ہندو راشٹر کا ہدف: نصابی کتابوں میں تبدیلی

برہمنی جبر کی تاریخ کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کا منصوبہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

طلبا میں تنقیدی سوچ اور سماجی نا انصافیوں کے خلاف جہدو جہد کو ختم کرنے کی کوشش
سماجی تبدیلیوں اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کے لیے نصابی کتابوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اسکولی نصاب میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہیں تاکہ اپنی نئی نسل کو عصری حالات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ آزادی کے بعد اسکولوں کے نصاب کو مستحکم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگی کے لیے 1960 میں مرکزی حکومت نے ایک خود مختار ادارہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) قائم کیا۔گزشتہ 6 دہائیوں میں اس ادارے نے قومی بیانیے اور ریاست کے نظریہ کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دہائیوں میں این سی آرٹی نے عصری دریافت اور سماجی تبدیلیوں سے نصاب کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک درجن سے زائد مرتبہ نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں مگر یہ بھی المیہ ہے کہ ملک کے دیگر اداروں کی طرح این سی ای آر ٹی بھی سیاسی دباؤ کا شکار ہے اور اس کے اقدامات سیاسی موضوع بنتے رہے ہیں۔ قومی بیانیے اور ریاست کے نظریے کو مستحکم کرنے کے لیے قائم ہونے والے ادارے پر پر سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو مستحکم کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ حال ہی میں این سی ای آر ٹی نے پانچویں جماعت سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں جو تبدیلیا ں کی ہیں اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ساتھ ہی اس کے مقاصد اور منشا پر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں کیوں کہ تبدیلیاں وہی کی گئیں ہیں جو ہندوتوا کی سوچ وفکر سے متصادم تھیں یا پھر ہندو راشٹر کے قیام کی راہ میں روکاوٹ بن سکتی تھیں۔ تاریخ، سماجیات اور سیاسیات کے نصابی کتابوں سے جو اہم حصے نکالے گئے ہیں ان میں 2002 کے گجرات فسادات، ایمرجنسی، جواہر لال نہرو کی کتابوں کے اقتباسات، ذات پات اور بھید بھاو کے خلاف جدو جہد، جمہوری تحریکیں، اصلاحی مہم، نرمدا بچاو آندولن، کسانوں کے احتجاج اور مسلم حکمرانوں کے تذکرے شامل ہے۔ اس کے علاوہ پنڈت نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت پر بھی شدید چوٹ لگائی گئی ہے۔ اگرچہ این سی آر ٹی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے منفی اثرات کی وجہ سے طلبا پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے تکرار اور غیر ضروری طوالت کو ختم کیا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں نیشنل ایجوکشن کی سفارشات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں۔ اس کے لیے سوشل سائنس کے ماہرین اور مختلف شعبوں کے ماہرین سے آراء لی گئی ہیں مگر وہ ماہرین کون ہیں اور ان کا تعلق کس ادارے سے تھا اس کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔
نریندر مودی کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں تیسری مرتبہ نصاب میں تبدیلی کی گئی ہے۔مگر ان آٹھ سالوں میں سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم اور حکومت نصاب اور تعلیم کے خد و خال طے کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ یقیناً یہ ساری تگ و دو ’ہندو راشٹر‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہی کی جا رہی ہے مگر ہندو راشٹر کے قیام کے لیے کون سا نصاب معاون ثابت ہو سکتا ہے، آر ایس ایس کے ماہرین تعلیم ابھی تک ان بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دراصل تاریخی معروضات اور حقائق سے مکمل طور پر انحراف کے بغیر ہندو راشٹر کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ جدید ٹکنالوجی اور سائنٹفکٹ دور میں مکمل طور پر تاریخی حقائق سے انحراف نا ممکن ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں برہمنوں کا جبر، طبقاتی تفریق، ذات پات کی بنیاد پر سماجی تفریق، صنفی عدم مساوات ہندوستانی معاشرے کی حقیقت ہے۔ چناں چہ خود ہندو مصلح کاروں نے بڑے پیمانے پر مذہبی اصلاحات کی کوششیں کی ہیں۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ودیا ساگر، راجہ رام موہن رائے اور سوامی ویویکانند جیسی شخصیات نے بڑے پیمانے پر اصلاحی مہمیں چلائیں اور بہت ساری سماجی برائیوں کا خاتمہ کیا۔ بیسویں صدی میں بابا صاحب امبیڈکر نے برہمنی جبر کے خلاف زور دار تحریک چلائی، یہ ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے آئین میں سماجی پسماندگی کے شکار دلت اور قبائلیوں کو خصوصی مراعات دی گئیں۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی قسط وار خصوصی رپورٹ میں این سی آر ٹی کے جس ترمیم شدہ نصاب کو سامنے پیش کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے ماہرین تعلیم نے اس سوال سے قطع نظر کہ آیا نصابی ترمیم کے ذریعہ ظلم و جبر کی تاریخ مٹائی جا سکتی، برہمنی جبر کی تاریخ مٹانے کی شعوری کوشش کی ہے۔ سیاسیات، سماجیات اور تاریخ ایسے موضوعات ہیں جن کے ذریعہ طلبا کے ذہن و دماغ کے دریچے کھولے جاتے ہیں۔ تخلیقی ذہن اور بلند خیالی پیدا کرنے کے علاوہ ماضی کے اسباق سے نتائج حاصل کرنے اور پھر اس کے تدارک کے لیے ذہن و دماغ کو تیار کرتے ہیں۔ مختلف قوموں کی تاریخ ان کے عروج و زوال کی داستان، اس معاشرے کی سماجی، علمی اور معاشی تحریکوں کا مطالعہ نہ صرف ماضی کی دریافت ہوتا ہے بلکہ مستقبل بینی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ تحریف شدہ حقائق اور معروضیت سے عاری نصاب سے طلبا کے ذہن و دماغ کی آبیاری کس طرح کی جا سکتی ہے؟ اس طرح کے نصاب کو پڑھنے کے بعد طلبا کے ذہن و دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ ان حالات کے تدارک اور حکومتی جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے سول سوسائٹی کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔
ابھی تو صرف شروعات ہے
این سی آر ٹی کے ذریعہ نصاب میں یہ تبدیلیاں آخری نہیں ہیں بلکہ یہ ابتدائی اقدامات ہیں۔ اصل تبدیلی اور ترتیب نو ’نیشنل کریکولم فریم ورک‘ میں کرنا ہے۔ این سی ایف کس طرح نصاب کی ترتیب نو کرے گی اس سے متعلق ابھی کوئی تصویر واضح نہیں ہے۔ اسرو کے سابق چیرمین کستوری رنگن اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے 17 ماہرین اس کمیٹی میں شامل ہیں۔این سی آر ٹی نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ این سی ایف طویل مشاورت اور غور و فکر کے بعد اسکولی نصاب کا خاکہ پیش کرے گی۔ عوامی سطح پر لوگوں کی رائے لینے کے لیے دو سو موبائل ایپس بنائے گئے ہیں جس میں الگ الگ سبجیکٹ کے لیے شہریوں سے رائے لی جا رہی ہے۔ این ایف سی کے ذریعہ نصاب کی ترتیب نو کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ یہ پانچویں مرتبہ ہے۔ اس سے قبل 1975، 1988، 2000 اور 2005 میں بھی نصاب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ این ایف سی کے ممبران سے متعلق کسی بھی تبصرے سے قبل مشہور مورخ رام چندر گوہا کا یہ تبصرہ جو انہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں کیا ہے ذہن نشیں رہنا چاہیے: ’’کانگریس کے دور اقتدار میں تعلیمی کمیٹی پر دوسرے اور تیسرے درجے کے ماہرین کو فائز کیا جاتا تھا مگر اس حکومت کے دور میں 37ویں اور 38ویں درجے کے ماہرین کو تعلیمی کمیٹیوں کی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں‘‘۔ چناں چہ انڈین ایکسپریس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ’’نیشنل کریکولم فریم ورک‘‘ نے کل 25 فوکس گروپ بنائے ہیں۔ ہر ایک گروپ میں 7 سے 10 ماہرین شامل ہیں۔ ان میں سے 17 گروپس ایسے ہیں جن کی قیادت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ افراد کر رہے ہیں جس میں سودیشی جاگرن منچ کے شریک چیرمین ڈاکٹر بھگوتی پرکاش شرما، وناواسی کلیان آشرم کے صدردتہ بھیکاجی نائک و دیگر افراد شامل ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ افراد پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر تعلیمی کمیٹیوں اور نصابی کمیٹیوں میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ این سی ایف کے ذریعہ نصاب کی ترتیب نو کا خدو خال کیا ہو گا۔ نصاب کا انڈینائزیشن کے نام پر سنگھی کرن کیا جائے گا۔
مودی کے آٹھ سالہ دور حکومت میں نصابی کتابوں میں حذف و اضافہ تیسری مرتبہ کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں 2017میں نصاب کی 182 کتابوں میں 1334 مقامات کو تبدیل کر دیا گیا تھا اور دوسری مرتبہ تبدیلی 2019 میں سابق مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر کے دور میں کی گئی تھی۔
مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی آراء کے تناظر میں نصاب میں تبدیلی کرنے سے متعلق دعوے کی قلعی این سی آرٹی کے ایگزیکیٹیو کمیٹی کی ممبر اور’ ٹیکسٹ بک کی ایڈوائزری ٹیم‘ کی چیر پرسن انیتارام پال نے یہ کہتے ہوئے کھول دی کہ یہ تمام تبدیلیاں ان کے علم میں لائے بغیر کی گئی ہیں ۔انگریزی میگزین ’آئوٹ لک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹ بک ٹیم کی چیر پرسن ہونے کے باوجود ترمیم و اضافہ کے لیے ان سے کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا۔ نصاب میں تبدیلی طویل مشاورت اور غور و فکر کے بعد ہونی چاہیے مگر اس مرتبہ نہ مجھ سے اور نہ ہی ایڈوئزری کمیٹی کے دیگر ممبران اور دیگر کمیٹیوں کے ذمہ داروں سے مشاورت کی گئی ہے۔
نصاب میں تبدیلی کے مقاصد اور منشا
نصاب کی ترتیب نو کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے شہری اور حکومت کے تعلقات واضح ہونے کے ساتھ ، حکومت کے جمہوریت کے وژن اور مثالی ہندوستانی معاشرہ (آئیڈیا آف انڈیا) کے تصور سے آگاہی ہوتی ہے۔ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ نصاب میں ان تبدیلیوں کے پس منظر مقاصد و منشا کیا ہے ۔اس کو جانے بغیر گجرات فسادات کے ذکر کے ساتھ ایمرجنسی سے متعلق اسباق کو ختم کرنے کے مقاصد کو نہیں سمجھا جاسکتا ۔اگرچہ کچھ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں ایمرجنسی سے متعلق اسباق کو ہٹانے کے پیچھے کانگریس کو خاموش رکھنے کی حکمت عملی شامل ہے۔یقیناً یہ کانگریس کے لیے امتحان ہے کہ وہ ایمرجنسی کے ذکر کو حذف کیے جانے وجہ سے نصاب کی تبدیلی کے اس پورے عمل پر خاموشی اختیار کرتی ہے یا پھر چار دہائیوں کے بعد ایمرجنسی سے متعلق اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرکے حکومت کے عزائم و مقاصد کو بے نقاب کرتی ہے۔
سماجی علوم اور سوشل سائنس کا تصور کیا ہو نا چاہیے اور سوشل سائنس کے طلبا کے درمیان سماجی و سیاسی تبدیلیوں کو کس طرح سے پیش کیا جائے یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ سوشل سائنس داں اپنے طلبا اور قارئین میں تنقیدی سوچ کی آبیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔دراصل’’ تنقیدی سوچ‘‘ حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی رہی ہے اس لیے متعدد ادوار میں سوشل سائنس کے تحت آنے والے مضامین اور اس کے مباحث پر نکتہ چینی کی گئی ہے ۔