جموں و کشمیر میں اردو صحافت ابتدا تا حال۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

نام کتاب:۔ جموں و کشمیر میں اردو صحافت (ابتدا تا حال)
مصنف: ڈاکٹر اعجاز احمد میر
طبع اول: 2021 پبلیشر جی این کے پبلیکیشنز (بڈگام)
قیمت:300 روپے
صفحات: 240
مبصر: غازی سہیل خان

کشمیر کے معروف صحافی ریاض مسرور نے راقم کے ساتھ ایک پروگرام میں کہا تھا ’’اردو بحیثیت زبان دراصل برصغیر میں صحافت کی ماں ہے‘‘ ملک کی آزادی میں اُردو صحافت کا رول سنہرے حروف سے تاریخ کی کتابوں میں رقم ہو چکا ہے بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں وہ پہلے صحافی مولوی محمد باقر ہی تھے جنہوں نے حق بیانی کے خاطر ملک کی آزادی کے لیے شہادت کا جام نوش کیا تھا۔وہ ایک الگ موضوع ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد اسی زبان کو ملک بدر کرنے کی وقتاً فوقتاً کوششیں کی گئیں جو ابھی تک جاری ہیں لیکن انہیں ابھی تک ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے۔ اردو زبان اور اس کے ادب و صحافت کو مٹانے کے لیے بہت سارے آئے، وہ تو مٹ گئے لیکن یہ خوبصورت زبان زندہ و تابندہ ہے۔ ان سب کے علی الرغم اردو کے محبان آج بھی اس زبان و صحافت کو زندہ رکھنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں جن میں جموں و کشمیر کی نوجوان نسل بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ان ہی میں ایک نام نوجوان محقق اور مصنف ڈاکٹر اعجاز احمد میر (بڈگام) کا بھی ہے ۔گزشتہ چند دنوں سے ان کی ایک کتاب بعنوان ’’جموں و کشمیر میں اردو صحافت (ابتدا تا حال)‘‘ جو کہ موصوف کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حوالے سے تحریر کردہ ایک مقالہ ہے جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی سند تفویض ہوئی ہے جس کو بعد میں عنوان کی تبدیلی اور کچھ حذف و اضافے کے بعد جی این کے پبلیکیشنز بڈگام نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔
کتاب کو پانچ کلیدی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ذیلی عناوین کے تحت جموں و کشمیر کی صحافتی تاریخ کے اہم گوشوں کو بیان کیا گیا ہے ۔پہلے باب میں جموں و کشمیر میں اردو زبان و صحافت کی ابتدا پر گفتگو ہے،دوسرے باب میں صحافت کی تعریف،اہمیت اور افادیت،تیسرے باب میں جموں و کشمیر میں اردو صحافت کا تاریخی سفر،باب چہارم میں جموں و کشمیر میں اردو صحافت کی موجودہ صورتحال، پانچویں اور آخری باب میں جموں و کشمیر کے چند تاریخ ساز صحافیوں کا ذکر شامل کتاب ہے۔ کتاب کو اپنے والدین کے نام منسوب کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ’’اپنے والدین کے نام جن کی یادوں کے نقوش آخری سانس تک میرے ذہن و دل ہر ثبت رہیں گے‘‘ کتاب کا حرفِ چند جموں و کشمیر کے معروف محقق، صحافی اور محب اردو غلام نبی کمار نے لکھا ہے، وہیں کتاب کے مصنف ڈاکٹر اعجاز احمد میر پیش لفظ میں صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’صحافت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی صفحہ، کتاب یا رسالے کے ہیں۔ صحافت سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور مذہبی ضرورت ہے۔اس کی کامیابی صداقت اور غیر جانب دارانہ حقائق پر معلومات پیش کرنے پر منحصر ہے۔صحافت کو اخبار نویسی اور جرنلزم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتاہے ۔صحافت کا فن صرف کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے عملی طور پر میدان عمل میں آنا پڑتا ہے ۔اس فن پر قدرت حاصل کرنے کے لیے بڑی جانفشانی اور تجربے کی ضرورت پڑتی ہے۔صحافت کا تجربہ انسان کو ڈرائنگ روم یا لائبریری میں بیٹھ کر حاصل ہونے والا نہیں اس کے لیے تجربے کی بھٹی میں برسوں تپنا پڑتا ہے‘‘( ص 10) کتاب کے بیک کور پر وادی کشمیر کے معروف نقاد،افسانہ نگار اور ادیب ڈاکٹر ریاض توحیدی نے مختصر اور جامع تقریظ لکھی ہے جو مصنف کی اردو زبان و ادب کے متعلق دل چسپی اور اس تحقیقی کتاب پر محنت کو ظاہر کرتی ہے ۔
