جابر حکمرانوں کے سامنے سچ بولنے والے آج بھی موجود

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ہندوستان کا جمہوری نظام لڑکھڑاتا ہوا نظر آ رہا ہے، کیوں کہ جہاں عوام باشعور ہوتی ہے وہاں کا جمہوری نظام مضبوط رہتا ہے۔ اگر عوام بے شعور ہوگی تو حکمراں اپنی من مانی کرنے لگتے ہیں اور انہیں عوام کا استحصال کرنے لگتے ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار تک پہنچایا تھا۔ آج ہمارے ملک کا حال بھی ایسا ہی ہو گیا ہے، حکومت پر تنقید کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو گیا ہے۔ بی جے پی کے لوگ تو مودی پر تنقید کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی ان میں بھگوان رام کا اوتار ڈھونڈ رہا ہے تو کوئی انہیں ہندو ہردئے سمراٹ کہتا ہے۔ ملک میں موجود ہندو فرقہ پرست جماعتوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بڑی چالاکی سے بٹھا دی ہے کہ کئی ہزار سالوں بعد کوئی صحیح ہندو اس ملک کا وزیر اعظم بنا ہے۔ کئی سالوں بعد ہندوؤں کو یہ موقع ملا ہے کہ اس ملک کو پوری طرح سے ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی ملک سے بھی بڑے ہو گئے ہیں۔
جمہوریت کی اصل روح تو سوال کرنے میں ہی ہے، لوگ حکومتی منصوبوں پر سوال اٹھاتے ہیں اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومتی منصوبے عوامی بہبود کے لیے ہیں یا نہیں، ان منصوبوں سے عوام کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے، جو منصوبے بنائے گئے ہیں اس پر کس حد تک عمل درآمد ہورہا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انتخابات میں عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اگر حکومت اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کر رہی ہے تو اسے اپنے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں، اس سے سوال کیا جاتا ہے، اب یہی یاد دہانی انہیں بری لگنے لگی ہے۔ عوام کی تنقید ان پر شاق گزرتی ہے، جو تنقید کرتا ہے اسے پریشان کیا جاتا ہے، اسے جیل میں بند کردیا جاتا ہے، اسے ایسے ایسے کے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے جس میں اس کو ضمانت تک نہیں ملتی، اس پر ملک سے غداری جیسے مقدمات عائد کردیے جاتے ہیں یعنی حکومت پر تنقید کرنا ملک سے غداری کے مترادف ہو گیا ہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی این سری کرشنا نے اخبار ’دی ہندو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سنسی خیز بات کہہ دی۔ اس کا تناظر یہ ہے کہ چند دن قبل بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو جیل سے رہا کرنے پر تلنگانہ کی ایک آئی اے ایس عہدیدار سمیتا سبراوال نے تنقید کی تھی اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اسی سے متعلق جسٹس بی این سری کرشنا سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’جمہوری نظام میں حکومت پر تنقید کرنا عوام کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی ان کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔‘‘ جسٹس بی این سری کرشنا نے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج حالات بہت خراب ہیں‘‘ اور ’’مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ اگر میں کسی چوراہے پر کھڑا ہو کر یہ کہوں کہ مجھے وزیر اعظم کا چہرہ پسند نہیں ہے تو کوئی مجھ پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے، مجھے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور بغیر کسی وجہ کہ مجھے جیل میں ڈال دیا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ کسی حزب اختلاف کی جماعت کے لیڈر یا کسی عام آدمی کی بات نہیں ہے، یہ وہ شخصیت ہیں جو یو پی اے اور ین ڈی اے دونوں حکومتوں کے دور میں سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں، جنہوں نے ڈیٹا کے تحفظ کے سلسلے میں ماہرین کی کمیٹی کی سربراہی کی ہے۔ علیحدہ تلنگانہ کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا یہ اس کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا یہ تبصرہ واقعی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا واقعی ہمارے ملک میں جمہوری اقدار روز بروز گرتے جارہے ہیں؟ کیا جمہوری اقدار کو جان بوجھ کر ختم کیا جا رہا ہے؟ یہ ہمیں اس کا جواب سوچنا چاہیے۔ مملکتی وزیر داخلہ نے جسٹس بی این سری کرشنا کے تبصرے پر پلٹ کر وار کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ لوگ جو بلا کسی روک ٹوک ایک مقبول عام منتخب وزیر اعظم کو گالی دیتے ہیں آزادی اظہار رائے کا رونا روتے ہیں! وہ کانگریس پارٹی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتے اور نہ ہی بعض علاقائی پارٹیوں کے وزرائے اعلیٰ پر تنقید کرنے کی ہمت کرتے ہیں‘‘۔
