ڈاکٹر مختاراحمد انصاری :تحریک آزادی کا روشن اور متحرک ستارہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شریک بانی ۔ تحریک خلافت میںسرگرم رول کا اعزاز

افروز عالم ساحل

یہ سال 1919 کی بات ہے جب برٹش حکومت ملک میں رولٹ ایکٹ لے کر آئی تھی۔ اس قانون نے حکومت کو یہ اختیارات دیے تھے کہ وہ سیاسی تحریکوں کو باغیانہ اقدام کہہ کر انتقامی کارروائی کرسکتی ہے۔ ٹھیک ویسی ہی انتقامی کارروائی جو اسی سال کی شروعات میں اتر پردیش میں یوگی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کی تھی۔اور اب اتر پردیش حکومت اسپیشل سیکوریٹی فورس ایکٹ 2020 لے کر آگئی ہے، یہ قانون بھی بالکل اسی رولٹ ایکٹ کی طرح ہے، بلکہ کچھ معنوں میں اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

رولٹ ایکٹ کے اس دور میں اتر پردیش کے غازی پور میں پیدا ہوئے ایک شرمیلے نوجوان ڈاکٹر کو یہ کالا قانون کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں تھا اور انہوں نے ملک کے دارالحکومت میں اپنا مورچہ کھول دیا۔ یہ نوجوان ڈاکٹر کوئی اور نہیں بلکہ اس زمانے کے سب سے مشہور ڈاکٹر محمد مختار احمد انصاری تھے۔مختار احمد انصاری نے دلی میں ہونے والی تمام ہڑتالوں، احتجاجی جلسوں اور مظاہروں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ 24 فروری 1919 کو قائم پہلی ستیاگرہ سبھا کے پہلے صدر بھی تھے اور جب 7 مارچ کو گاندھی جی دلی آئے تو ستیاگرہ کا عہد کرنے والوں میں وہ پہلے شخص بھی تھے۔ اس ایکٹ کی مخالفت پر گاندھی جی کے ستیاگرہ کے سلسلے میں کئی اہم میٹنگیں ان کے مکان پر ہی ہوئیں۔ کچھ معاملوں میں تو گاندھی جی بھی بغیر ان کے مشورے کے آگے نہیں بڑھتے تھے۔

24 مارچ کو محمد مختار احمد انصاری نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ ستیاگرہ کا عہد کریں اور اس میں شامل ہوں۔ ان کے مطابق ستیاگرہ کا طریقہ خود ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے بھی اختیار کیا تھا۔ اس طرح ڈاکٹر انصاری اس تحریک کے سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے اور اس کے ساتھ ہی ان کے اندر سے ایک قائد اور پالیسی ساز ہونے کی حیرت انگیز صلاحیتیں ظاہر ہوئیں جو اب تک ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ایک صاحب عمل ’گفتگو میں طاق‘ اپنی بات منوا لینے اور لوگوں کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ترکی اور خلافت عثمانیہ سے ڈاکٹر انصاری کی محبت کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ 1912 میں جب جنگ بلقان نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بے چین کرکے رکھ دیا۔ تب ڈاکٹر انصاری سمیت ہندوستان کے کئی لیڈروں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ ترکی کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ ایسے میں تشویش کے اظہار کی غرض سے کئی منصوبے تیار کیے۔ ’انجمن خدام کعبہ‘ کی تشکیل ان میں ایک تھا، وہیں دوسرا یہ طے کیا گیا کہ ترکی کے زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے ایک ’میڈیکل مشن’ بھیجا جائے۔

19 اکتوبر 1912 کے ’کامریڈ’ میں میڈیکل مشن کے بارے میں پہلی خبر شائع ہوئی، ’وہ لوگ جو فزیشین اور سرجن کی حیثیت سے انصاری کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے واقف ہیں، ان کی زیر نگرانی میڈیکل مشن بھیجنے کے خیال کو ضرور خوش آمدید کہیں گے۔‘

خود ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے اپنے خیالات 26اکتوبر، 1912 کے کامریڈ میں شائع ہوئے، جس میں انہوں نے کہا تھا، ’ترک دریائے باسفورس کے ساحل پر اپنی سلطنت قائم کرنے کے بعد سے مسلسل لڑائیوں میں مصروف ہیں اور سنگین ترین معرکوں سے بہ سلامت گزر رہے ہیں۔ مگر سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں اس سے پہلے ترکوں کو اس سے نازک صورت حال کا سامنا کبھی نہیں رہا جو آج انہیں درپیش ہے جس سے نمٹنا انتہائی مشکل اور جس کے نتائج اس قدر خطرناک ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ترک قوم کا وجود ہی اس جنگ پر منحصر ہے۔ چونکہ ترک فوج میں میڈیکل سروس کو منظم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس لیے وہ جنگ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوگی۔ دوسرے یہ کہ ترکی دشمنوں کو سارے یوروپ سے طبی امداد حاصل ہو رہی ہے اور غریب ترکوں کو صرف اپنے محدود وسائل پر قناعت کرنی پڑ رہی ہے۔ ہم ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے انہیں تمام وسائل سے لیس ایک فیلڈ اسپتال مہیا کر سکتے ہیں، جہاں بیماروں اور زخمیوں کی اچھی خاصی تعداد کو رکھا جا سکے‘۔