پہلا باب :۔’’جموں و کشمیر میں اردو زبان‘‘ کے عنوان کے تحت تقسیم ہند سے اس زبان پر کس طرح کا اثر پڑا اور کس طرح اپنوں کی نا اہلی اور دشمنوں کی سازشوں سے اس زبان کو نقصان پہنچا، اس پر مختصر لیکن جامع گفتگو کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر میں اردو زبان کے آغاز میں مغلیہ سلطنت کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یوں تو ریاست میں اردو کا آغاز 1860ء کے بعد ہوا لیکن ریاست میں اردو کے ابتدائی آثار مغلیہ سلطنت کے زمانے میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بعض محققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ سترہویں صدی کے نصف آخر اور اٹھارویں صدی کے ربع اول میں اردو ریاست میں داخل ہوئی تھی‘‘ (صفحہ 22) علاوہ ازیں ڈوگرہ مہاراجوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی بلکہ لاشعوری طور پر ان کے ذریعے جموں و کشمیر میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور اشاعت میں ان کا رول قابل تعریف ہی کہا جا سکتا ہے۔ 1924ء میں جموں و کشمیر میں باضابطہ لالہ ملک راج صراف نے ’’رنبیر‘‘ کے نام سے ایک اردو اخبار شروع کیا تھا جس کی خدمات بھی اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے انتہائی اہم مانی جاتی ہیں۔
دوسرا باب : ’’صحافت کی تعریف اہمیت اور افادیت‘‘ عنوان کے تحت صحافت کے متعلق تمام زمرہ جات پر مختصر اور جامع گفتگو ہے جیسے کہ خبریں، اداریہ، کالم، سرخیاں، اشتہارات، نامہ نگاری، انٹرویو اور فیچر نگاری وغیرہ شامل ہیں یعنی اس باب میں اخبار کے متعلق جن چیزوں کی ضرورت ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
تیسرا باب : ’’جموں و کشمیر میں اردو صحافت کا تاریخی سفر‘‘ عنوان کے تحت مصنف نے کشمیری پنڈتوں کے اردو اخبارات اور صحافت کے رول کو اجاگر کیا ہے۔ یہ عنوان پڑھنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈتوں نے اردو زبان و ادب اور صحافت میں خاصی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ہے، وہیں محمد الدین فوق کا صحافتی میدان میں اپنے اخبار ’’پنجہ فولاد‘‘ سے بے باک صحافت کا تذکرہ پڑھنے کو ملتا ہے اور بابائے صحافت ’’لالہ ملک راج صراف‘‘ کی بے لاگ صحافت جو وہ اخبار ’’رنبیر‘‘ کے ذریعے انجام دیتے تھے، مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے قدغن کے واقعات کو بھی صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’رنبیر‘‘ کی آواز کو بند کرنے کے لیے شیخ محمد عبداللہ کے شیروں نے ایسے حربے استعمال کیے جو ان حربوں سے بدتر تھے جو شخصی حکومت نے اختیار کیے تھے‘‘ (صفحہ88) وہیں چند اہم اور تاریخی صحافتی معیارات پر پورا اترنے والے اخبارات کا ذکر کیا ہے جن میں وتستتا، ہمدرد، آفتاب، آئنیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
چوتھا باب : ’’جموں وکشمیر میں اردو صحافت کی موجودہ صورتحال‘‘ کے عنوان کے تحت اس کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے، سب سے پہلے آزادی ہند سے 1980ء تک جس میں درجنوں اخبارات کا مختصر تذکرہ کیا ہے جن میں سے چند اخبارات آج بھی تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد 1980ء سے تاحال کا تذکرہ کیا ہے 1980کے بعد جدید قسم کے چھاپہ خانے (PRESS) کشمیر میں قائم ہوئے جن کی مدد سے یہاں اخبارات رنگین، تصویری صحافت اور کم وقت میں زیادہ تعداد میں چھپنے لگے یعنی یہ دور اخبارات کی دنیا میں ایک انقلاب کا دور تصور کیا جا سکتا ہے۔اس دوران بھی حسب معمول صحافیوں اور اخبارات کو حکومتوں کے عتاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن میں خاص طور سے زمیندار، رہبر اور روشنی کا تذکرہ کتاب میں خصوصی طور شامل ہے، ان تینوں اخبارات کو حکومت کے عتاب کے ساتھ ساتھ مدیران کو بھی پابند سلاسل ہونا پڑا۔ روزنامہ ’’روشنی‘‘ کا تذکرہ ذرا تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے کیوں کہ یہ اخبار آزادی ہند سے پہلے یعنی 1943 میں پہلی بار شائع ہوا جس کے بانی ایڈیٹر عزیز کاشمیری مرحوم تھے۔ تیسرے زمرے میں جموں وکشمیر میں نو وارد اخبارات کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ تاہم چند اہم نو وارد اخبارات کا تذکرہ کرنے سے مصنف کیوں رہ گئے ہیں وہ میں سمجھ نہیں پایا۔