یقیناً گجرات فسادات کاذکر حکومت کے لیے پریشان کن ہے ۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجرات فسادات کا ذکر ختم کرکے حکومت حقائق سے فرار کی راہ اختیار کررہی ہے مگر معاملہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ایمرجنسی کا ذکر یقیناً بی جے پی کے لیے مختصر مدت کے لیے مفید تھا کہ وہ اس کے ذریعہ کانگریس کی گھیرا بندی کرتی رہے مگر طویل مدتی منصوبے کے نظر سے دیکھا جائے تو گجرات فسادات کا ذکر ختم کرنا ان کے لیے جتنا ضروری تھا اتنا ہی ایمرجنسی کے ذکر کو ختم کرنا بھی ضروری تھا۔گجرات فسادات اور ایمرجنسی دونوں حکومتوں کی ناکامی کو ظاہر کرنے کے علاوہ حکومت کی لاپروائی اور مفادات کے لیے حکومتی ادارے کو ناکارہ بنانے کے اہل اقتدار کے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔
احتجاجی تحریکیں ایک مضبوط جمہوری ملک میں جمہوری روایات و اقدار کے فروغ کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور یہ تحریکیں حکومتوں کوجواب دہ بنانے کے ساتھ پالیسیوں اور اقدامات پر نظرثانی کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ حکومت کے رٹ کو چیلنج بھی کرتی ہیں ،اس کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرتی ہے۔غیر جمہوری سوچ وفکر رکھنے والے افراد کے لیے اس کو برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہے۔چوں کہ موجودہ بی جے پی حکومت ’’نام نہاد مضبوط حکومت ‘‘ کی سوچ رکھتی ہے۔اس کے نزدیک مضبوط جمہوریت کا تصور یہ ہے کہ اس کے فیصلے اور فرامین کو کوئی چیلنج نہ کرے۔چناں چہ گزشتہ 8سالوں میں جمہوری و خود مختارے ادارے کی آزادی پر حملہ ، آزاد آوازوں کو خاموش کرنے اور اپوزیشن کو کمزور کرنے اور مشہور تعلیمی ادارے کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ہر اس ادارے اور شخصیت کو نشانہ بنایا گیا ہے جو حکومت کے رٹ کو چیلنج کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ان سالوں میں طلبا نے سب سے زیادہ مزاحمت کی ہے۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا نے متعدد مواقع پر حکومت کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔نصابی کتابوں سے احتجاجی تحریکوں کے ذکر کو ختم کرنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے کہ طلبا میں حکومت کے فیصلے کے خلاف تنقید کرنے اور اس پر سوال کرنے کا مزاج ہی پیدا نہ ہوا۔حقیقی جمہوریت کے بجائے رسمی جمہوریت قائم رہے۔
دائیں بازو کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ عہد قدیم کے ہندوستان کو مثالی ہندوستان قرار دیا جائے ۔اس کے لیے غیر سائنٹفک دعوے کیے جاتے رہے ہیں ، کبھی کبھی ایسے ایسے مضحکہ خیز دعوے کیے گئے ہیں جو ہندوستان کی بدنامی کا ذریعہ بھی بنے ہے۔ان کا خیال ہے کہ نصابی کتابوں میں عہد قدیم میں ہندوستانی معاشرے میں طبقاتی تفریق، سماجی نا انصافی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔برہمنی جبر کو حقائق سے کہیں زیادہ پیش کیا گیا ہے۔چناں چہ این سی آرٹی کے حالیہ ترامیم میں ذات پات کی تفریق ، مندروں میں برہمنوں کی اجارہ داری اور صنفی عدم مساوات کے ذکر کو ختم کرکے ہندوستان کے عہدقدیم کو ایک معاشرہ کے اعتبار سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔گزشتہ پانچ دہائیوں کے درمیان مورخین اور سوشل سائنس دانوں نے ہندوستانی معاشرے میں ذات پات کی تفریق ، سماجی ناہمواریوں اور صنفی عدم مساوات کو سیاق و سباق میں اس طرح سے پیش کیا تھا تاکہ ان سماجی برائیوں کے خلاف مقابلہ کیا جاسکے ۔