ڈاکٹر انصاری نے اپنے ان خیالات کا اختتام ہندوستان کی عوام سے مالی تعاون کی اپیل کے ساتھ کیا۔ ان کی اس اپیل کا فوری اور زبردست اثر ہوا۔ نومبر 1912 کے آخر تک ترکی ریلیف فنڈ میں 1,18,762 روپے جمع ہو گئے۔

یہ مشن یکم جنوری 1913کو قسطنطنیہ پہنچا۔ وہاں پہنچ کر مختار احمد انصاری نے صاف لفظوں میں کہا ’ترکی میں اپنے مسلم بھائیوں کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے، ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے اور ان کی تکلیفیں کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی ہمارے بس میں ہے وہ سب کر گزریں گے، اس میڈیکل مشن نے یہاں بے شمار تکلیفیں برداشت کیں، لیکن ہم نے اپنے حوصلے کو کم زور نہیں پڑنے دیا۔ ایک جگہ ڈاکٹر مختار انصاری لکھتے ہیں، ’میں نے اور میرے ساتھیوں نے تین دن تک صرف پنیر اور ڈبل روٹی پر گزارا کیا، کیونکہ وہ باکس جس میں ہمارا کھانے پینے کا سامان تھا، کسی نے چرا لیا تھا۔’ ان تمام تر مشکلات کے بعد اس مشن کے تمام ساتھی ایک مخصوص لگن، جوش اور جذبے کے ساتھ ترکوں کی تکلیفیں کم کرنے میں لگے رہے۔ یہاں اس مشن نے دو جگہوں ’ہندیہ’ و ’سنجک تپی’ میں اسپتال قائم کیے تھے۔

اس مشن کے بارے میں ڈاکٹر ذاکر حسین اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’اس میڈیکل مشن کی رہبری کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنی پریکٹس چھوڑ دی، گھر میں جو کچھ بک سکتا تھا، بیچ ڈالا اور زخمی ترکوں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں سے خالی ہاتھ واپس ہوئے اور دوبارہ پریکٹس شروع کی۔ ذرا اطمینان ہو چلا تھا کہ خلافت تحریک شروع ہوئی اور ڈاکٹر صاحب نے پھر اپنا وقت اور روپیہ قوم پر نثار کر ڈالا۔ 1920 میں جب وہ خلافت کا ڈیپوٹیشن لے کر جب انگلینڈ گئے تو اپنی موٹر بیچ کر گئے۔ واپس آئے تو ملک میں ایک تہلکہ مچا ہوا تھا، اس وقت کوئی خدمت ایسی نہ تھی جسے انجام دینے میں ڈاکٹر صاحب جھجکے ہوں‘ بتا دیں کہ ذاکر حسین صاحب کا یہ مضمون ڈاکٹر انصاری صاحب کے انتقال کے اگلے دن آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے نشر کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر انصاری اپنا سب کام دھام چھوڑ کر پوری طرح سے تحریک خلافت میں سرگرم رہے۔ اس تحریک کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ضلع، صوبائی اور کل ہند سطحوں کے جلسوں کی صدارت کی۔ انہوں نے 21 ستمبر، 1921 کو لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم کانفرنس منعقد کرنے میں پہل کی اور علماء سے اس میں بڑی تعداد میں شریک ہونے کی اپیل کی۔ اس سے قبل وہ اس خلافت وفد کی قیادت بھی کر رہے تھے، جس نے 19 جنوری 1920 کو وائسرائے سے ملاقات کی تھی۔ وہیں وہ اس وفد میں بھی شامل تھے جو سال1921 کے فروری مہینے میں لندن پہنچا تھا۔ انہوں نے خاص طور پر خلافت کے عنوان پر خلافت کمیٹی، مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک ساتھ لانے کے لیے جو کام کیا، وہ اس دور کا سب سے اہم کام تھا۔

ڈاکٹر انصاری مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کانگریس میں بھی اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ ساری زندگی کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔ 1920، 1922 ، 1926 ، 1929 ، 1931 اور 1932 میں کانگریس کے جنرل سکریٹری رہے۔ 1927 میں وہ مدراس میں منعقدہ 42ویں کانگریس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اس اجلاس کے ل اپنے صدارتی خطبہ میں انہوں نے خصوصی طور پر ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ ان کی تقریر سے متاثر ہو کر مکمل سوراج کی تجویز منظور کی گئی۔ ان کے ہی کوششوں سے چند سال بعد سوراج پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔

ڈاکٹر انصاری کی کاوشوں کی وجہ سے 1934 میں ڈاکٹر راجندر پرساد اور جناح کے درمیان گفتگو ہوئی۔ لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی۔ اس سے ڈاکٹر انصاری کو کافی دھکا لگا، وہیں ان کی صحت بھی گر رہی تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے کانگریس کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ انہیں فرصت کے کچھ پل مل گئے۔ اس دوران ایک کتاب لکھی، ساتھ ہی وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پر توجہ دینے لگے۔

