حالات کا رخ موڑا جاسکتا ہے

محمد جاوید اقبال ، نئی دلی

برادران وطن کو حکمت اور جرات کے ساتھ اسلام کی دعوت دیں
آج کل مسلمانوں کے حالات نا گفتہ بہ ہیں ہر شخص کے چہرے پر تشویش، تردد اور پریشانی کے آثار نمایاں ہیں ان میں بعض حضرات احساس کمتری اور مایوسی کا بھی شکار ہیں لیکن اگر ہم خود اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں تو نہ صرف امید کی کرن بلکہ تاریکی میں امید کا سورج طولع ہوتا دکھائی دیتا ہے شرط یہ ہے کہ ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں اور پھر حالات کو بدلنے اور ان کا رخ موڑنے کا عزم کریں۔
نہ ہونومید نومیدی زوال علم و عرفاں
امید مرد مرد مون ہے خدا کے راز دانوں میں
اقبالؔ
ایک زمانہ تھا جب اسلامی حکومت قائم تھی ۔ اسلامی تہذیب و تمدن کا دبدبہ تھا لیکن افسوس خود مسلمان حکمرانوں کی احمقانہ روش نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔تاتاری منگولیا کے رہنے والے تھے ،یہ بڑے اجڈجاہل ،اور خونخوار تھے ان کا سردار چنگیز خاں تھا۔ اس کو شاندار پوشاک زیب تن کرنے کا شوق تھا ۔ اس نے اپنے سفیر کو خوارزم مسلم ملک بھیجا۔ خوارزم کے سلطان نے اسے بلاوجہ قتل کرادیا جب وجہ پوچھی گئی تو معقول جواب نہیںدیا گیا۔ چنگیز خاں آگ بگولہ ہوگیا۔ اس نے مسلمانوں کے مشہور شہروں پر حملہ کردیا خوارزم، بلخ ،سمر قند ،بخارا اور نیشا پور جیسے وسط اشیا کے شہروں کو تباہ و برباد کردیا۔ کسی ایک مقام پر بھی مسلمان مقابلہ نہ کرسکے۔ سمر قندو بخارا کی آبادی تقریباً 10لاکھ افراد پر مشتمل تھی تمام افراد قتل کردیے گئے۔ بغداد کی جامع مسجد میں اتنا خون بہایا گیا کہ تاتاریوں کے گھوڑوں کے گھٹنے انسانی خون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس زمانے کا مشہور مورخ ابن اثیر خود عینی گواہ تھا وہ کئی سال تک اس شش و پنج میں رہا کہ ان حالات کو ضبط تحریر میں لائے یا نہیں۔ اس نے لکھا ’’کاش !میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا کہ ان حالات کو دیکھتا ۔کاش !میں ان حالات کے واقع ہونے سے پہلے مرجاتا۔‘‘
ہرطرف تاتاریوں کا دور دورہ تھا۔ ایک دفعہ مسلمانوں کا ایک مختصر قافلہ غلطی سے تاتاریوں کے علاقے میں چلا گیا۔ تاتاریوں نے اسے پکڑلیا اور ان کے ہاتھ باندھ کر اپنے بادشاہ تغلق تیمور جو کاشغر کا حکمراں تھا کے سامنے پیش کیا۔ سلطان جو بدزبا ن اور مسلمانوںکا دشمن تھا اس نے قافلے والوں سے کہا ۔تم کتوں نےج ہمارے علاقہ میں آنے کی کیسے ہمت کی ۔قافلے کے سردار شیخ جمال الدینؒ تھے انہوں نے کہا ’’ہم سے غلطی ہوگئی جہاں تک آپ کے اس جملہ کا تعلق ہے کہ ہم کتے ہیں تو یہ سچ ہے کہ ہم کتوں سے بدتر تھے ،حرام کھاتے تھے ،ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے ،خوش قسمتی سے اسلام کی تعلیم ہم تک پہنچی محمد رسول ﷺ کی ہدایات اور تعلیمات سے ہم سرفراز ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ بادشاہ کو شیخ جمال الدین کی باتیں عجیب معلوم ہوئیں ۔اس نے تفصیل پوچھی ۔شیخ نے اسلام کا پورا تعارف کرادیا۔ اللہ کی مشیت بادشاہ نے شیخ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ اس طرح دھیرے دھیرے پوری تاتاری قوم نے اسلام قبول کیا۔ چنگیز خاں کے چار لڑکے تھے ان چاروںکی نسل میں اسلام پھیلا۔ اس طرح 100سال کی مدت میں پوری قوم اسلام کی آغوش میں آگئی۔ اس واقعہ میں ہمارے لیے جوروشنی ،ہدایت اور سبق پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے پیارے ملک میں حکمت اور جرات سے اسلام کی دعوت پیش کرنا چاہیے۔ جن لوگوں میں غورو فکر کا جذبہ اور احساس ذمہ داری ہے وہ اس واقعہ سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