سوشل سائنس کی کتابوں میں سب سے بڑی تبدیلی مسلم دور حکومت سے متعلق ابواب کو ہٹاکر کی گئی ہے۔ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی مسلم حکمرانوں کی کردار کشی اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے آغاز ہوگیا تھا ۔تاہم موجودہ حکمراں جماعت اور اس کے فکر کے حاملین کا مسلم حکمرانوں کو دیکھنے کا نظریہ سب سے مختلف ہے۔مسلم دور حکومت میں ہندوستان کی تعمیر و ترقی وہ یکسر منکر ہیں۔ 12ویں صدی سے لے کر 18ویں صدی کو وہ مسلم حکمرانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان سات صدیوں میں ہندوستان نے مختلف شعبہ حیات میں نمایاں ترقی کی ،بڑے پیمانے پر سماجی و معاشرتی اصلاحات ہوئیں۔علاقائیت کے بجائے مضبوط ہندوستان کی تعمیر ہوئی، اقتصادی طور پر ہندوستان مستحکم ہوا۔فن و آرٹ میں ملک نے نمایاں ترقی چناں چہ ان سات دہائیوں میں مندر اور مساجد اور دیگر یادگار عمارتیں تعمیر ہوئیں جو آج بھی ہندوستان کا تاریخی ورثہ ہیں۔سمندری راستے کھلے ۔ہندوستان کی یہی جغرافیائی حیثیت نوآبادیات کا سبب بھی بنی اور دنیا کی توجہ ہندوستان کی جانب مبذول ہوئی۔مگر نصاب میںان حقائق کی موجودگی سے مسلم حکمرانوں کو لٹیرے اور ہندو دشمن بنانے کے بیانیے کو نقصان پہنچ سکتا تھا اس لیے سرے سے ہی مسلم حکمرانوں کے ذکر کو ختم کیا جارہا ہے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں سبھی قوموںاور افراد نے مل کر حصہ لیا نتیجے میں ایک قوم کا تصور ابھر کر سامنے آیا جس میں تنوع اور اختلافات کے ساتھ ملک کی سالمیت اور آزادی کے حصول کے لیے مشترکہ کوششیں کی گئیں۔نصابی کتاب سے تقسیم کے سانحہ، ملک کی آزادی کے بعد ملک کو متحد کرنے کی کوششوں کے ذکر کو نصابی کتابوں سے ہٹانے کے پیچھے ذہنیت یہی ہے کہ نہرو اور گاندھی کا آئیڈیا آف انڈیا جس میں تمام طبقات اور افراد کو ملک کا ناگزیر اکائی قرار دیا گیا تھا ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ ساورکراور گولوالکر کی فکرکو سامنے لایا جارہا ہے جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا گیا تھا۔
گیارہویں جماعت میں سوشل سائنس کے نصاب سے امریکی نوآبادیات، صنعتی انقلاب اور 19ویں صدی میں دنیا بھر میں ہونے والے نوآبادیاتی تحریک کے خلاف جدو جہد کوہٹانے کے پیچھے بھی یہی ذہنیت کارفرما ہے۔
نصاب میں تبدیلی کے منفی اثرات
جواہر لال نہرویونیورسٹی میں ’’ہندتو اور ہندوستانی تاریخ ‘‘ کے عنوان سے ریسرچ کرنے والی محقق تھلاپیلی پروین این سی آرٹی کی اس پورے ایکسرسائز کو ’’ہندو راشٹر‘‘ کے تصور کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ پوری قوم کو ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی قیمت ہندوستانی سماج کو بڑے پیمانے پر چکانی پڑے گی۔کیوں کہ ہندوستان مختلف تضادات ،تنوع اور نظریاتی وفکری اختلافات کے باوجود رواداری اور قوت برداشت کا حامل ملک رہا ہے۔ہم نے خوش دلی ایک دوسرے کی تہذیب و کلچر اور معاشرتی زندگی کو قبول کیا ہے۔یہی خوبی ہندوستان کو دنیا کے دیگر ممالک سے ممتا ز کرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے ہمیشہ اصلاحات کی کوششوں کو سراہا ہے اور اسے قبول کیا ہےمگر حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ رواداری پر حملے کیے گئے ہیں اور اتحاد کے نام پر تنوع کو ختم کرنے کی کوشش کرکے اپنی فکر اور سوچ کو جبرکے ساتھ نافذکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگر طلبا ذات پات کے جبر اور اس کے بنیادی عوامل کا مطالعہ نہیں کریں گے تو وہ ذات پات کی حقیقت کو نہ سمجھ پائیں گے اور نہ مستقبل میں ذات پات کی تفریق کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ کرسکیں گے ۔اس لیے جب اگلی بار کسی دلت کو مونچھیں بڑھانے یا کسی دلت دولہا کے گھوڑے پر سوار ہونے کی وجہ سے مار پیٹا جائے گا اور ظلم و زیادتی کی جائے گی تو کنگارو عدالتیں فیصلہ سنائیں گی اور اس نصاب کو پڑھنے والے طلبا ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کرنا تو درکنار نفرت انگیزی کو جرم سمجھنے سے بھی قاصر ہوں گے۔پروین کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کے دور میں، جب معلومات اتنی آسانی سے دستیاب ہیں اور نوجوان ’بیدار اور ترقی پسند‘ ہیں تو ایسے میں نصابی کتابوں سے سرے سے ذات پات کے نام پر تفریق او ر سماجی برائیوں کے اسباق کو ختم کرنا مشکل ہے ۔لیکن سیاق و سباق اور ذیلی متن میں تبدیلیاں لاکر برہمنی جبر کی سنگینیت کو ختم کرنے کی تو بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔
کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے اس نے بھی این سی ای آرٹی کے طرز پر نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔بلکہ کرناٹک کے نصاب میں ڈاکٹر امبیڈکر ، اصلاحی تحریکیوں اور دیگر قوموں کی جدو جہد کی تاریخ کو نصاب سے سرے سے ہی خارج کردیا گیا ہے یا پھر ذکر کی حدتک اس کو رہنے دیا ہے۔ایس آئی او کرناٹک کے صدر شہزاد شکیب ملا کرناٹک میں نصاب کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں اس تبدیلی کے دوسطحوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔پہلے طلبا متاثر ہوں گے۔ان کے ذہن و دماغ نفرت سے بھردیے جائیں گے۔اس کے بعد وہ سماج کے تنوع اور تکثیریت کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوں گے ۔دوسری طرف ہندوستان کی ایک تاریخ رہی ہے ۔اس تاریخ کا اہم حصہ تحریک آزادی ہے ۔اس کے اغراض و مقاصد تھے ۔جدو جہد آزادی کی اپنی تمنائیں تھیں ۔اس نصاب کو پڑھنے والے بچے ہندوستان کے دستور کی روح اور قدروں کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ہندوستانی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سماجی و مذہبی اصلاحی تحریکوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ان تحریکیوں نے سماجی برائیوں ، معاشرتی تبدیلی ، صنفی مساوات ،ذات پات کی تفریق کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ بچے ان تحریکوں کو اہمیت سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ جمہوری ملک میں صرف تمام طبقات کو یکساں مواقع فراہم کرناہی کافی نہیں ہے بلکہ نصاب میں بھی ان کی تاریخ اورثقافت و کلچر کونمائندگی ملنی چاہیے ۔اس کے بعد ہی ہندوستان عملی طور پر تنوع میں اتحاد کا نمونہ بن سکتا ہے۔علاوہ ازین تاریخ اور میتھالوجی کو خلط ملط کرنے سے نہ صرف تاریخی حقائق کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ میتھالوجی کے تئیں ایمان ویقین کمزور ہوتا ہے ۔
کیا نصابی تبدیلی کے منفی اثرات کا ازالہ ممکن ہے؟
ملی جماعتیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟
مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اس کے ازالے اور تدارک کی تدابیر پر غور کرنے اور اس کو روبہ عمل لانے کے لیے حکمت عملی اور منصوبہ سازی نہایت ضروری ہے تا کہ نصابی کتابوں میں موجودہ تبدیلی کے منفی اثرات اور طلبا کی تنقیدی سوچ کے عدم فروغ کی وجہ سے تخلیقی صلاحیت سے محرومی کے معاشرے کو جو نقصانات ہوں گے اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔علاوہ ازیں اقلیتوں کے تئیں نا انصافی اور مسلم دور حکومت کوغلط تناظر میں پیش کرنے کی کوششوں کا سب سے زیادہ منفی اثر مسلم سماج پر پڑنے کا امکان ہے ۔مسلمانوں کے تئیں براداران وطن میں منفی سوچ میں اضافہ ہوگا اور تقسیم کی دراڑیں مزید مضبوط اور گہری ہوں گی۔ظاہر ہے کہ اس کا نقصان سب سے زیادہ مسلمانوں اور سماج کے پسماندہ طبقات کو برداشت کرنا پڑے گا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلم سماج اور ملی ادارے ان چیلنجوں کا مقابلہ ا ور اس سے ہونے والے نقصانات کے تدارک کے لیے تیارہیں؟
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرڈاکٹر اسلم پرویز ’ ہفت روزہ دعوت‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملی اداروں اور مسلمانوں سے اس معاملے میں کیا امید کی جاسکتی ہے؟ انہوں نے پہلے ہی تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ تعلیم کے مقاصد اور اس کی جہت کے تعین کرنے میں ہی اختلافات کے شکار افراد سے یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے وہ ملکی سطح پر نصاب کے تبدیلی کے اثرات کے تدارک کے لیے اقدامات کریں گے ۔مسلمانوں اور ملی اداروں کی پہلی ذمہ داری ہے کہ تعلیم دینی اور عصری تقسیم کا خاتمہ کرے اور اس کے بعد ہی نئے حالات سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔
مرکزی جماعت اسلامی ہند میں شعبہ تعلیم کے انچارج اور مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہ مجتبیٰ فاروق ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں تعلیم کا مسئلہ بہت ہی زیادہ سنجیدگی کا طالب ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بحیثیت مسلم قوم تعلیم کے مسائل اور اس شعبے میں آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے اس سطح پر کام نہیں کیا ہے جس کا وہ متقاضی ہے۔چناں چہ اس رویے کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ہندوستان کی آزادی کے بعد اسکولی نصاب کی تدوین میں لیفٹ نظریات کے حاملین نے اہم رول ادا کیا ہے۔ لیفٹ سے وابستہ دانشور اور ماہرین کی ایک اپنی سوچ وفکر رہی ہے۔موجودہ حکومت اس سوچ کی شدید مخالف ہے۔اسے شکایت ہے کہ لیفٹ نظریات کے حاملین دانشوروں نے ہندو مذہب کو نظرانداز کیا ہے۔چناں چہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی یہ قوتیں اپنے نظریات و فکر کے مطابق نصاب کی از سر نو تدوین کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔چوں کہ اقتدار کی وجہ سے بے پناہ طاقتیں حاصل ہوجاتی ہیں اس لیے وہ تیزی سے اس پر کام کررہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس کے منفی اثرات نہ صرف طلبا کے ذہن و دماغ پر پڑیں گے بلکہ سماج و معاشرہ بھی متاثر ہوں گے۔اصلاحات اور سماجی انصاف کے حصول کی راہیں محدود ہوں گی۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دانشوروں اور ماہرین تعلیم ملک کے سامنے متبادل ایسا نصاب تعلیم پیش کریں جس میں تنوع کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کے جذبات کارفرما کیا۔جس میں سماج و معاشرہ کے تمام طبقات کی حصہ داری ہو۔
جادوپوریونیورسٹی میں سوشل سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر اور’’سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مغربی بنگال میں مسلمانوں کی سماجی ، تعلیمی صورت حال میں تبدیلی ‘‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ مرتب کرنے والے پروفیسر عبدالمتین کہتے ہیں کہ این سی ای آرٹی، سی بی ایس سی اور بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں نصاب جو ترمیم وتنسیخ ک گئ ہے وہ زیادہ تر سوشل سائنس کے موضوع میں کی گئیں۔دراصل سوشل سائنس سماج و معاشرہ کو مختلف زاوے سے طلبا کو سوچنے ، غور و فکر اور اس پر سوال قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔تنقیدی سوچ اور سماجی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کا جذبہ فراہم کرتی ہے۔چناں چہ موجودہ نصاب میں کٹوتی اسی سوچ وفکر کو کرنے کی کوشش ہے۔ان اقدامات سے حکومت کو اپنے فیصلے من مانے طریقے سے کرنے کی طاقت فراہم ہوگی مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان بالعموم ہندوستانی سماج ومعاشرہ کو ہوگااور بالخصوص مسلمانوں اور سماج کے کمزور طبقات کو ہوگا۔اس لیے اس کے تدارک کے لیے کئی محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔سماجی سطح اور تعلیمی سطح پر۔اس میں سب سے زیادہ اہم کردار غیر بی جے پی ریاستیں ادا کرسکتی ہیں ۔ملک کا وفاقی ڈھانچہ ریاستوں کو این سی ای آر ٹی کے نصاب کو قبول کرنے یا پھر آزادانہ فیصلہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ایسے میں سیکولر اقدار کے حامل ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک کے سامنے ایسا نصاب پیش کریں جو سائنٹفکاور معروضی انداز میں مرتب کیا گیا ہو۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