پانچواں باب : ’’جموں وکشمیر کے چند تاریخ ساز صحافی‘‘ عنوان کے تحت ایسے صحافیوں کا ذکر ہے جن کا دور اور کارنامے جموں وکشمیر کی صحافتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا گیا ہے۔ اس عنوان کے ابتدا میں ہی مصنف لکھتے ہیں کہ ’’صحافت بنیادی طور ایک خسارے کا پیشہ ہے، اس میں مادی فوائد کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنے کی صلاحیت کو فائدمانا جاتا ہے ۔صحافی کی تحریر جس قدر اثر انگیز جتنی خیال انگیز اور جس حد تک واقعات سے پر ہوگی اسی قدر اس کی اثر آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے، اور ایسی ہی تحریر قاری کو متاثر کرتی ہے‘‘ (صفحہ 193) علاوہ ازیں اس باب میں کشمیر کی اردو صحافت کے کہنہ مشق اور قابل فخر صحافیوں کا ذکر ہے جن میں خواجہ ثنا اللہ بٹ،شمیم احمد شمیم،محمد امین پنڈت،لالہ ملک راج صراف،محمد الدین فوق،طاہر محی الدین،پریم ناتھ بزاز،کیشپ بندھو،غلام نبی خیال،پنڈت سالگرام سالک،مولانا محمد سعید مسعودی،صوفی محی الدین،محمد یوسف ٹینگ،شبنم قیوم،غلام نبی شیدا،حکیم محمد منظور اور قاسم سجاد شامل کتاب ہیں۔میں طاہر محی الدین صاحب کا ایک اقتباس یہاں اسی کتاب سے نقل کرنا چاہتا ہوں جو میرے دل کو چھو گیا۔ لکھتے ہیں ’’نا مساعد حالات میں ایک غیر منافع بخش عمل سے جڑے رہنے کے لیے عقل سے زیادہ جنون کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر اصولوں کے ساتھ والہانہ وابستگی۔ ہم نے عشق کی یہ ریت نبھانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔موجودہ حالات میں اقدار پر مبنی صحافت محض ایک مفروضہ ہے کاغذ کے چند صفحے سیاہ کرنا بہت آسان کام ہے لیکن درحقیقت ترجمانی کا حق ادا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔یہ قربانیوں کا طویل سلسلہ ہے جس کے لیے صحافی کا قلم اس کی رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیتا ہے‘‘ (صفحہ 208)
غرض کتاب میں صحافت اور صحافتی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو ایسا مواد ملے گا جس سے بہت سارے قارئین ابھی تک نا آشنا ہیں، وہیں جی ین کے پبلیکیشنز کے صدر غلام نبی کمار بھی مبارکبادی کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود کتاب میں کچھ تسامحات درآئی ہیں جن کی میں نشان دہی کر دیتا ہوں تاکہ اگلے ایڈیشن میں وہ دور ہو سکیں۔ پہلا یہ کہ کتاب میں املا اور تذکیر و تانیث کے حوالے سے بھی چند جگہوں پر غلطیاں ہیں، اس کے علاوہ مضامین میں واقعات کی تکرار بہت محسوس ہوئی جس سے قاری کے اندر اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے باب میں جو باتیں درج کی گئی ہیں ان کو تیسرے باب میں دوبارہ معمولی فرق کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں پہلے اور تیسرے باب کو ایک ہی باب ہونا چاہیے تھا کیوں کہ ان دونوں میں جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے تاریخی پہلوؤں پر گفتگو ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر میں رسائل و جرائد کا بھی اپنا رول ہے جن کا تذکرہ کتاب میں نہ ہونے کے سبب اس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور چند ایسے بھی اخبارات ہیں جن کی اپنی تاریخ ہے معلوم نہیں ان کو کتاب میں شامل کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ کشمیر میں اور بھی چند بڑے نامور حق پسند صحافی گزرے ہیں یا آج کی تاریخ میں ہیں ان کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا جس کی کمی شدت سے دوران مطالعہ محسوس ہوئی۔ تاہم میں چاہوں گا میری ان گزارشات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ان کمیوں کو دور کریں گے۔ کتاب صحافت کے طلبہ اور اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ میں چاہوں گا کہ یہ کتاب کشمیر کے ہر نوجوان تک پہنچے۔ میں اس کتاب کی اشاعت اور اس مواد کی تحقیق کے لیے ڈاکٹر اعجاز احمد میر کو مبارکباد دیتا ہوں۔یہ کتاب جی این کے پبلیکیشنز یا اس نمبر 7889538939 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مبصر کا رابطہ 7006715103
٭٭٭

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023