نہیں معلوم کہ جسٹس بی این سری کرشنا نے ایمرجنسی کی کبھی حمایت کی تھی یا نہیں، پھر نہ جانے کیوں وزیر موصوف نے یہ غیر معقول بات چھیڑ دی؟ وزیراعظم مودی پر تنقید کرنا کیا ایمرجنسی کی حمایت کرنے کے برابر ہے؟ کوئی شخص بھی کانگریس کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کی حمایت نہیں کرتا، وہ ملک کے جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے جسے اندرا گاندھی نے لگایا تھا، اس کے بعد عوام نے کانگریس کا کیا حشر کیا وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کیا کرن رجیجو یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورت حال تو وہی ہے لیکن اسے ایمرجنسی کا نام نہیں دیا گیا ہے؟ کیا یہ غیر معلنہ ایمرجنسی جیسی صورت حال تو نہیں ہے؟ کیونکہ ملک کے موجودہ حالات سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی کا انداز حکمرانی جمہوری اقدار کے مغائر ہے۔ یہ بات یوں ہی نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ آئے دن یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جو کوئی مودی حکومت کی مخالفت کرتا ہے اسے حکومتی عتاب سہنا پڑتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ صحافی بھی سے بچے ہوئے نہیں ہیں، ملک سے غداری کے مقدمے لگائے جارہے ہیں، یو اے پی اے لگایا جارہا ہے، بغیر کسی معقول وجہ کے جیلوں ڈالا جا رہا ہے۔ صدیق کپن پر رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں یو اے پی اے لگایا گیا صدیق کو دو سال کے بعد اب کہیں مشروط ضمانت مل سکی ہے۔راجدیپ سر دیسائی ٹویٹ کرنے کی پاداش میں ملک سے غداری کا مقدمہ جھیل رہے ہیں۔ ونود دوا پر ویڈیو بنانے پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا۔ پھر اسی طرح شمال مشرقی ریاست کے دو صحافیوں نے وزیر اعلی پر کچھ لکھا تو انہیں بھی ہفتوں جیل میں بند کر دیا گیا۔ ان پر بھی غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اتنے مقدمات درج کیے گئے کہ چیف جسٹس این وی رمنا کو کہنا پڑا کہ ’’کیا اب بھی ایسے قانون کی ضرورت ہے جسے انگریزوں نے مہاتما گاندھی اور تلک کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا تھا؟‘‘ لیکن حکومت فورا بول اٹھی اور کہا کہ ایسا قانون ہونا چاہیے۔ اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی حکومت پر تنقید کی اسے نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت تنقید کو برداشت نہیں کرتی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ حکومت سے زیادہ مودی پر تنقید گناہ کبیرہ ہو گیا ہے۔ اگر کوئی مودی پر تنقید کرتا ہے تو مقدمہ درج ہو یا نہ ہو بی جے پی کی ٹرول آرمی اسے بے ضرور بے عزت کر دیتی ہے، گالیاں دینے والی یہ ٹولی اسے نہیں چھوڑتی، پھر چاہے وہ خود کی جماعت کا یعنی بی جے پی کا ممبر ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ انہوں نے نہ سشما سوراج کو چھوڑا اور نہ گڈکری کو۔ یعنی جو کوئی مودی سے سوال کرے وہ غدار ہے، ملک دشمن ہے، دہشت گرد ہے۔ گویا مودی انسان نہیں ہندوستان ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مودی حکومت پر سوال کرنے والوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ اگر مودی کے خلاف بولیں گے تو ٹرول آرمی پیچھے پڑ جائے گی، سوال کرو گے تو غدار کہلاو گے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ ملک بک رہا ہے اور لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اگر کوئی حزب اختلاف کا نمائندہ بولے گا تو اس کے پیچھے ای ڈی اور سی بی آئی لگا دی جائے گی۔ حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے کا یہ طریقہ جمہوری نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اسی کیفیت کو سابق جسٹس بی این سری کرشنا نے بیان کیا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب جمہوریت اور جمہوری اقدار پر بات کرنا محال ہو جائے گا اور ملک آہستہ آہستہ ڈکٹیٹر شپ کی طرف چلا جائے گا۔ ہمارے سامنے ہٹلر و مسولینی کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح ان آمروں نے اپنے ملک کا حال کیا۔ پاکستان کا حال دیکھ لیجیے آمریت نے اس کا کیا حال بنا دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام خواب غفلت سے بیدار ہوں اور جمہوری اقدار کو پامال ہونے اور جمہوری نظام کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

 

***

 اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب جمہوریت اور جمہوری اقدار پر بات کرنا محال ہو جائے گا اور ملک آہستہ آہستہ ڈکٹیٹر شپ کی طرف چلا جائے گا۔ ہمارے سامنے ہٹلر و مسولینی کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح ان آمروں نے اپنے ملک کا حال کیا۔ پاکستان کا حال دیکھ لیجیے آمریت نے اس کا کیا حال بنا دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام خواب غفلت سے بیدار ہوں اور جمہوری اقدار کو پامال ہونے اور جمہوری نظام کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022