اسی طرح تاریخ کا ایک اور واقعہ جو ہمارے لیے چشم کشا ہے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں اسلام وسط یوروپ اور ایشا کے علاقوں میں خوب پھیلا۔ انڈونیشیا، ایشیا کے جنوبی کنارے پر واقع ہے ۔یہ جزیروں کا ملک ہے۔ بارہویں صدی میں یہاں بدھوں اور ہندووں کی حکومت تھی یہ حکومت سیری وجے کے نام سے مشہور تھی۔ عرب کے کچھ تاجر وہاں پہنچے ان کے اخلاق معاملات بہت اچھے تھے ۔ان میں تبلیغ اسلام کا جذبہ بھی کارفرما تھا۔ مقامی آبادی ان لوگوں سے متاثر تھی ۔اسی درمیان ہندوستان کے علاقہ گجرات سے ایک حکیم ملک ابراہیم بھی انڈونیشیا پہنچے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت بھی دیتا تھا۔ اتفاق سے ایک بڑے جزیرے کا ہندو راجابیمار ہوا۔بیماری نے جب طول کھینچا تو ملک ابراہیم کو بلایا گیا ۔حکیم ملک ابراہیم نے راجا کا علاج کیا۔ دوران علاج حکیم صاحب راجا کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ راجا ،حکیم صاحب کے علاج سے ٹھیک ہوگیا اور اس کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی۔ راجا نے حکیم ملک ابراہیم کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ راجا کے اہل خانہ اور وزرا اور دیگر لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ حکیم صاحب نے راجا کا نام راون راحت رکھ دیا۔ اس واقعہ کی اطلاع دیگر جزیروں تک پہنچی۔ راجا نے کچھ دنوں کے بعد راج گدی اپنے بیٹے کے سپرد کی اور اسلام پھیلانے کا فریضہ انجام دینے لگا۔ راجہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دیگر جزیروں کے راجاوں نے بھی اسلام قبول کیا ۔اس طرح یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ کہا جاتا ہے کہ انڈونیشیا میں 9ولی ہوئے ،جن میں ایک راون راحت بھی تھے چھوٹے چھوٹے راجا جنہوں نے اسلام قبول کیا ان کے اہل خانہ اور دیگر وزرا اور ملازمین نے بھی اسلام قبول کیا ۔راجاوں نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ وہ اسلام کے داعی بھی بن گئے جس کی وجہ سے اسلام تیزی سے پھیلا ۔مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں انہوں نے مسجدیں اور مدرسے تعمیر کئے۔ ملک ابراہیم کا انتقال 1419میں ہوا جن کا مقبرہ اب بھی وہاں موجود ہے۔
سولہویں صدی کے وسط تک پورے انڈونیشیا میں اسلام پھیل گیا۔ اس وقت انڈونیشیا کی آبادی 25کروڑ ہے جن میں 86فیصد مسلمان، 10فیصد عیسائی 2فیصد ہندو، 2فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔
تاریخ کے مذکورہ بالا دو واقعات میں ہمارے لیے عبرت ہے ۔ اس میں یہ بھی سبق پوشیدہ ہے کہ ہم دوسروں کے خیرخواہ اور فائدے پہنچانے والے بن جائیں۔ اسلام کی قدروں پر عمل کرنے ان کا تذکرہ کرنے والے بن جائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ان واقعات میں یہ سبق بھی ہمارے لیے موجود ہے کہ بات کیسے کی جائے کب کی جائے ۔دعوت اسلام دینے کے لیے ہمت و جرات کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی اکثر آبادی مذہب پسند ہے ان میں محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں بعض شرپسندوں نے ان پر نفرت کی تہہ چڑھادی ہے جس کو محبت حکمت خلوص و ہمدردی سے دور کیا جاسکتا ہے
میری زندگی یہی ہے کہ ہر اک کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گزر ہوں مجھے شوق سے جلاو
(کالم نگار جاوید اقبال؛ سابق میں مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور کے پرنسپل اور مرکزی مکتبہ اسلامی دلی کے مینیجر رہ چکے ہیں۔)
***

 

***

 آج کل مسلمانوں کے حالات نا گفتہ بہ ہیں ہر شخص کے چہرے پر تشویش، تردد اور پریشانی کے آثار نمایاں ہیں ان میں بعض حضرات احساس کمتری اور مایوسی کا بھی شکار ہیں لیکن اگر ہم خود اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں تو نہ صرف امید کی کرن بلکہ تاریکی میں امید کا سورج طولع ہوتا دکھائی دیتا ہے شرط یہ ہے کہ ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں اور پھر حالات کو بدلنے اور ان کا رخ موڑنے کا عزم کریں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  18 ستمبر تا 24 ستمبر 2022