ڈاکٹر صاحب سال 1880 میں 25 دسمبر کو اتر پردیش کے ضلع غازی پور کے قصبہ یوسف پور میں پیدا ہوئے تو ان کے خاندان کا ستارہ ذرا گردش میں تھا، لیکن بچپن ہی سے ان کی طبیعت میں بلندی کے آثار نمایاں تھے۔ غازی پور کے وکٹوریا ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے فوراً بعد ان کا کنبہ حیدرآباد چلا آیا۔ یہاں آنے کے بعد انصاری نے مدراس میڈیکل کالج سے میڈیکل ڈگری حاصل کی اور آگے کی تعلیم کے لیے نظام اسٹیٹ کے ذریعے ملے اسکالرشپ پر انگلینڈ چلے گئے۔ 1905 میں انہوں نے وہاں سے ایم ڈی اور ایم ایس کی ڈگری حاصل کی اور کامیاب طلبا میں پہلے مقام پر تھے۔ جس کی وجہ سے لندن کے ’لاک اسپتال‘ میں ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی وہ رجسٹرار بنائے گئے۔ کچھ نسل پرست برطانویوں نے اس انتخاب پر بہت ہنگامہ برپا کیا۔ تب میڈیکل کونسل نے واضح کیا کہ ان کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہنگامہ تو تھم گیا، لیکن جو تنازعہ کھڑا ہوا اس کی وجہ سے ڈاکٹر انصاری وہاں بہت مشہور ہو گئے۔

اس کے بعد لندن کے چیئرنگ کراس اسپتال میں ہاؤس سرجن کے طور پر منتخب ہوئے۔ اسپتال نے سرجری کے شعبے میں ڈاکٹر انصاری کی قابل ذکر خدمات کو قبول کیا۔ سرجری کے میدان میں ان کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چیئرنگ کراس اسپتال میں آج بھی ان کے کام کے اعزاز میں انصاری وارڈ موجود ہے۔ لندن میں اپنے طویل قیام کے دوران ڈاکٹر انصاری کی توجہ ہندوستانی قومی پیشرفت کی طرف مبذول ہوئی جب وہ لندن آنے والے کچھ ہندوستانی رہنماؤں سے ملے اور ان کی مہمان نوازی کی۔ لندن میں ہی ان کی ملاقات موتی لال نہرو، حکیم اجمل خان اور جواہر لال نہرو سے ہوئی اور ان سے تا حیات دوستی ہو گئی۔ بیرون ملک میں آرام سے زندگی گزارنے کے مواقع رکھنے کے باوجود 1910 میں ہندوستان واپس آئے۔ حیدرآباد اور اپنے آبائی شہر یوسف پور میں ایک مختصر قیام کے بعد انہوں نے دہلی میں فتح پوری مسجد کے قریب ایک ڈسپنسری کھول لی اور موری گیٹ کے قریب رہائش گاہ بنائی۔ بعد میں دریا گنج میں قیام کے لیے آئے۔ یہاں انہوں نے لال سلطان سنگھ سے مکان خریدا اور اپنا ’دار السلام‘ بنایا۔ ان کا یہی ’دار السلام‘ قومی سطح کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس گھر میں گاندھی جی سمیت بہت سے قوم پرست ٹھہرے ہیں۔ ان دنوں دہلی میں منتخب ہندوستانیوں کے پاس ہی اپنی کاریں تھیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی ایک تھے۔

ڈاکٹر انصاری نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فاؤنڈیشن کمیٹی کے رکن تھے، بلکہ اس کے بانیان میں ایک اہم نام ان کا بھی ہے۔ 1927میں ڈاکٹر حکیم اجمل خان کی وفات کے فوراً بعد انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ ان کا ہی فیصلہ تھا کہ جامعہ کو قرول باغ سے منتقل کرکے اوکھلا میں آباد کیا جائے۔ اپنی موت کے وقت تک وہ جامعہ کے ساتھ رہے اور اس کی ترقی کے لیے دن رات سوچتے رہے۔

جامعہ کے کاموں میں مصروفیت کے باوجود ڈاکٹر انصاری رام پور کے نواب کی دعوت پر مسوری گئے۔ 10 مئی، 1936 کی رات واپسی کے دوران ٹرین میں ہی دل کا دورہ پڑا اور پھر ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ ان کے وصیت کے مطابق انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین خان کے مطابق ہمیں ہزاروں دولتیں ملیں گی پر ڈاکٹر انصاری کا سا دل نہ ملے گا۔
***

ترکی کےلیے میڈیکل مشن کی رہبری کی غرض سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی پریکٹس چھوڑ دی، گھر میں جو کچھ بک سکتا تھا، بیچ ڈالا اور زخمی ترکوں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں سے خالی ہاتھ واپس ہوئے اور دوبارہ پریکٹس شروع کی۔ ذرا اطمینان ہو چلا تھا کہ خلافت تحریک شروع ہوئی اور ڈاکٹر صاحب نے پھر اپنا وقت اور روپیہ قوم پر نثار کر ڈالا

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21