والی لڑکیوں کو ہر طرح کا تعاون دیا اور ان کی رہنمائی کی وجہ سے ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک اور قابل طالب علم ثاقب فیروز ہیں جنہوں نے 2021 میں الامین نیٹ امتحان کوچنگ مشن میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس سال انہوں نے 606 نمبر حاصل کیے ہیں۔ فیروز نے بتایا کہ الامین مشن کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ یہاں خواب دکھایا جاتا ہے۔
ہیمنت بسوا سرما کا ایک اور جابرانہ قدم
آسام میں مدرسوں پر بلڈوزر چلانے کے لیے مشہور ہیمنت بسوا سرما نے اسمبلی حلقہ کے نمبر 3 چتل ماری علاقے میں آباد لوگوں کو سرکاری زمین خالی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ان خاندانوں میں زیادہ تعداد بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے، اس کے بعد بنگالی ہندو اور گورکھے ہیں۔ مکانات اور دیگر تعمیرات کو گرانے کے لیے تقریباً 50 بلڈوزر مشینوں کو یہاں لایا گیا ہے۔
مقامی بی جے پی ممبر اسمبلی گنیش کمار لمبو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کئی ماہ قبل ہی ان خاندانوں کو یہ جگہ خالی کرنے کے لیے نوٹس دیدی گئی تھی۔ اسپیشل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (امن و قانون) گیانیندر پرتاپ سنگھ نے کہا کہ ریاستی حکومت اس مقام پر سولار پاور پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ایک خاتون نے بتایا ”ہم یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی نوکری نہیں ہے اور ہم یہاں کھیتوں سے باہر رہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں گے۔“
ہیمنت بسوا سرما کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے مبینہ تجاوزات سے سرکاری اراضی کے پلاٹوں کو خالی کرانے کے لیے متعدد بے دخلی مہمات چلائی ہیں۔ جن لوگوں کو بے دخل کیا گیا ہے یا انہیں جگہ خالی کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے ان میں سے بہت سے بنگالی بولنے والے غریب مسلمان ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد نے سیلاب اور کٹاؤ میں زمین کھو دی تھی۔ اکتوبر 2021 میں ضلع ڈارنگ کے سپاجھار علاقے میں سرکاری زمین خالی کرانے کی مہم کے دوران آسام پولیس کی فائرنگ میں ایک نابالغ اور دو مسلمانوں کی موت ہو گئی تھی۔
تریپورہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے حقائق کے برخلاف دعوے
تریپورہ میں اگلے سال انتخاب ہونے والے ہیں، بی جے پی نے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے تریپورہ کا دورہ کیا اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئی ایسے دعوے کیے جو حقائق کے برخلاف تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں تریپورہ کی فی کس آمدنی میں 30 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی اور بپلب دیو کی قیادت میں تریپورہ میں حکومت بنی اور بعد میں مانک ساہا نے اقتدار سنبھالا تو ہر علاقے میں ترقی ہوئی ہے۔ بی جے پی حکومت نے تریپورہ کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کام کیا۔ تریپورہ کی فی کس آمدنی میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فی کس آمدنی 1,30,000 سالانہ ہو گئی ہے۔ یہ اقتصادی ترقی کے اشارے ہیں۔
2018 میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والی سی پی ایم کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ بی جے پی حکومت کو چار سال مکمل ہو گئے ہیں۔ فیکٹ چیکر کے تجزیہ کے مطابق تریپورہ کے ڈائریکٹوریٹ آف اکنامکس اینڈ اسٹیٹسٹکس پلاننگ (اعداد و شمار) کے ذریعہ فراہم کردہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق، 2018-19 اور 2020-21 کے درمیان فی کس آمدنی میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2018-19 میں تریپورہ کی فی کس آمدنی (نئے 2011-12 کی بنیاد کے ساتھ) 1,13,467 روپے تھی۔ یہ 2019-20 میں 10.7 فیصد بڑھ کر 1,25,674 روپے ہو گئی۔ ریاست کے تازہ ترین سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2020-21 میں تریپورہ کی فی کس آمدنی 1,29,995 روپے تھی۔ اگر نڈا کے پیش کردہ اعداد و شمار کو درست تسلیم کرلیا جائے (جو کہ 1,30,000 روپے فی کس آمدنی ہے) تب بھی یہ اضافہ محض 14.5 فیصد ہی ہے۔
نڈا نے دوسرا دعویٰ یہ کیا کہ سی پی ایم پارٹی کے دور حکومت میں جو سیاسی تشدد ہوتے تھے اس کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب تریپورہ میں مکمل طور پر پرامن ماحول ہے۔ نڈا کے دعوے کی تصدیق کرنے کے لیے 2018 اور 2021 کے درمیان نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی طرف سے شائع کردہ کرائم ان انڈیا رپورٹس کے اعداد و شمار کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گزشتہ چار سالوں میں سیاسی فسادات کے واقعات میں 45 فیصدکی کمی آئی ہے لیکن شمال مشرقی ریاست میں گزشتہ دو سالوں میں سیاسی تشدد میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔2020 میں سیاسی تشدد کے 22 واقعات ہوئے ہیں جب کہ 2021 میں 64 واقعات درج ہوئے ہیں مزید یہ کہ تریپورہ میں سیاسی تشدد سے متعلق جرائم کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے جو فی لاکھ افراد پر 1.6 فیصد ہے۔
2018 میں تریپورہ میں سیاسی فسادات کے 143 واقعات ریکارڈ کیے گئے، اس کے بعد 2019 میں 78 واقعات ہوئے۔ 2020 میں یہ 22 واقعات تک گر گئے۔ تاہم 2021 میں ریاست میں سیاسی تشدد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر تریپورہ میں پچھلے چار سالوں میں فسادات کے معاملات میں 54% کی کمی دیکھی گئی ہے۔ 2018 میں 256 واقعات اور 2021 میں 117 واقعات رونما ہوئے۔ تاہم ان میں 2020 اور 2021 کے درمیان 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تریپورہ میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے مگر اس سال کی شروعات میں بنگلہ دیش میں ایک مندر کو جلائے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر تریپورہ کے متعدد علاقوں میں مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔حکومت نے فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے الٹا مسلم سماجی کارکنوں، ریلیف اور رپورٹنگ کے لیے گئے ہوئے صحافیوں اور دانشوروں کے خلاف کارروائی کی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022