***

 

***

 این سی ای آرٹی کے ذریعہ کی گئی نصابی ترمیم: مرحلہ وار تاریخ
1960کی دہائی: یہ آزادی کے بعد کا وہ مرحلہ تھا جب ہندوستانی تاریخ کو ’سیکولر‘، ’غیر جانبدار‘، اور نوآبادیاتی مخالف نقطہ نظر سے اجاگر کرنے کے لیے نصابی کتابیں تخلیق کی گئیں۔ رومیلا تھاپر، بپن چندر، ستیش چندر، رام شرن شرما اور دیگر جیسے ماہرین تعلیم کی کتابیں شامل کی گئیں۔
1961: کئی موجودہ اداروں کو ملا کر NCERT کا قیام عمل میں آیا
1970-90کی دہائی میں ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے کے لیے جنتا پارٹی کے دور حکومت (1977-1979) اور بی جے پی (1998-2004) حکومتوں کے دوران کئی مرتبہ نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جنتا پارٹی کی حکومت نے این سی ای آر ٹی کی کتابوں جیسے تھاپر کی میڈیول انڈیا اور بپن چندر کی ماڈرن انڈیا سمیت دیگر کتابوں کو ’’ملک دشمن‘‘قرار دے کر نصاب سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔
2002 : این ڈی اے حکومت نے نصابی کتابوں پر مارکسی نظریات کے اثرات ختم کرنے کے لیے نصاب میں کئی بنیادی تبدیلیاں کیں۔
2005 : بی جے پی حکومت کی تبدیلیوں کو کالعدم کرنے کے لیے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے این سی ای آر ٹی کے نصاب کو تبدیل کیا اور نیشنل کریکولم فریم ورک (2005) متعارف کرایا گیا۔
2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت کے قیام بعد نصابی کتابوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پانچویں مرتبہ نیشنل کریکولم فریم ورک کی تشکیل کی گئی ۔
2017 میں این سی ای آرٹی نے182 نصابی کتابوں کو اپ ڈیٹ کیا۔ کتابوں میں سوچھ بھارت، ڈیجیٹل انڈیا، ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے موضوعات شامل کیے گئے۔
2018-19: تاریخ کی نصابی کتابوں میں ہندوستان کے علم، روایات اور طریقوں سے متعلق مواد شامل کیا گیا جس میں وکرم سموت (ہندو کیلنڈر)، دھات کاری، شیواجی مہاراج، پائیکا بغاوت، سبھاش چندر بوس، سوامی وویکانند، رنجیت سنگھ، رانی اونتی بائی لودھی سے متعلق اسباق میں شامل کیےگئے اور سری اروبندو گھوس کو بھی شامل کیا گیا۔ کلاس 7 کے نصاب میں مہارانا پرتاپ کا ایک باب بھی شامل کیا گیا۔
2019میں این سی ای آرٹی نے نصابی کتابوں میں بڑے پیمانے پر ترمیم و حذف کیا۔خاص طور پر تاریخ کی نصابی کتابوں میں۔ کلاس 9 کی نصابی کتابوں سے ذات پات کے تنازع کے باب کو خارج کردیا ہے ۔کرکٹ کی نوآبادیاتی تاریخ کے ابواب کے ساتھ اور ‘کسان اور تحریک کے عنوان ،۔ ہند-چین میں قوم پرستی کے باب، شہروں کے عروج کی تاریخ کو نصابی کتابوں سے خارج کردیاگیا۔
2022گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف سابق وزیرا عظم اٹل بہاری واجپائی کے بیان کو حذف کردیا گیا، گودھرا تشدد کی تاریخ کو مختصر کردیا گیا۔نہروا اور امبیڈکر کے اقتباسات کو حذف کردیاگیا، نکسلی تحریکوں کی تاریخ مختصر کر دی گئی۔ کسان تحریک اور زرعی قوانین کے ابواب کو حذف کردیا گیا۔ذات پات کے جبر کی تاریخ، ویدوں میں ذات پات کے جواز، فرقہ وارانہ سیاست کے خطرات پر بحث کو مختصر کیا گیا ہے۔ مغل حکومت سے متعلق حصے کو مختصر کر دیا گیا اور عدالتوں اور انتظامی نظام کے بارے میں تفصیلات کو ختم کردیا گیا۔ مملوکوں، خلجیوں، دہلی سلطنت سمیت دیگر اسلامی حکمرانوں کی تاریخ کوبہت ہی مختصر کردیا گیا ہے۔
2022میں سی بی ایس ای نے دسویں جماعت کے پولیٹکل سائنس کی کتاب سے ’’مذہب، فرقہ واریت اور سیاست‘‘کے باب سے فیض احمد فیض کی نظمیں خارج کردیں ۔ فرقہ وارانہ سیاست کے بارے میں سیاسی کارٹون، ’’سنٹرل اسلامک کلینڈز‘کا ایک باب اور زراعت پر عالمگیریت کے اثرات کو سینئر سیکنڈری کے نصابی کتابوں سے خارج کر دیا گیا ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 اگست تا 27 اگست 2022