کرناٹک: بجرنگ دل کے رکن کے مبینہ قتل کے بعد شیو موگا میں ہجوم نے مسلم علاقوں پر حملہ کیا

نئی دہلی، فروری 21: اسکرول ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق اتوار کی رات ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کے ایک رکن کو مبینہ طور پر چاقو مار کر ہلاک کیے جانے کے بعد ہجوم نے کرناٹک کے شیو موگا شہر میں مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا اور ان کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی۔

23 سالہ ہرشا پر مبینہ طور پر شہر کی بھارتی کالونی میں روی ورما لین پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔

ریاست کے وزیر داخلہ اراگا جنیندرا نے پیر کی شام صحافیوں کو بتایا کہ اس معاملے کے سلسلے میں تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اے این آئی کی خبر کے مطابق جنیندرا نے کہا کہ کل پانچ افراد اس قتل میں ملوث تھے۔

ہرشا کی موت کے فوراً بعد اتوار کی رات کو مسلمانوں کے خلاف تشدد شروع ہوا اور ضلع انتظامیہ کے پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے گروپ میں جمع ہونے سے منع کرنے کے باوجود پیر کی دوپہر تک شہر کے مختلف حصوں میں جاری رہا۔

نلبند واڑی علاقے کے ایک 20 سالہ مقامی شخص اسکرول کو بتایا کہ اتوار کی آدھی رات کے فوراً بعد لاٹھیوں اور تلواروں سے لیس تقریباً 300 لوگوں نے ایک موٹر سائیکل ریلی میں حصہ لیا۔ سلیم نے بتایا کہ نلبند واڑی کی ایک گلی میں جہاں مسلمان رہتے ہیں چار کاریں اور دو اسکوٹر جلا دیے گئے۔

نلبند واڑی بھارتی کالونی سے 800 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ہرشا کو چاقو مارا گیا تھا۔

اس شخص نے کہا ’’وہ جے سری رام کا نعرہ لگا رہے تھے اور گھروں کے دروازوں کو لات مار کر انہیں کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے… انھوں نے ہماری کھڑکیوں پر پتھر پھینکے۔ یہاں ہر کوئی خوف زدہ ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ نلبند واڑی میں رہنے والے مسلمان اس کے بعد سے کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں ان کی برادری کے افراد کا غلبہ ہے۔

ایک عینی شاہد نے Scroll.in کو بتایا کہ بھارتی کالونی سے تقریباً نصف کلومیٹر دور مسلم اکثریتی علاقے آزاد نگر میں بھی عمارتوں پر پتھراؤ کیا گیا اور دکانوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔

علاقے کے ایک مقامی 22 سالہ ندیم (نام تبدیل) نے بتایا کہ حملہ دوپہر کے قریب شروع ہوا اور دو گھنٹے تک جاری رہا۔

دریں اثنا ایک ٹویٹ میں بجرنگ دل نے کہا کہ وشو ہندو پریشد بدھ کو ہرشا کے قتل کے خلاف سڑکوں پر اترے گی۔

وہیں ضلع پولیس کے سپرنٹنڈنٹ بی ایم لکشمی پرساد نے کہا کہ پولیس نے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ان کا پتہ لگانا اور انھیں سزا دلانا ہے۔ ’’ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور جذباتی حرکت نہ کریں۔‘‘

انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق جنیندرا نے اتوار کو کہا تھا کہ اس قتل کا تعلق تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں سے نہیں ہے۔ وزیر نے کہا کہ مزید تفتیش ضروری ہے۔

وہیں کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے وزیر داخلہ جنیندر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق اس ضلع سے ہے جہاں یہ قتل ہوا ہے۔